تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     17-12-2013

خلیجی اتحاد میں دراڑیں

انقلاب ایران کے بعد نئی ایرانی حکومت نے انقلابی نظریات کو اپنی برآمدات میں شامل کرنے کا عندیہ دیا۔خلیجی ریاستوں میں خاندانی وراثتی حکومتیں قائم ہیں۔جب انقلابی نظریات نے تیزی سے شاہ ایران جیسے طاقت ور حکمران کا تختہ الٹا تو خلیجی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ ایران عراق جنگ شروع ہوئی تو خلیجی ممالک صدام حسین کے شانہ بشانہ نظر آئے حالانکہ وہ دل سے صدام کو بھی پسند نہ کرتے تھے۔ چونکہ اصل خطرہ ایران سے تھا لہٰذا دشمن کے دشمن کو دوست گردانا گیا او اُس کی خوب مالی مدد کی گئی۔ صدام نے اس دوستی کا یہ صلہ دیا کہ 1990ء میں کویت پر قبضہ کر لیا۔ خلیجی ممالک نے 1981ء میں ایرانی خطرے سے نپٹنے کے لیے اپنی ایک تنظیم بنائی جسے خلیجی مجلس تعاون یعنی جی سی سی کا نام دیا گیا۔صدام کی مدد بھی مشترکہ طور پر کی گئی۔ تنظیم کے ممالک نے مشترکہ فوج بنانے کا بھی عزم کیا، لیکن بات مشترکہ فوجی مشقوں تک ہی محدود رہی۔ کسٹم کے قوانین اور کسٹم ڈیوٹی کو یکساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ ممبر ممالک کے درمیان ویزہ ختم کیا گیا۔ سرحدی تنازعات صلح صفائی سے حل کئے گئے۔ مشترکہ کرنسی کی تجویز سامنے آئی۔ سعودی حکومت نے پیشکش کی کہ خلیجی ممالک کا ایک ہی مرکزی بنک ہو اور پھر 2011ء میں سعودی عرب نے تجویز کیا کہ تمام ممالک یورپی یونین کی طرح اتحاد کر لیں۔ یاد رہے کہ جب یہ تجویز سامنے آئی تو صدر احمدی نژاد کا ایران عرب خلیجی ممالک کی نظر میں اپنے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے ایک بڑھتا ہوا خطرہ تھا۔
حال ہی میں عرب خلیجی ممالک کو یکے بعد دیگرے دو سفارتی محاذوں پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ شام کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے پر رضا مند ہوا تو امریکی لہجے میں یکایک نرمی آ گئی اور پھر ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ عبوری معاہدہ کیا۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ دائمی معاہدہ ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ جب شام کے حوالے سے امریکی پوزیشن میں تبدیلی آئی تو سعودی عرب نے سلامتی کونسل میں اپنی جیتی ہوئی نشست چھوڑ دی۔ واضح رہے کہ شام میں دو ممالک بہت اثر رسوخ رکھتے ہیں ایک ہے روس اور دوسرا ایران اور ایرانی چودھراہٹ روس سے بڑھ کر ہے اور اس کی وجہ ایران دوست حزب اللہ ہے جو موجودہ شامی جنگ میں کھل کر صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ بشار الاسد حکومت کا تمام تر اپوزیشن کے باوجود قائم رہنا بعض عرب ممالک کے لیے بہت بڑی خفت کا باعث ہے۔
خلیجی اتحاد کو بہت بڑا دھچکا تب لگا جب پچھلے ماہ اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ ایران اور امریکہ کے خفیہ مذاکرات کافی عرصے سے جاری تھے اور اس تقارب میں سلطنت عمان کا خاص رول تھا۔ عمان کی ایران کے حوالے سے اپنی سوچ ہے جو سعودی نقطہ نظر سے بہت مختلف ہے۔ میں نے چونکہ مسقط میں بطور سفیر تین سال گزارے ہیں لہٰذا میرے لیے یہ بات اچنبھے کا باعث نہ تھی۔ عمان کی خارجہ پالیسی عرصے سے تصادم کے خلاف ہے۔ عمان اپنے دوستوں میں صلح کرانے کی پالیسی پر عرصے سے عمل کر رہا ہے۔ عمانی حکام یہ کام بتدریج اور زیادہ شور مچائے بغیر کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں ہے۔ عمانی وزیر اور سفارت کار فالتو بات کرتے ہی نہیں، لہٰذا مصالحتی کوششوں کی کسی کو کانو ں کان خبر نہ ہوئی، لیکن ایک بات واضح ہو گئی کہ خلیج کی سکیورٹی کے حوالے سے سعودی اور عمانی سوچ مختلف ہے اور ابھی پچھلے ہفتے جب سلطنت عمان نے یہ بیان جاری کیا کہ اگر خلیجی تعاون کونسل یعنی جی سی سی کو اتحاد یا یونین میں تبدیل کیا گیا تو وہ ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی تو خلیجی تعاون میں بڑی دراڑ نظر آئی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ایک عرصے سے عمان خلیج کی مشترکہ کرنسی کا مخالف ہے اور اس سلسلہ میں عرب امارات یعنی یو اے ای کے خیالات بھی عمان سے ملتے جلتے ہیں۔ عمان کو یہ اعتراض ہے کہ دو سال قبل خلیجی یونین کی تجویز کے سلسلہ میں ایک عرب ملک کے حکمرانوں نے مسقط میں قیادت سے مشورہ نہیں کیا۔ جواب میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور ایران کو قریب لانے سے پہلے عمانیوں نے کسی خلیجی ریاست سے مشورہ نہیں کیا۔ گویا جی سی سی کے دو بڑے ممالک میں بدگمانیاں بڑھ رہی ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ عمان کو خلیجی ممالک کی مشترکہ فوج میں اضافہ بھی قبول نہیں۔ عمانی قیادت یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ اس اضافے کا مقصد کیا ہے۔
مصر میں سعودی عرب اور امارات فوجی حکمرانوں کے ساتھ ہیں جبکہ قطر اخوان المسلمون کے ساتھ ہے ۔آپ کو یاد ہو گا کہ صدر محمد مرسی کی حکومت کو سب سے زیادہ مالی امداد قطر نے ہی دی تھی۔ شام میں سعودی عرب اور قطر دونوں بشار مخالف اپوزیشن کے ساتھ ہیں لیکن ایک عسکری ونگ کی مدد کر رہا ہے اور دوسرا سویلین اپوزیشن کی اور ان دو گروپوں میں باہمی مخاصمت موجود ہے۔ امارات کی لیڈر شپ کا خیال ہے کہ قطری ان کے ملک میں اخوان المسلمون کی مدد کر رہے ہیں۔ اخوان اور القاعدہ سے اکثر خلیجی ریاستیں خائف ہیں۔ اخوان کے کئی ممبر امارات میں گرفتار ہوئے ہیں۔ 
چند روز پہلے ایک معروف عربی ٹی وی چینل پر دلچسپ بحث ہو رہی تھی کہ آیا ایٹمی ہتھیاروں کے لیے کوشاں مگر اقتصادی پابندیوں میں جکڑا ہوا ایران بہتر تھا یا مستقبل کا وہ ایران جو ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر ہو گالیکن اقتصادی اور عسکری طور پر مضبوط ہو گا۔ مباحثے میں غالب رائے یہ تھی کہ اقتصادی طور پر مضبوط ایران عرب ممالک کے لئے بڑا خطرہ ہو گا۔ دلیل یہ تھی کہ ایٹمی ہتھیار کبھی استعمال تو ہوتے نہیں البتہ اقتصادی طور پر خوش حال ایران شام ‘ لبنان‘ عراق اور بحرین میں اپنا اثرورسوخ مزید بڑھا سکے گا۔ اقتصادی طور پر مضبوط ایرانی حکومت سیاسی طور پر بھی مضبوط ہو گی۔ ملک کے اندر اور باہر اس کا قد کاٹھ بڑھے گا۔ عبوری معاہدے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے چند خلیجی ممالک کا دورہ کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ خلیج کی سکیورٹی کے بارے میں ایران اتنا ہی سنجیدہ ہے جتنے کہ عرب ممالک۔ قطر اور عمان ایران کی بات بہت غور سے سنتے ہیں ۔ 
آج سے تینتیس سال پہلے جب جی سی سی کی تشکیل ہوئی تھی تو دیباچہ میں لکھا گیا تھا کہ یورپی یونین کی طرز کا اتحاد قائم کیا جائے گا۔ لیکن یورپی یونین بہت آگے نکل گئی ہے۔ یورپی یونین کے اکثر ممالک کی ایک ہی کرنسی یعنی یورو ہے۔افراد اور سرمایہ کی نقل و حرکت 28ممبر ممالک کے درمیان آزادانہ ہوتی ہے۔ ایک مشترکہ یورپی پارلیمنٹ ہے۔ نیٹو یورپ اور شمالی امریکہ کے فوجی اتحاد کا مظہر ہے۔ خلیجی ممالک اس سلسلہ میں خاصے پیچھے ہیں اور تازہ ترین حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ خلیج کے عرب ممالک میں اتحاد کی خواہش قدرے ماند پڑ رہی ہے۔
جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں عین اس وقت کویت میں خلیجی حکمرانوں کی سمٹ اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ خلیجی ممالک ایرانی عبوری معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلیجی ممالک زمینی حقائق تسلیم کرنے لگ گئے ہیں۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خلیجی ممالک کی متحدہ فوج بنائی جائے گی جس کی کمان بھی ایک ہو گی لیکن ایسی باتیں تو ہم عرصے سے سنتے آئے ہیں۔ اللہ کرے اس مرتبہ اس عزم کی تکمیل بھی ہو کہ باہمی تعاون خلیجی ممالک کے لیے ناگزیر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved