تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     16-12-2013

تاریخ بنام جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری

''مائی لارڈ ، سپریم کورٹ بنیادی حقوق کے نام پر جن مقدمات کی سماعت کرتی ہے، ان کی غیر معمولی پبلسٹی مجھے پریشان کرتی ہے کیونکہ اس طرح کے مقدمات تو بآسانی ضلعی عدالتوں میں سیشن ججوں کے سپرد کیے جاسکتے ہیں۔یہ بات اوربھی تکلیف دہ ہے کہ آپ نے جس انداز میں ایک خاتون کو سپریم کورٹ کے ذریعے بازیاب کرایا اورپھراس معاملے کی جس طرح میڈیا کوریج ہوئی، اسے بار روم میں میڈیا سرکس کا نام دیا جاتا ہے۔ مائی لارڈ، میرا یہ خط شاید آپ کو ناراض کردے گا، ویسے تو کوئی بھی چھوٹی سی بات آپ کو ایک لمحے میں غصے میں لے آتی ہے، لیکن آپ میری گزارشات پرغور ضرور کریں۔ غالباًآ پ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ آپ کے ساتھی جج آپ کے بارے میں کیا محسوس کرتے اورکہتے ہیں۔مائی لارڈ،اس سے پہلے کہ بغاوت ہوجائے، اس سے پہلے کہ وکلاء آپ کے خلاف متحد ہوجائیں، اس سے پہلے کہ یہ سارامعاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھا جائے، ابھی وقت ہے کہ معاملات کو درست کرلیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ آپ دانائی کے ساتھ سپریم کورٹ میں سنجیدگی،وقاراور سکون واپس لے آئیں گے تاکہ یہاں انصاف بھی ملے اور رحم بھی کیا جائے۔مائی لارڈ، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے بارے میں فیصلے حال کی بنیاد پرہوتے ہیںاورتاریخ بھی ہمیں پرکھتی ہے ،آپ کے بارے میں ہونے والا حال کا فیصلہ تو آپ کے خلاف ہی جاتا دکھائی دیتا ہے‘‘۔ 
یہ الفاظ نعیم بخاری ایڈووکیٹ کے اس کھلے خط کے آخری پانچ پیروں میں درج ہیں جو انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد
چودھر ی کے نام فروری 2007 ء میں لکھا تھا۔ اسی خط میں پہلی بار ان کے بیٹے ارسلان افتخار کا نام اور قابلیت موضوع گفتگو بنی اور اسی خط سے واقعات کے اس تاریخی سلسلے نے جنم لیا جو جنرل پرویز مشرف کی آمریت کو بھی بہالے گیا۔ جس چیف جسٹس پر'میڈیاسرکس‘ لگانے کا الزام لگایاگیا وہ خبرکے مطلع پر یوں چھا گیا کہ9 مارچ 2007 ء سے 11دسمبر 2013 ء تک کوئی دن ایسا نہیں رہا جب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا نام اخبار کے پہلے صفحے اور ٹی وی کی شہہ سرخیوں میں نہ رہا ہو۔نعیم بخاری نے اپنے خط میں ان کے بیٹے کے معاملات کے ساتھ عدالت میں ان کے رویے پر جو اعتراضات اٹھائے تھے، وہ بھی دھیمے سروں میں ہی سہی، مسلسل دہرائے جاتے رہے۔وقت کی ستم ظریفی ہے کہ حالات کا فیصلہ نعیم بخاری کے خلاف چلا گیا جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری غیر فعالیت ، معزولی اورنظر بندی کے سنگِ میل عبور کرتے ہوئے ایک بار پھر اسی مسند پرجا فائز ہوئے جہاں سے انہیں اتارنے کی کوشش جنرل پرویز مشرف نے کی تھی۔
جسٹس افتخار محمد چودھری کی قاضی القضاۃ کے منصب سے علیحدگی کے بعد نعیم بخاری کے خط سے شروع ہونے والے واقعات کا سلسلہ تھم گیا ہے۔دونوں حضرات واقعات پر اپنا اختیار کھو چکے ہیں،اس لیے کل تک جن معاملات کا تجزیہ صحافتی حوالوں سے ہوتا تھا اب تاریخی حوالوں سے ہوگا۔ صحافت کبھی اپنی تیز رفتاری کے باعث اور کبھی مجبوری کی وجہ سے جن باریکیوں کو دانستہ یا نادانستہ نظراندازکردیتی ہے، تاریخ نہیں کرتی۔صحافی کے سامنے آج کی خبر ہوتی ہے مورخ کے سامنے سارا کچا چٹھا۔ پاکستان کے سابق وزیراطلاعات جاوید جبار نے ایک بارنوآموزصحافیوں کو بتایا تھا کہ ''حالات کودرست انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ واقعات پرکچھ وقت گزرچکا ہوکیونکہ فوری تجزیے کے نتائج میں غلطی امکانی نہیں یقینی ہوتی ہے‘‘۔نعیم بخاری کا خط جب پہلی بارمنظرعام پرآیاتواس پرفوری ردعمل امکان و یقین کے درمیان ہی تھا،کچھ اسے حقائق کا آئینہ دارسمجھتے تھے اورکچھ کے خیال میں محض ایک پیشہ ور وکیل کے ذاتی رنج کا اظہار۔یہ تو کئی دن بعد ہواکہ جب عدلیہ بحالی تحریک کی منہ زوری دیکھ کر بڑے بڑوں نے چیف جسٹس افتخار محمد
چودھری کی تائید میں ہی عافیت جانی تونعیم بخاری بھی منہ سر لپیٹ کے ایک طرف ہوگئے۔ان کا خط بالاتفاق ایک سازش کا نقطۂ آغازقرار پایا جس کا مقصد ملک سے قانون و انصاف کی حکمرانی کا خاتمہ تھا لیکن یہ 'سازش‘ اس بری طرح ناکام ہوئی کہ عدلیہ پہلے سے کہیں طاقتور ہوکر انتظامیہ کے سر پر سوار ہوگئی۔ازخود نوٹس کا اختیاراتنا وسیع ہواکہ شراب کی دو بوتلیں بھی اس کی زد سے نہ بچ سکیں۔وکیلوں سے لے کر وزیر اعظم تک توہین عدالت کی ٹکٹکی پرکس دیے گئے، ریاست میں کوئی اتنا بلندقامت نہ رہاجوقانون کے قصرِ سفید میں پہنچ کر زمین بوس نہ ہوا ہو۔وہ کج کلاہ جن کا اشارۂ ابرو بھی افتخارعدالت کی بحالی کے لیے استعمال ہوا تھا طلبی سے بچنے کے بیماری کے کاغذ پیش کرنے لگے۔ اورتواورچند دن پہلے اس وزیراعظم کو بھی ایک دفعہ پھر بارگاہِ قانون میں طلب کر نے کا حیلہ پیدا ہوگیا جس نے اپنے لانگ مارچ کے ذریعے عدلیہ بحال کرائی تھی۔وہ توخیر گزری کہ وزیر اعظم نے اپنی ٹوپی سے وزارت دفاع کا پرنکال کرخواجہ آصف کے سر کی کلغی بنا دیا ورنہ دوسری طرف سے توکوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔کل یہ سب خبریں تھیں،آج تاریخ ہے۔ 
تاریخ میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک جج عوامی مقبولیت کی وہ بلندی حاصل کرلے جو جسٹس افتخار محمد چودھری کا نصیب ہوئی۔ان کی مقبولیت نعیم بخاری کے اٹھائے ہوئے سوالوں،جنرل پرویزمشرف کی طاقت اورآصف علی زرداری کی سیاسی چالوں سے کھینچے ہوئے حصارکو پھلانگ کرگلی کوچے کی مکین ہوگئی۔ ایک قانون دان کو انصاف کاعلمبردارمان کر قوم نے ان کی ہر بات
کرحرز جان بنا لیا۔انہوں نے اپنی مقبولیت کے بل پر بنامِ انصاف، قانون کو وہ معنی دے دیے جواکثرکے قیاس میں بھی نہیں آتے۔ان کے کیے ہوئے فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ انہوں نے بے رحمی سے ریاستی انتظامیہ کو عوام کے سامنے ننگاکرکے رکھ دیا۔انہی کے ذریعے ہمیں پتا چلا کہ آج تک ہماری ریاست میں طاقتور کی منشا ہی دستور رہی ہے، انہی کی عدالت میں بھیدکھلے کہ اعلیٰ سرکاری اداروں کے سربراہ بننے کے لیے ضروری قابلیت یہ ہے کہ آپ نے کسی بڑے سیاستدان کو بیرونِ ملک کتنی عشرت گاہوں میں کھُل کھیلنے کے مواقع مہیا کیے ہیں۔ یہ حوصلہ جسٹس افتخار چودھری نے ہی کیا کہ پاکستان کی سب سے ارزاں جنس یعنی پاکستانیوں کو اتنی عزت ضرور ملے کہ ان میں سے کوئی لاپتا ہوجائے تو اسے کھوج کر لایا جائے۔انہوں نے بہت کچھ کیا لیکن یہ بھی سچ کہ بہت سے کام جج نہیں کرسکتے۔انہوں نے وزیراعظم کے ہاتھ توقانون کی رسی سے باندھ دیے، لیکن پٹواری کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ انہوں آئی جی کو پکڑ لیا لیکن تھانیدا ر ان کے چنگل سے بچ نکلا، اکثر معاملات میں انہوں نے بدعنوانی پر تو ہاتھ ڈال دیا لیکن بدعنوان چکنی مچھلی کی طرح نکل گیا۔عدالتوں پر ان کی گرفت مستحکم رہی لیکن وکلاء کی نازبرداریوں میں ہی لگے رہے۔جسٹس افتخار چودھری اپنی مقبولیت سمیت اب تاریخ کا حصہ ہوگئے ہیں اور تاریخ کسی کے قوت و جبروت کو خاطر میں لاتی ہے نہ شہرت کو دلیل سمجھتی ہے۔ ان کا مقدمہ اب تاریخ سنے گی ، نعیم بخاری کا خط بھی استغاثہ کا حصہ ہوگااور فیصلہ۔۔۔۔۔۔نجانے کیا ہوگا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved