پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف اوروزیراعظم نوازشریف کے معتمد خاص برائے خارجہ امورطارق فاطمی نے گزشتہ ہفتے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو دو طرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے ایک روڈ میپ پیش کیاجس میں سکیورٹی ایڈوائزروں کے درمیان ملاقاتوں کی بحالی اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے احیاکی تجاویز شامل ہیں۔من موہن سنگھ سے ملاقات کے بعد شہباز شریف نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تجارت، عوامی تعلقات اورکلچرجیسے امور پردیرپا پیش رفت تبھی ہوسکتی ہے جب سٹریٹیجک امور پر بھی خاطرخواہ پیش رفت ہو۔انہوں نے برملا کہاکہ تجارت اورکلچر وغیرہ کے فروغ کی آڑ میں حل طلب امور یعنی کشمیر،سرکریک اور سیاچن کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔
اس سفارتی تگ ودوکی اہمیت اپنی جگہ مگریہاں تجزیہ کارحیران ہیں کہ اس وقت جب بھارتی سیاست بحران کا شکار ہے اور وزیراعظم سنگھ اپنے اقتدار کے آخری دن گزاررہے ہیں وہ کیونکر پاکستانی تجاویز پر فیصلہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں!حال ہی میں شمالی بھارت کے چاراہم صوبوں راجستھان، دارالحکومت دہلی، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں جس طرح حکمران کانگریس پارٹی کوکراری شکست ہوئی اس سے وزیراعظم سمیت پورے حکمران ٹولے کا مورال پست ہوااور یہ بھی عیاں ہے کہ اب پاکستان میں بھارت یا اس سے متعلقہ امور شاید ہی انتخابی موضوع بنتے ہوں لیکن بھارت میں اس کے برعکس پاکستان انتخابی تقریروں کا لازمی جزہوتا ہے۔
ان چارصوبوں میں کانگریس کواکثرنشستیں مسلمان علاقوں
سے ہی حاصل ہوئیں۔ دہلی میں اس کے آٹھ کامیاب امیدواروں میں چارمسلمان اورایک دلت ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کایہ رجحان بھی دیکھنے میں آیاکہ جہاں کانگریس نے ان کے حقوق کی پاسداری نہیں کی اور ان کوبَندھوامزدور کی طرح ووٹ بینک سمجھا، وہاںانہوں نے اس پارٹی کی حمایت سے ہاتھ کھنچ لیے؛چنانچہ مغربی صوبہ راجستھان میں مسلمانوں نے ،جو صوبے کی آبادی کا تقریباًگیارہ فیصد ہیں،کانگریس کو دھول چٹائی۔کانگریس نے یہاںسولہ مسلمانوں کو ٹکٹ دیے تھے جونہ صرف سب کے سب ہار گئے بلکہ کچھ کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئیں۔سرحدی اضلاع باڑمیر، جیسلمیر، جالوراوربیکانیرمیں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )کے حق میں ووٹ دیے۔یہاں ایک حلقے میں مسلمانوں نے بی جے پی کے امیدوارمانوندر سنگھ کی کامیابی میں اہم کردارادا کیا۔ سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے صاحبزادے مانوندرکامقابلہ سینئر صوبائی وزیر امین خان کے ساتھ تھاجو اس حلقے سے چاربارمنتخب ہوچکے تھے۔ مقامی مسلمانوں کو شکایت تھی کہ جب ایک مدرسے کے پانی کے کنکشن کے لیے وہ امیں خان کے پاس گئے تواس نے ان کو دھتکارا،لیکن مانوندرکے ایک دست راست اور بی جے پی کے مقامی لیڈر ظالم سنگھ نے اپنی کوششوں سے گزشتہ برس ایک ہفتے میں ہی مدرسے کے لیے پانی کا کنکشن لگوادیا۔اسی طرح قریبی
حلقے پوکھران سے پیر پگاڑا کے خلیفہ غازی فقیر کے فرزند صالح محمد بھی انتخابات ہار گئے کیونکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا ساتھ چھوڑدیا۔ان کا کہنا تھا کہ صالح محمد نے جوگزشتہ پانچ برس سے حلقے کی نمائندگی کر رہے تھے،اپنے لئے ایک بنگلہ تعمیر کروایا اورمقامی مسائل پر کوئی توجہ نہ دی۔اس حلقے سے بی جے پی کے شیطان سنگھ کامیاب ہوگئے۔اسی طرح اسی صوبہ کے مشرقی حصہ میں کانگریس پارٹی نے مقامی مسلمانو ں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک سابق مسلمان وزیر کے بیٹے دانش ابرار کو میدان میں اتاراجو نہ صرف مقامی مسائل سے نابلد تھا بلکہ اپنی انااورخود سری کے باعث خاصا نا مقبول تھا۔یہاں بھی مسلمانوں نے بی جے پی کی امیدوار، جے پورریاست کی مہارانی دیاکماری کو ووٹ دے کرکامیاب بنایا۔اس صوبے میں بی جے پی نے چار مسلمان امیدوار میدان میں اتارے تھے جن میں دو کامیاب ہوئے۔ کانگریس کے ایک دوسرے ووٹ بینک،پسماندہ ہندوطبقے دلتوں کا بھی یہی حال رہا۔کانگریس نے چونتیس دلتوں کو ٹکٹ دیے جوسب کے سب ہار گئے۔
ان انتخابات کے نتائج سے ثابت ہواکہ کانگریس نے سیکولر بنام ہندوتوا کے نام پر بی جے پی کے خلاف مسلمانوں اور دلتوں میں جس طرح کا ماحول بنانے کی کوشش کی،اس میں وہ بری طرح ناکام ہوئی۔ پارٹی کے ساتھ ناراضگی کی وجہ صرف مہنگائی اوربدعنوانی نہیں تھی بلکہ حکومت کامتکبرانہ رویہ بھی تھا۔جس طرح کانگریسی لیڈروں نے 2009 ء میں دوسری مرتبہ مرکزی اقتدار پرقابض ہونے کے بعد رعونت کا مظاہرہ کیا وہ عوام کو بالکل پسند نہیںآیا۔ان انتخابات میں کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی اور بی جے پی کے وزارت عظمٰی کے امیدوار نریندر مودی نے اپنی جماعتوں کی قیادت کی اس لیے انتخابی نتائج کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے بھی دیکھا جارہا ہے۔
دارالحکومت دہلی میں ایک نوزائیدہ پارٹی''عام آدمی پارٹی‘‘ (آپ) نے دونوں روایتی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کی امیدوں پرجھاڑو پھیردیا۔نتائج سے قبل یہ پارٹیاں''آپ‘‘ کے سربراہ اروند کیجریوال کے انتخابی میدان میں اترنے کے فیصلے کا مذاق اڑا رہی تھیں۔اس پارٹی کو جس طرح ابھرتے ہوئے مڈل کلاس اور سماج کے دوسرے طبقوں نے گلے لگایا،اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عوام کو اگر روایتی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کا کوئی اچھا متبادل مل جائے تو وہ ان جماعتوں سے قطع تعلق کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔مبصرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ کانگریس ملک میں دوجماعتی نظام کی وکالت کرتی آئی ہے اور بی جے پی سے اسے زیادہ دشمنی نہیں ہے۔ پارٹی ان ریاستوں میں زیادہ محنت نہیں کرتی جہاں اس کا مقابلہ بی جے پی کے ساتھ ہوتا ہے،کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ سیکولرذہن کے افراداورمسلمان پانچ سال کے بعد پھر اس کی جھولی میں آجائیں گے ۔اس کے برعکس یہ پارٹی ان ریاستوں میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے جہاں اس کا مقابلہ سیکولر جماعتوں سے ہوتاہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بیس برس قبل اترپردیش،بہاراورمغربی بنگال میں سیکولر پارٹیوں نے کانگریس کا ایسا صفایا کیا تھا کہ وہ آج تک وہاں دوبارہ پیر نہیں جما پا رہی۔
ان حالات میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ بھارت میں کانگریس اور موجودہ حکومت پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور دوسری جماعتوں کے راہنمائوںکواعتماد میں لے کرامن مساعی کے لیے راہ ہموارکرے۔موجوہ حکومت شاید ہی پاکستان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرسکے ۔اگرآئندہ کی متوقع حکومت کے ذمہ داروں سے تعلقات بنائے جائیں اورانہیں دیرپا امن کے قیام اور اس کے خوشگواراثرات کے بارے میں قائل کیاجائے توامید کی جاسکے گی کہ پاک بھارت رشتوں کی گاڑی یقیناپٹڑی پر دوڑنا شروع ہوجائے گی۔ اس کے لیے بھارت میں پاکستان کے نئے ہائی کمشنرکو خاصی محنت کرنا پڑے گی ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی حکومت نے غلط وقت پراس عہدے پر فائز سلمان بشیر کو واپس بلایا اوردوسری جانب نئے ہائی کمشنرکی آمد میں تاخیرمسائل پیدا کرسکتی ہے۔