تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     17-12-2013

بھارت میں ہمت تھی نہ ہے

مشرقی پاکستان میں 1971ء کے آرمی ایکشن کو سوات کے حالیہ آرمی ایکشن سے تشبیہ دینا محض کٹ جحتی ہے!کیا سوات میں الیکشن ہوئے تھے؟کیا سوات میں اسمبلی کا اجلاس اٹنڈ کرنے والوں کو ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دی گئی تھی؟ اللہ کے بندو! سوات میں سو فیصد نہیں تو پچانوے فیصد اکثریت طالبان سے خوف زدہ اور تنگ تھی۔ اس عظیم اکثریت کو مٹھی بھر طالبان کے ظلم و ستم اور قتل وغارت سے بچانے کے لیے فوج میدان میں اتری تھی اور سیاسی حکومت کے حکم سے اتری تھی۔پورے ملک نے اس آرمی ایکشن کی حمایت کی ،سوائے ان تاریکی پسند قوتوں کے جو سواداعظم کے خلاف ہیں۔ اس کے برعکس مشرقی پاکستان کا آرمی ایکشن اکثریت کے خلاف تھا۔ جو الیکشن خود حکومت پاکستان نے منعقد کرایا،اس کا نتیجہ کچھ لوگوں کو نہ بھایا۔ پہلے عوام کا بنیادی حق غصب کیاگیا پھر ان پر چڑھائی کردی گئی!
جوبزر جمہر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سہرا بھارت کے سر باندھ رہے ہیں، وہ حقائق کو بھی جھٹلارہے ہیں اور قومی حمیت کا بھی جنازہ نکال رہے ہیں۔ وہ بھارت کی انا کو گنے کا رس پلارہے ہیں۔ جو بھارت قیام پاکستان کو نہ روک سکا ، وہ پاکستان کو دولخت کیسے کرسکتا تھا؟ اگر ہم اپنے پیروں پر خودکلہاڑی نہ مارتے ،اگر بددماغ فوجی آمر کے بجائے سیاسی حکومت ہمارے فیصلے کرتی اور اگر تاریخ دے کر ، اسمبلی کا اجلاس بلانے سے ہم مکر نہ جاتے تو بھارت کو یہ موقع ہی نہ ملتا۔ اگر ہمارا اپنا گھر درست ہوتا ،اگر ہم شائستگی ، انصاف اور رواداری کا مظاہرہ کرتے اور اپنے بھائیوں کو گلے سے لگاتے تو بھارت سوسال بھی مداخلت نہ کرسکتا۔ کیا بھارت نے مجیب الرحمن کو کہا تھا کہ فاطمہ جناح کا ساتھ دے اور کیا بھارت نے ایوب خان کو کہا تھا کہ فاطمہ جناح کو غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دے ؟نہیں ، جناب نہیں ، یہ بھارت کا نہیں ، ہمارا اپنا کیا دھرا تھا ؎
دل کے ڈوبے سے مٹی دستِ شناور کی سکت
موج کی طغیانیوں سے ڈوبتا کوئی نہیں
آج کی نسل کو حقائق سے بے خبر رکھا جارہاہے۔ 1970ء کا الیکشن ہوا تو حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ووٹ دینے والوں کا تناسب 63فیصد تھا۔مکمل تصویر کچھ اس طرح تھی۔
عوامی لیگ160، پیپلزپارٹی81، جماعت اسلامی4، کونسل مسلم لیگ2، قیوم مسلم لیگ9، جمعیت علماء اسلام7، مرکزی جمعیت علماء اسلام 7، کنونشن مسلم لیگ7، این اے پی (ولی گروپ)6، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی1، آزاد 16۔اگر مرکز میں عوامی لیگ کی حکومت بن جاتی ، پنجاب اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی اور بلوچستان اور سرحد میں ولی گروپ اور جے یو آئی کی، تو کون سی قیامت آجاتی ؟کیا آج سندھ اور کے پی میں ان جماعتوں کی حکومتیں نہیں جو مرکز میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہیں؟ آج نوازشریف کو صرف پنجاب میں اکثریت ملی ہے اور وہ پورے پاکستان پر حکومت کررہے ہیں۔اگر عوامی لیگ ایک صوبے میں اکثریت کی بنا پر مرکز میں حکومت بنا لیتی تو کیا وہ پاکستانی نہیں تھے؟ ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
روئے زمین کا بدترین گروہ اس وقت پاکستان پر حکومت کررہا تھا۔ جنرل خادم حسین راجہ کے بقول مشرقی پاکستان کی صورت حالات کے بارے میں حکومتی جتھے کا علم جہالت پر مبنی تھا! 13فروری 1971ء کو صدر یحییٰ نے اعلان کیا کہ 3 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہوگا۔اس سے پہلے 3جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن نے کہا تھا کہ اکثریت رکھنے کے باوجود وہ صرف اپنی جماعت کے بل بوتے پر آئین نہیں بنائے گا۔14جنوری کو یحییٰ خان نے مجیب الرحمن کو پاکستان کا مستقبل کا وزیراعظم قرار دیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ چھ نکات مرکزی حکومت کو بے دست وپا نہیں کریں گے۔ وہ تو صرف صوبائی خود مختاری کے حوالے سے ہیں۔ بھٹو کے کہنے پر یحییٰ خان نے 3مارچ کے بجائے قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے 25مارچ کی تاریخ رکھی۔ بھٹو نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔نتیجہ یہ ہوا کہ 25مارچ کو بھی اجلاس نہ ہوسکا۔ یہ تھا وہ پس منظر جس کے انجام میں فسادات شروع ہوئے اور جس سے آج کی پاکستانی نسل بے خبر ہے۔ یہ وہی صورت حال تھی جو بعد میں الجزائر میں پیش آئی۔ اسلام پسندوں کو انتخابات جیتنے کے باوجود حکومت نہ دی گئی تو کیا انہوں نے آگے سے پھول پیش کیے؟ انہوں نے وہی کچھ کیا جو مشرقی پاکستانیوں نے کیا تھا، بلکہ الجزائز میں کئی گنا زیادہ ہنگامہ ہوا۔
آج بنگلہ دیش کا ذکر ہمارے دانشور اس طرح کرتے ہیں جیسے وہ مسلمان نہیں، خدانخواستہ غیر مسلم ملک ہے۔ سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ساتھ لاکھ چھیانوے ہزار مربع کلومیٹر کے ملک پاکستان نے اپنے ناتواں کندھوں پر پوری دنیا کے کافر اور مسلمان ہونے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ ہم چاہیں تو شمالی اتحاد کو یوں سمجھیں جیسے وہ مسلمان ہی نہیں اور ایک ایسے گروہ کو قرون اولیٰ کے مسلمان قرار دے دیں جو مقامی ثقافت کو اسلام سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے عوامی لیگ کو ووٹ دیے تھے کیا وہ مسلمان نہیں تھے؟کیا ہم ان سے بہتر مسلمان ہیں ؟ کیا وہ پاکستانی نہیں تھے؟ چلیے کنفیڈریشن ہی رہ جاتی تو کیا نوے ہزار افراد کو بھارت کی قید میں بھیجنے سے بہتر نہ ہوتی؟
ہم آج بھی بنگلہ دیش کے نکتہ نظر کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری فہم و فراست کا یہ عالم ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے 2008ء میں خواجہ خیرالدین کے فرزند علقمہ خیرالدین کو بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر مقرر کردیا۔ حکومت کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ بنگلہ دیش نے جنگی مجرموں کی جو فہرست بنائی اور جاری کی ہوئی ہے اس میں خواجہ خیرالدین سرفہرست ہیں۔ ایسا کرنا غلط ہے یا صحیح، یہ الگ مسئلہ ہے لیکن زمینی حقیقت یہی تھی۔ بنگلہ دیش نے جیسا کہ متوقع تھا یہ تعیناتی قبول کرنے سے انکار کردیا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے آج ہم حافظ سعید صاحب یا ان کے صاحبزادے کو بھارت میں ہائی کمشنر مقرر کردیں!
مولانا عبدالقادر ملا کو سزائے موت دینا حسینہ واجد کی ہٹ دھرمی ہے۔ یہ اس کے بیمار مائنڈ سیٹ کا انعکاس ہے۔ یہ صریح ظلم ہے جس کی کوئی صحیح الدماغ شخص حمایت نہیں کرسکتا۔ تاہم اس عدالتی قتل کی ذمہ داری ان لوگوں پر بھی ہے جنہوں نے جماعت اسلامی کو 1971ء میں یحییٰ خان اور بھٹو کی جھولی میں ڈالا۔ کیا یہ باعث حیرت نہیں کہ اس وقت بھٹو اور جماعت اسلامی ایک ہی صف میں تھے؟ ایک ہی پیج پر تھے؟ جماعت نے اسی آرمی ایکشن میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا جس پر بھٹو نے کراچی ائیرپورٹ پر کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان کو بچالیاگیا۔ آج پروفیسر خورشید احمد صفائی پیش کررہے ہیں کہ جماعت کی شوریٰ نے اعلان کیا تھا کہ جسے بھی عوام نے منتخب کیا ہے اسے اقتدار ملنا چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی عظیم اکثریت علیحدگی نہیں اپنا حق مانگ رہی تھی۔ تو پھر آرمی ایکشن میں کودنے کی کیا ضرورت تھی ؟ مکتی باہنی ایک ردِعمل تھا۔ مجیب الرحمن کو مستقبل کا وزیراعظم کہہ کر قومی اسمبلی کی تاریخ کا اعلان کرکے پیچھے ہٹ جانے کا مطلب مشرقی پاکستان کی توہین تھا۔ یہ فریب تھا۔ اس کا ردعمل فطری تھا۔ کاش جماعت اسلامی اس وقت یحییٰ اور بھٹو کے فیصلے پر صاد کرنے کے بجائے الگ کھڑی ہوتی۔ اپنی انفرادیت برقرار رکھتی اور جلتی آگ میں خشک لکڑیاں ڈالنے کے بجائے آگ پر پانی ڈالتی یا ڈالنے کی کوشش کرتی! نہیں معلوم یہ محض اتفاق ہے یا جماعت کی قسمت ! کہ وہ ہمیشہ اکثریت کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ مشرقی پاکستان سے لے کر ضیاء الحق کی آمریت تک یہی ہوتا رہا ہے۔ یہ آج بھی سب دیکھ رہے ہیں کہ عوام کن کے ساتھ ہیں اور جماعت کی قیادت کن کا ساتھ دے رہی ہے!
مولانا عبدالقادر ملا کا عدالتی قتل کہیں مکافات عمل تو نہیں ؟اب یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ ضیاء الحق نے بھٹو پر مقدمہ چلایا تو ایک وقت ایسا آیا کہ دو گواہ بھٹو کے خلاف اپنے بیان سے منکر ہوگئے۔ ضیاء الحق کے کہنے پر میاں طفیل محمد نے دونوں گواہوں کو یقین دلایا کہ اگر وہ بھٹو کے خلاف گواہی دیں گے تو انہیں چھوڑ دیاجائے گا۔ بعد میں ان دونوں کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ مئی 2011ء میں ایڈووکیٹ فاروق بیدار نے سپریم کورٹ میں جو بیان حلفی جمع کرایا اس میں اس واقعہ کی تفصیل حلفاً بیان کی ہے۔ اس نویسندہ کا پیپلزپارٹی سے دور کا تعلق بھی نہیں۔اس کے نزدیک گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے ابطال جلیل اسی کی کریم ہیں۔لیکن میاں صاحب مرحوم کی مقدمے کی کارروائی میں خفیہ دخل اندازی اور گواہوں پر دبائو کون سے اسلام کا پر تو تھا؟ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کے مخالف بھی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved