جیلیبی کا کاروبار ترکی کے استنبول کے باہر‘ اناطولیہ کے ایسے علاقوں تک توسیع پا گیا جہاں ٹیلی فون صرف 1980ء کے عشرے میں عام ہوا تھا اور کیبل کے ذریعے ٹیلی ویژن 1990ء کے عشرے میں پہنچا تھا۔ المیرا بیراسلی کے مطابق کئی عشرے ترکی کو تخلیقی، ٹیکنالوجیکل اور معاشی اعتبار سے پسماندہ تصور کیا جاتا رہا۔ صدیوں کو محیط عثمانی حکومت کے دوران ترک‘ تجارت اور کاروبار میں آرمینیائیوں، یونانیوں اور یہودیوں سے پیچھے رہے ۔
جدید ترکی میں دیگر مسائل ابھر آئے ۔ اقربا پروری، لال فیتہ، قانون کی کمزور حکمرانی اور سرمایہ کاروں اور صلاحیتوں کے فقدان کے باعث‘ ترکی کی منڈیاں بھی دیگر ترقی پذیر ملکوں کی منڈیوں کی طرح مندے کا شکار رہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس کے قوانین پر عمل کرنے کے لیے بنائے گئے بھاری بھرکم کھاتوں اور کاروبار کے مالک کی شخصی منظوری کی حامل‘ لاتعدادپرچیوں نے بھی ایسا ہی اثر ڈالا۔ المیرا بیراسلی کے مطابق ترک قوانین کے تحت جیلیبی کی کمپنی ایئر ٹائیز اُن کی شخصی ذمہ داری تھی۔ انہیں لمیٹڈ ذمہ داری یا تحفظ حاصل نہیں تھا۔اگر ان کی کمپنی ناکام ہو جاتی تو ان کا گھرانہ سب کچھ کھو بیٹھتا۔
یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کی غرض سے‘ ترکی کے حکمرانوں نے آخرِ کار 1990ء میں ملک کی بیوروکریسی کی چھانٹی کرکے ‘ترکوں کے لیے کاروبار رجسٹر کروانا‘ لائسنس حاصل کرنا‘ تجارت کرنا اور سرمایہ ملک کے اندر اور باہر آزادانہ لانا‘ لے جانا‘ آسان تر بنا دیا۔ ترکی کے کپاس کے بیوپاریوں نے لیوائز اور ٹومی ہل فگر کے ساتھ سودے کیے۔ ڈوگتاس جیسے اناطولی فرنیچر سازوں نے یورپ کی بڑی فرنیچر کمپنیوں کے ساتھ کاروباری معاہدے کیے۔ سرمایہ تیزی سے ملک میں آنے لگا اور ایک متوسط طبقے نے جنم لیا۔ ایک سعد دائرے کے طور پر ترکی کے ابھرتے ہوئے متوسط طبقے نے جیلیبی جیسے نئے کاروباریوں کو ترقی کے مواقع مہیا کیے۔
ولی نصر نے رچرڈ ہالبروک کا سینئر مشیر بننے سے پہلے 2009ء میں یہ صورت حال اپنی کتاب Forces of Fortune: The Rise of the New Muslim Middle Class and What It Will Mean for Our World میں بیان کی۔ وہ لکھتے ہیں ''اقتصادی طاقت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو منتقل ہو گئی اور اناطولیہ معاشی نمو کے بڑے مرکز کے طور پر‘ استنبول سے بہت آگے نکل گیا‘‘۔
آج ایئرٹائیز خطے میں وائرلیس رائوٹر کی مارکیٹ پر غلبہ رکھتی ہے۔ بیراسلی نے لکھا ہے کہ ''صرف ترکی میں وائرلیس مارکیٹ میں یہ کمپنی 50 فی صد کاروبار پر حاوی ہے۔ یہ دسیوں لاکھ ڈالر کما رہی ہے اور اگلے چند برسوں میں اپنے حصص فروخت کے لیے پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔‘‘ اس وقت ترک معیشت‘ دنیا کی سترہویں بڑی معیشت ہے۔ ترک معیشت یورپی یونین کے ستائیس رکن ملکوں میں سے‘ چھ کے سوا باقی سب سے بڑی ہے۔ یہ وہی یورپی یونین ہے جس نے ترکی کو 49 سال سے رکنیت کے لیے منتظر رکھا ہوا ہے۔ بہت سے ترکوں کے لیے یورپی یونین کی رکنیت اب کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ وہ اپنا مستقبل عالمی مارکیٹ میں دیکھ رہے ہیں۔
اردوعان کے ناقدین نے متنبہ کیا ہے کہ معاشی نمو میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اے کے پی اور اناطولی ٹائیگر‘ ایک بدعنوان اور تنگ نظر سیاسی و اقتصادی اشرافیہ کو جنم دے رہے ہیں‘ جو بالآخر نمو کو سست کر دے گی۔ حکومت رازداری سے ایسی کمپنیوں کو نفع بخش پروجیکٹس دے رہی ہے‘ جن کے اے کے پی کے عہدہ داروں سے مراسم ہیں۔ اس طرح اے کے پی کی سرپرستی کا ایک بہت بڑا کارخانہ وجود میں آ چکا ہے۔
استنبول کی قدیرہس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر سولی اوزل کو یقین نہیں کہ اردوعان ''انتخابی آمریت‘‘ کی طرف جا سکتے ہیں۔ ترکی میں انتخابات منعقد ہوں گے لیکن ان کے نتائج پر شک بالکل نہیں کیا جائے گا۔ سولی اوزل نے متنبہ کیا کہ مغرب کے مسلسل سیاسی اور معاشی جمود کی وجہ سے چین کی اونچی شرحِ نمو اور یک جماعتی حکمرانی‘ دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ پُرکشش بنتی جا رہی ہے۔ انہوں نے پیش گوئی کی: ''مغرب اپنے اقتصادی بحران سے نہیں نکلا تو یہ 1930ء جیسی صورت اختیار کر جائے گا۔ جمہوریت کشش کھو بیٹھے گی اور آمریت کی کشش میں بہت اضافہ ہو جائے گا‘‘۔
اردوعان کہہ چکے ہیں کہ ترکی کے نئے آئین میں‘ صدارتی طرزِ حکومت اپنایا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو 2015ء میں اپنی وزارتِ عظمیٰ کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد‘ اردوعان پیوٹن کی طرح ایک ہمہ مقتدر صدر کی حیثیت سے ترکی پر حکومت کر سکتے ہیں۔
اردوعان کے لیے ایک اور راستہ بھی ہے۔ نئے آئین کی تشکیل و ترتیب‘ ان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے اقتدار کی بجائے ترکی کو مضبوط بنائیں۔ اقلیتوں کو زیادہ حقوق دے کر کردوں کی شورش ختم کی جا سکتی ہے‘ جو 1980ء سے چالیس ہزار جانوں کا نذرانہ لے چکی ہے۔ اقتدار و اختیار کو مرتکز کرنے کی بجائے‘ انہیں مختلف اداروں کو دینے والی آئین کی امتناع عائد اور توازن پیدا کرنے والی شقیں‘ جمہوریت کے ساتھ اردوعان کی وابستگی پر اعتبار بحال کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی کا فروغ پذیر متوسط طبقہ‘ طویل عرصے تک ترکی اور خطے میں استحکام کا سرچشمہ بن سکتا ہے۔
دو متضاد و متخالف ترکی نمود پذیر ہیں۔ ایک ترکی جدید اور خوش حال قوم ہے جو خطے کے لیے نمونہ ہے۔ دوسرا ترکی ایک منتخب مگر خلجان کی شکار حکومت والا ترکی ہے‘ جو اپنے متصورہ دشمنوں کو سینکڑوں کی تعداد میں جیلوں میں ڈال دیتی ہے۔
شام میں خانہ جنگی نے شدت پکڑی تو ترکی کے اندر بھی کشیدگی بڑھ گئی۔ نومبر 2012ء میں ترکی نے جن شامی پناہ گزینوں کو ملک میں آنے کی اجازت دی‘ ان کی تعداد 120000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ کاروباری حضرات شکوہ کناں ہیں کہ تجارت ختم ہو گئی ہے اور پناہ گزین کیمپوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کرد علیحدگی پسندوں نے مسلسل حملے کیے تو اردوعان نے ادیبوں‘ اساتذہ‘ منتخب میئروں اور طلبا سمیت ہزاروں افراد کو‘ کرد علیحدگی پسندوں سے روابط رکھنے کے الزام میں جیلوں میں ڈلوا دیا۔
ترک مبصرین نے متنبہ کیا ہے کہ کرد شورش ملک کے استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر اردوعان مکالمہ شروع کرنے کی دلیرانہ پیشکش کرنے میں ناکام رہے تو یہ تنازع ترکی کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔
امریکہ کو چاہیے وہ اردوعان پر زور دے کہ وہ جمہوری اصولوں کی پابندی اور یورپ کی مثال پر عمل کریں۔ 1989ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد‘ یورپ نے پندرہ سال تک ترکی کے لیے واضح پالیسیوں پر عمل کیا تھا۔ ترکی کو آزاد منڈی‘ جدید عدالتی نظام اور جمہوری ادارے وضع کرنے کے لیے مراعات و سہولیات پیش کرنے کے نتیجے میں ترکی خود اصلاح کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا۔
یہ عمل سست رَو تھا اور اس میں کئی بار ناکامیاں بھی پیش آئیں۔ 2002ء کے اوائل تک ترکی اقتصادی مندی اور قرض کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ امکان ہے کہ 2013ء میں اس کی معاشی نمو سست رہے گی لیکن ترکی اس امر کی مثال ہے کہ مغربی ٹیکنالوجی‘ صارفیت‘ تھوڑے سرمائے سے کاروبار کرنے کا نظام اور سرمایہ کاری کسی بھی ملک کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتی ہے۔ عراق اور افغانستان کے برخلاف‘ ترکی اسلام کی ایک ایسی نئی تعبیر کی متاثر کن مثال ہے‘ جسے بیرونی لوگوں کی بجائے خود مسلمانوں نے وضع کیا ہے۔ ‘‘ (ختم شد)