تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-12-2013

ایک اور قتل!

تشدد صرف تشدد کو جنم دیتا ہے۔کاش کوئی یہ بات اہلِ مذہب کو سمجھاسکے۔
ابھی شمس الرحمن معاویہ کا کفن میلا نہیں ہوا تھا کہ ناصر عباس کوبھی مار ڈالا گیا۔1979ء کے بعد اس ملک میں ایسی آگ بھڑکی ہے کہ بجھنے کو نہیں آ رہی۔ضابطہ ہائے اخلاق بن رہے ہیں لیکن سطحِ زمین پر کوئی تبدیلی دکھائی نہیںدیتی۔اتحاد بین المسلمین کے عنوان سے اجتماعات منعقد ہورہے ہیں لیکن قتل گاہیں اسی طرح آباد ہیں۔ ٹی وی چینلز پر لوگ مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو ایک ساتھ بیٹھا دیکھتے ہیں جو یکساں طور پر ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ قاتل کہاں سے آرہے ہیں؟کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم ان طفل تسلیوں سے باہر آئیں اورانسانی جانوں کے اس ضیاع کو روکیں؟
پہلی بات مسلکی جماعتوں کی قیادت سے۔ یہ بات طے ہوچکی کہ تشدد مسئلے کا حل نہیں ہے۔دونوں اطراف سے بے شمار لوگ مارے جا چکے۔مو لانا حق نواز جھنگوی سے لے کر شمس الرحمٰن معاویہ تک اور علامہ عارف حسین الحسینی سے ناصر عباس تک،اگر دونوں گروہ اپنی 'شہدا‘ کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں توسود وزیاں کی تفصیل جمع کی جا سکتی ہے، پھر جو زندہ ہیں وہ بھی خوف کے سائے میں جیتے ہیں، محافظوں کے بغیر دو قدم چلنے پر قادر نہیں ۔سوال یہ ہے کہ تشدد کا حاصل کیا ہوا؟ مسلکی وابستگی کے حوالے سے زمینی حقیقتیں آج بھی وہی ہیں جو 1979ء میں تھیں۔کوئی گروہ دوسرے کو مٹا سکا ہے نہ کمزور کر سکا ہے؛تاہم دونوں نے مل کر اس سماج کو ضرور کمزور کر دیا ہے۔اس کے نتیجے میں ہمارا ملک دوسرے ممالک کی چراہ گاہ بن چکا ہے۔سب سے زیادہ نقصان مذہب اسلام کو پہنچا ہے۔ اس کے بارے میں اغیار کو باتیں بنا نے کا موقع ملا ہے اور ہم جگ ہنسائی کا سبب بنے ہیں۔
ہمارے عصری مذہبی فہم میں ایک بدعت یہ در آئی ہے کہ ہم نے زندگی کے بجائے موت کو پرکشش بنا دیاہے،اسے گلیمرائز کر دیا ہے۔میرے علم کی حد تک اسلام زندگی سے محبت سکھاتا ہے،اسی لیے خود کُشی کو حرام کہا گیا ہے،ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔موت کا اندیشہ ہو تووہ حرام کو جائز کر دیتا اور جھوٹ کو بھی گوارا کرتا ہے؛تاہم وہ یہ بھی بتا تا ہے کہ اگر جنگ کا سامنا ہو توپھر زندگی کو ترجیح بنا نا جرم ہے،پھر پیٹھ دکھاناقابلِ قبول نہیں۔ہم نے جنگ کے احکام کا اطلاق سماجی زندگی پر کردیا۔اب معلوم ہوتا ہے کہ ہرآ دمی جان ہتھیلی پہ رکھے پھر تا ہے۔جو سماج میں فساد پیدا کرتا ہے وہ بھی بہادر سمجھاجا تا ہے۔فرقہ واریت پھیلانے کو بھی جہاد کہا جا تا ہے اور سیاسی جدو جہد میں مارے جانے والے بھی شہید ہیں۔صرف مذہب نہیں، عمومی سماجی معاملات میں بھی ہمارا رویہ یہی ہے۔فلم کے ہیرو کو پولیس قتل کے مقدمے میں گرفتار کرتی ہے تو ماں فخر سے کہتی ہے : سر اٹھاکے چل بیٹا !302 کا مقدمہ ہے کوئی مذاق نہیں۔ قرآن مجید اور رسالت مآبﷺ کی سیرت سے واضح ہے کہ سماجی زندگی میںانسانی جان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔قصاص کے قانون سے بڑھ کر آخر کیا شہادت ہو سکتی ہے۔ہم نے انسانی زندگی کو ارزاں کر دیا اور اس پر اظہارِ فخر بھی کرتے ہیں۔
میرے نزدیک یہ تعبیر دور رس نتائج کی حامل ہے۔اس نے زندگی کے بارے میں ہمارا رویہ بدل دیا ہے۔ میں مذہبی جماعتوں کے انتخابی ترانے سنتا ہوں تو لگتا ہے کہ کارکنوں کو کسی میدانِ کارزار میں اتارا جا رہا ہے۔یہی شعلہ بیانی اس وقت بھی سنائی دیتی ہے جب کسی مذہبی راہنمایا عالم کی جان جا تی ہے۔مظلومانہ مارا جانا ایک اور بات ہے جیسے مو لانا حسن جان یا ڈاکٹر فاروق خان یا جیسے عبدالقادر ملا۔یہ عزیمت ہے اور اللہ کی نظر میں اس کی بڑی قدر ہے۔میر اعتراض اس حکمت عملی پر ہے جس میں دعوت سے لے کر سیاست تک، ہر کشمکش میں زندگی دینے کو بڑی خوبی اور بہادری کی بات سمجھا جا تا ہے۔اس اندازِ نظر کا ایک نتیجہ یہ کہ کوئی گروہ کسی موت پر یہ غور نہیں کرتا کہ ہم نے کیا گنوا دیا۔اگر ہم انسانی جان کی حرمت اور اس کی قدرو منزلت سے واقف ہوں تو پھر ہر موت پر ہمارا ردِ عمل دوسرا ہو۔ کیسے کیسے بانکے اور سجیلے جوان ہم نے ایک ایسی آگ کا ایندھن بنادیے جس نے پورے سماج کو جھلسا دیا۔اس لیے سب سے پہلے مجھے ان مذہبی جماعتوں سے درخواست کرنی ہے کہ ایک لمحے کو پیچھے مڑ کر دیکھیںاور سوچیں کہ انہوں نے کیا کچھ گنوا دیا۔ پھر ایک نظر سامنے دیکھیں اور یہ سوچیں کہ ہم نے کیا پا یا؟
دوسری بات بھی اہلِ مذہب سے!کیا وہ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی سنی شیعہ تنازع نہیں اور یہ آگ خارجی قوتوں نے بھڑ کائی ہے؟میرے لیے اس بات پر یقین کر نا مشکل ہے۔ خارجی قوتوں نے اس آگ پر تیل ضرور ڈالا ہے لیکن اسے دیاسلائی ہم نے خود دکھائی ہے۔ہم اس مقدمے کو ایک طریقے سے پرکھ سکتے ہیں۔میں تجویز پیش کر تا ہوں کہ شمس الرحمٰن معاویہ اور ناصر عباس کے قتل پر ایک مشترکہ احتجاجی جلوس بر آمد ہو جس کی قیادت مو لانا محمود احمد لدھیانوی اور علامہ امین شہیدی مل کر کریں۔اس میں مولانا حنیف جا لندھری اور مفتی منیب الرحمٰن بھی شریک ہوں تو یہ اور اچھا ہے۔ایک بینر پر مقتولین کانام لکھا ہواورسب کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے ہوں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر میں مان سکتاہوں کہ پاکستان میں شیعہ سنی کوئی مسئلہ نہیں،یہ اغیار کی سازش ہے۔ میں جانتا ہوں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔یہاں تو ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق نہیں۔ مجلس وحدت المسلمین نے ملی یک جہتی کو نسل کا ضابطہ اخلاق مسترد کر دیا ہے حالانکہ میرے علم کی حد تک یہ جماعت خود اس کو نسل کی رکن ہے۔ ہم اگر کسی حل تک نہیں پہنچ پا رہے تو اس کا سبب ہمارے تجزیے میں پایا جا نے والا یہ بنیادی نقص بھی ہے۔
تیسری بات اربابِ حکومت سے!مذہبی سرگرمیوں کی تنظیم کو ریاستی انتظام میں لینے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ اورمعاصر مسلمان معاشروں کی گواہی یہی ہے۔ مذہبی و مسلکی فساد ایک سماجی مسئلہ ہے،مذہبی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حل سماج اورریاست کو تلاش کر نا ہے اہلِ مذہب کو نہیں۔ سماج کے ایک طبقے کی حیثیت سے مذہبی جماعتیں بھی مشاورت کا حصہ ہوں گی لیکن یہ معا ملہ صرف ان کے حوالے نہیں کیا جا سکتاجس طرح جنگ کی سنگینی کے پیش نظر اسے صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا،اسی طرح مذہبی امن کو بھی صرف مذہبی راہنماؤں پہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔چند دن پہلے پارلیمنٹ کو بتا یا گیا کہ صرف اسلام آ باد میں تیس مساجد ایسی ہیں جو کسی قانون کے تحت رجسٹرڈ نہیں۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں مذہبی عطائیوں نے کیا کیا گل کھلا ئے ہوں گے۔ریاست اگر اب بھی اس معا ملے کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گی تو مذہب کے نام پر فساد ہوتا رہے گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ غیر جمہوری حکمران ان مسائل کا ادراک نہیں رکھتے اور جمہوری حکومتیں جماعتی اورگروہی مفادات سے اٹھ نہیں سکتیں۔ وہ صرف حلقہ ہائے انتخاب کے تناظر میں سوچتی ہیں۔ اس کا یہی نتیجہ نکل سکتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔
حاصل دو ہی باتیں ہیں۔ مسلکی وفرقہ پرست جماعتیں ایک نظر ماضی پر ڈالیں اور دیکھیں کہ انہوں نے کیا گنوایا ہے۔انہیں معلوم ہوگا کہ تشدد سے صرف تشدد جنم لیتا ہے۔شر سے خیر جنم لے، یہ قانونِ قدرت کے خلاف ہے۔اسی طرح حکومت کو بھی ایک نظر ماضی پہ ڈالنا ہوگی۔ اسے بھی معلوم ہو جائے گا کہ ان واقعات کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مذہبی سرگرمیوں کی تنظیم میں ریاست اپنے کردار سے دست کش ہو گئی ہے۔ناگزیر ہے کہ ریاست اس کام کواب اپنے ہاتھ میں لے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved