تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-12-2013

\'\'A WEDNESDAY\'\'

ممبئی حملوں 26/11) ( کے چھ سال مکمل ہونے پراقوام متحدہ کی طرف سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان حملوں میں ملوث ملزمان کوکیفرکردارتک پہنچایا جائے۔ اپنے چارٹر کے مطابق اقوام متحدہ کسی مخصوص بلاک یا خاص طاقتوں کے مفاد کا نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک،امیر ہوں یاغریب، بڑے ہوںیا چھوٹے،سب کے مفادات کا محافظ ہے۔کیا یہ مطالبہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ذمہ داروں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ حملہ کن طاقتوں کی طرف سے کرایا گیاتھا؟جس دن اقوام متحدہ کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا عین اسی دن ٹائمزآف انڈیا نے کھل کرلکھا کہ یہ امریکی سی آئی اے کا ترتیب دیا گیا آپریشن تھا۔کاش اقوام متحدہ یہ بھی مطالبہ کرتی کہ کراچی میں مہران بیس پر حملہ کس کے کہنے پر کیا گیا ؟کامرہ میں پاکستان ائرفورس کے بیس پرحملہ کس ملک نے کرایا؟لاہورمیںآئی ایس آئی کے دفتر پرحملہ کس کی مدد سے ہوا؟ گلگت اورچلاس میں قتل عام کس کے کہنے پر ہوا؟جس کے ملزمان بھی سب کے سامنے ہیں۔
امریکہ کے سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے 24 فروری2008 ء کو نئی دہلی ائر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان حملوںکاالزام براہ راست پاکستان پرلگا تے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر بھارت میں کسی بھی جگہ پر ممبئی طرزکا اورکوئی واقعہ ہواتوہم بھارت کو پاکستان پرحملہ کرنے سے نہیں روکیں گے۔کیااس طرح کی دھمکیاں کسی آزاد ملک کی خود مختاری کوچیلنج کرنے کے مترادف نہیں؟رہی بات بھارت کی تو اس نے ہمیشہ کی طرح اس حملے میں آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ کو ملوث کرتے ہوئے اسے ان کا مشترکہ آپریشن قرار دیا۔ممبئی حملوں کی اصل حقیقت سے اقوام متحدہ بے خبر ہو سکتی ہے لیکن اقوام عالم سمیت عالمی میڈیا نہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ میڈیا نے ڈیوڈ ہیڈلی کاتعلق سی آئی اے اوربھارتی ایجنسیوں سے ثابت کرتے ہوئے چھ سال سے رچائے جانے والے اس ڈرامے کوان دو ممالک کی ایجنسیوں کی مشترکہ کاوش قراردیا ہے۔ 26نومبر2008ء کوممبئی کے تین اطراف سے بیک وقت دہشت گردانہ کارروائیوںکا آغازہوا،وہ بدھ کادن تھا۔جونہی بھارت سمیت دنیا بھرکے ٹی وی چینلز پرحملوں کی کوریج شروع ہوئی توکچھ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے چند ماہ قبل بھارت کے سینمائوں میں دکھائی جانے والی ایک فلم کے منا ظرگھومناشروع ہوگئے۔یہ فلم نریج پانڈے نے یُوٹی وی موشن پکچرزکے لیے''AWEDNESDAY'' کے نام بنائی تھی۔جن لوگوں کو یہ فلم اور ممبئی حملوں کی براہ راست کوریج دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ فلم میں سردیوں کی ایک شام اچانک کچھ دہشت گرد ممبئی کے تاج محل اور اوبرائے ہوٹل پر قبضہ کرکے وہاں موجود لوگوں کو یر غمال بنا لیتے ہیں اورممبئی پولیس کے کمشنرکو فون پر الٹی میٹم دیتے ہیں کہ ہمارے چار ساتھیوں کوجو اس وقت بھارت کی قید میں ہیں فوری رہا کیا جائے ورنہ تاج محل اور اوبرائے ہوٹل میں یر غمال بنائے گئے مقامی اور غیر ملکیوں کو ایک ایک کرکے قتل کر دیا جائے گا۔
کیا آپ یقین کریں گے کہ بھارت کی فلمی تاریخ میں نیرج پانڈے کی اس فلم کوطاقتور حلقوں کے حکم سے سینمائوں سے صرف پانچ دن بعدواپس لے کر ڈبوں میں بند کرکے نا معلوم مقام پر محفوظ کرلیاگیاتھا۔اس کے بعد آج تک اس فلم کو نمائش کی اجازت نہیں دی گئی؟یہ فلم ڈبوں میں بندہونے کے چند ماہ بعد 26 نومبرکی رات نو بج کر بیس منٹ پر ممبئی وکٹوریہ ٹرمینل،نریمان ہائوس،تاج محل اوراوبرائے ہوٹل میں اس کا حقیقی زندگی میں ری ٹیک شروع ہوگیا۔واقعات اورمقامات توایک تھے لیکن ان دوفلموں میں فرق صرف اتنا تھا کہ نیرج پانڈے کی" "A WEDNESDAY کو بھارت کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے سینمائوں میں دکھایا گیا لیکن سی آئی اے اوررا کی مشترکہ پروڈکشن کادوسرا حصہ پوری دنیاکومسلسل 60 گھنٹے تک براہ راست دکھایا جا تا رہا۔یُو ٹی وی کے بینر تلے تیار کی گئی نیرج پانڈے کی فلم'' ایک بدھوار‘‘ ابھی تک بھارت کے کسی نا معلوم مقام پر ڈبوں میں بند ہے لیکن26/11 کی فلم آج چھ سال بعد بھی اقوام متحدہ سمیت بھارتی حکمرانوں کے حواس پراس قدرچھائی ہوئی ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے چھبیس گیارہ کی گردان کیے جارہے ہیں؛حالانکہ ان حملوں میںزندہ پکڑے جانے والے ''واحد دہشت گرد‘‘اجمل قصاب کوٹھکانے بھی لگا یاجاچکا ہے۔
بالی وڈ کی عام فلموں کی طرح اس فلم کے دوسرے حصے میں سب نے دیکھا ہوگا کہ چند دہشت گردگولیوں سے بھری میگزینوں سے پُربھاری تھیلوں اورآٹو میٹک ہتھیاروں سے سے لیس ممبئی کی درجن بھر سکیورٹی فورسزکی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ممبئی کے تین اطراف سے حملہ آور ہوجاتے ہیں۔کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ اجمل قصاب نامی دہشت گرد جو بقول بھارتی حکومت لشکر طیبہ کا رکن تھا،ممبئی کے وکٹوریہ ٹرمینل پرصرف ان چھپن خواتین کوگولیوںکا نشانہ بناتا ہے جنہوں نے برقعے پہنے ہوئے تھے۔وہ ان داڑھی والے مردوں کوبھی کلاشنکوف کی گولیوں کا نشانہ بناتا ہے جنہوں نے سفید ٹو پیاں پہنی ہوئی تھیں۔کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ ممبئی پرحملہ آور ہونے والے مبینہ دس دہشت گردوں میں سے صرف اجمل قصاب ہی بھارتی فورسز کے ہاتھوں زندہ حالت میں گرفتار ہوا؟کیا یہ بات بھی حیران کن نہیں کہ نودہشت گردوں کو بھارتی فورسززندہ 
گرفتارکرنے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کرتیں اورانہیں تاک تاک کرگولیوں کے برسٹ ماردیے گئے۔اجمل قصاب کی ٹانگ کے صرف گوشت والے حصے پرگولی مارکرزندہ گرفتارکیاگیا۔کیا دوسرے دہشت گردوں کے مقابلے میں اجمل قصاب کو ختم کرنے میں کوئی خاص رکاوٹ تھی؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اجمل قصاب بھارتی ایجنسیوں کے پہلے سے تیار کیے گئے سکرپٹ کا ایک اہم حصہ تھا؟ 
پونا سے شائع ہونے والے بھارت کے سب سے بااثرانگریزی اخباردی ٹائمزآف انڈیا نے اپنی29 نومبرکی اشاعت میں صفحہ پانچ پراجمل قصاب کی ایک تصویرشائع کی جو بالکل سامنے سے تیس فٹ کے فاصلے سے اتاری گئی تھی۔اس تصویرکوپورے بھارت کے باقی تمام اخبارات نے شائع نہیں کیا،یہ تصویرکسی بھی اخبارمیں دوبارہ شائع نہیں کی گئی اور آج تک کسی بھارتی اخبار نے اس تصویر کی ملکیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔اس کی وجہ صرف اورصرف یہ ہے کہ سی آئی اے اور را کے اعلیٰ افسر گھبرا گئے تھے کہ اگر یہ تصویر عام ہو گئی تودنیا بھرکا میڈیا اورایجنسیاں سوال اٹھانا شروع ہو جائیں گی کہ اجمل قصاب نے اتنے قریب سے اپنی تصویر اتارنے والے کو زندہ کیسے جانے دیاجبکہ شیوا جی اسٹیشن کے چشم دیدگواہ فوڈسٹال منیجرششی کمارسنگھ کا بھارت کے تفتیشی اداروں کو دیے گئے بیان میں کہا گیاتھاکہ''حملہ آوروں نے اپنے چہرے نقاب سے ڈھانپے ہوئے تھے‘‘۔ یہ بیان آج بھی کرائمز برانچ کی طرف سے عدالت میں پیش کی جانے والی تفتیش کا باقاعدہ حصہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved