تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     16-12-2013

مسلم دنیا

جب بھی میں سنتا ہوں کہ انڈو نیشیا سے مراکش تک،تمام اسلامی دنیاپرجسے امتِ مسلمہ کہا جاتا ہے،ایک اسلامی خلیفہ کی حکومت ہونی چاہیے تو میں حیران ہوجاتا ہوں،یہ بات کرنے والے حقائق کی دنیا سے دُورلاعلمی کے کس قلزم میںرہتے ہیں؟لگتا ہے کہ اُنہیں عالمی امورکی ذرہ برابربھی شُد بُد نہیں یاپھروہ رومانوی دنیائوں میں رہتے ہیں اورحقیقت کی دنیا سے اُن کا کوئی تعلق نہیںہے۔ 
آج کے معروضی حقائق پرغورکریں تو پتا چلتا ہے کہ اس وقت اسلامی دنیا لبرل سوچ رکھنے والوں‘ بنیاد پرستوں‘ اور اس طرح کی لاتعدادگروہ بندیوں میں منقسم ہے جس کی تاریخ میں نظیر نہیںملتی۔ان گروہوں کے باہمی اختلافات سطحی نوعیت کے نہیں بلکہ ہرگروہ کا ایک شدت پسند حصہ دوسروں کوعقائد کے حوالے سے کافرتک قراردیتا ہے۔عربی مسلمان دنیا کے دوسرے خطوں میں رہنے والے مسلمانوں کو نسلی اعتبار سے خود سے کم تر سمجھتے ہیں۔اختلافات اورنفاق کے اس لق ودق صحرا کواتفاق نامی شبنم کا ایک آدھ قطرہ کیونکرسیراب کر سکتا ہے؟کیا بکھرے ہوئے سنگ ریزوں سے کوئی عمارت تعمیر ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔تو پھر مسلمانوں کے یہ تمام گروہ کس طرح ایک خلیفہ کوقبول کرلیں گے ؟اگر ہم ابھی تک عبادت کے کسی ایک متفقہ طریقے کواپنانے میں ناکام ہیں تو پھر ہم ایک خلیفہ کوکس طرح متفقہ طورپرچن سکتے ہیں؟
ماضی میں جب سادہ اور محدود قبائلی نظام تھا تو قبیلے کے کچھ بڑے مل کر اپنا لیڈر چن لیتے تھے جو عوام کے بجائے اُنہی میںسے ایک ہوتا تھا، لیکن آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ڈیڑھ ارب سے زائدمسلمان جن کی تہذیب، تمدن، سوچ، معیارِ زندگی، زبان، تاریخ، ادب، جغرافیائی خدوخال وغیرہ ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں، ایک رہنما پر کس طرح اتفاق کر سکتے ہیں؟سب سے افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوںکو ان کے عقیدے کی غلط تشریح نے متحد کرنے کے بجائے تقسیم کر دیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تقسیم کی لکیر نہ صرف گہری ہوتی جارہی ہے بلکہ اس میں تشددکا عنصر بھی غالب آتا جارہا ہے۔ 
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیںکہ میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے ان اختلافات کو ضرورت سے زیادہ نمایاں کررہا ہوں تو آپ صرف ایک نظر پاکستان، مشرقِِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے حالات پر ڈال لیں، دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔ تونس میں‘ جہاں سے ‘بہارعربِ کا آغاز ہوا‘ ایک دینی گروہ سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں نے نوخیز جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ اس ملک میں‘جہاں مغربی افکار کی طرف رغبت پائی جاتی ہے‘انتہا پسندوں اور سیکولر سوچ رکھنے والوں میں شدید قسم کی محاذآرائی جاری ہے۔ لیبیا کے معاشرے کو قبائلی تقسیم نے پارہ پارہ کر دیا ہے۔یہاں اخوان المسلمون کے حامی شریعت پر مبنی اسلامی ریاست قائم کرنے کے جدوجہد کر رہے ہیں۔ان کی مخالف جمہوریت پسند قوتیں ہیں جنھوںنے قذافی حکومت کے خلاف جدوجہد کی تھی۔یہاں مختلف علاقوں خصوصاً تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے مسلح گروہوںمیں جنگ جاری ہے۔ ملک میں تشدداورلاقانونیت کا دوردورہ ہے۔ 
شام میں جاری خانہ جنگی تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہے۔بشارالاسدکی فوجیں، جہادی دستوں(جن میں بہت سے دوسرے ممالک سے بھی آئے ہیں)اورڈیموکریٹس کے خلاف جنگ کررہی ہیں۔جہادی گروہ اور ڈیموکریٹس بھی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکارہیں۔ان سب کا مقصداسد حکومت کو گرا کر اپنی اپنی حکومت قائم کر نا ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ یہاں سنیوں اورعلویوں کے درمیان بھی جھڑپیں دیکھنے میں آئی ہیں۔جوفریق جس علاقے پر قبضہ کرتا ہے،مخالفین کا صفایاکردیتا ہے۔عراق میں القاعدہ سے وابستہ جنگجو ملک میں تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کرتے ہوئے عراق اورشام پر مشتمل ایک عظیم اسلامی ریاست تشکیل دینے پرکمر بستہ ہیں۔ٹائم میگزین کی رپورٹ کے مطابق صرف 2013ء میں اب تک شام کے آٹھ ہزار سے زائدشہری ہلاک ہوچکے ہیں۔امریکی افسروںکا کہناہے کہ افغانستان میں گزشتہ دو عشروں سے جاری لڑائی میں اتنے غیر ملکی جنگجو نہیں آئے تھے جتنے شام میں اڑھائی برسوں میں پہنچ چکے ہیں۔اسی سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 
مصر میں ایک طرف فوج ہے تو دوسری طرف اخوان ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ صدر مرسی انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے لیکن اُنھوںنے راتوں رات مصرکے معاشرے کوقدامت پسند ی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جس کی سول سوسائٹی کی طرف سے مزاحمت ہوئی۔اس وقت حال یہ ہے کہ دونوں طرف سے ہونے والے زیادتیوںنے جمہوری قدروں کوداغدارکرتے ہوئے فوج کوکارروائی کرنے کا جوازفراہم کردیا ہے۔عرب دنیا کے اس اہم ترین ملک کے سینے پر لگنے والا یہ زخم مندمل ہونے میں طویل عرصہ لگے گا۔جہاں تک یمن کا تعلق ہے،اس میں سماجی کشمکش میںکچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن لگتا ہے کہ یہ ملک اپنے آپ سے حالتِ جنگ میںہے۔ یہاں مختلف قبائل، بنیاد پرستوں اورفوج کی پشت پناہی سے سامنے آنے والے لبرل نظریات کے حامل گروہوں میں تنائو کی وجہ سے القاعدہ کے لیے میدان ہموارہورہا ہے۔کوئی دن جاتا ہے کہ عرب دنیا کے اس حساس ملک سے بری خبریں آنا شروع ہو جائیں گی۔ 
دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان کے لوگ بھی معتدل اسلام رکھتے ہیں۔ یہاں بنیادی طور پر صوفی بزرگوں کا خانقاہی نظام تھا۔ یہ نظام اعتدال پسند اور انسان دوستی پر مبنی ہے۔ افسوس کہ گزشتہ چاردہائیوںسے اسلامی دنیا زوال کا شکار ہے،انتہا پسندی اورعدم برداشت کو ہوا دی جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں خلافت کا تصور خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved