تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     18-12-2013

بلاول اور حمزہ کی بسنت

بلاول بھٹو نے سندھ میں بسنت منانے کااعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں نوازشریف اورعمران خان کو پیچ لڑانے کی دعوت بھی دی ہے۔میاں صاحب اورکپتان خان نے پتنگ بازی کے اس دوستانہ میچ کی فی الحال ہامی نہیں بھری‘ لیکن سندھ فیسٹیول کے زیر اہتمام بسنت منانے کا یہ مظاہرہ پاکستانی سیاست کی فلم میں موسم بہار کے ''ٹریلر‘‘ جیسی اہمیت اختیار کرگیاہے ۔کلاسیکی موسیقی میں بسنت ایک راگ ہے جو بہار کی آمد اوربہار کے دنوں میں گایا جاتا ہے۔دعا ہے کہ پیارے ملک کی سیاست میں بسنت اوربہار کے رنگ کھلیں، صدیوں پہلے اس خطے میں استادوں کی گائی بسنت کی استھائیاں گونجا کرتی تھیں: 
پُھولی بَن بیلی پُھولی چمپا چنبیلی اورکھِل رہی کچنار آج
آئی بسنت سبھی بَن پُھولیں، ملِ ملِ گلے میں ڈالو ہار 
درج بالا کلاسیکی استھائی کا آسان ترجمہ یوں کیاجاسکتا ہے کہ: بہار کی آمد سے جنگل سمیت ہرجگہ چمپا،چنبیلی اورکچنار کے پھول کھلے ہیں،بسنت آئی ہے‘ جابجا پھول کھل اٹھے ہیں‘ آئو بہار کے موسم میںایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے پھولوں کے ہار ڈالیں۔کراچی مہٹہ پیلیس میں سجائی گئی مذکورہ تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے بلاول بھٹو جواں سال لیڈر کے ساتھ ساتھ ایک ماہرANCHORبھی لگے۔براہ کرم لفظ ANCHORکا معنی اورمفہوم ڈکشنری والا لیجئے گا ٹاک شو والا نہیں۔ مذکورہ ڈیپارٹمنٹ میں اچھے اینکر بھی ہیں اوربہت اچھے بھی۔ ایک مرتبہ موسیقار ماسٹر عبداللہ سے ایک نووارد اوربے ُسرے گلوکار نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ میں فلاں استاد کا شاگرد ہوں۔ ماسٹر عبداللہ جو ایک مشکل پسند موسیقار تھے فوراََکہنے لگے۔ ''تم بھی بہت اچھے ہو اور تمہارا استاد بھی کچھ نہیں‘‘۔ بلاول بھٹو اپنے خاندان کے تیسرے مقرر ہیں جن کی تقریر اوراس میں بیان کئے گئے نظریات ان کے ذاتی اورسیاسی کردار سے مطابقت رکھتے ہیں۔بلاول نے کہاکہ ''کسی کو جبراََ درآمدی اسلام نافذ نہیں کرنے دیں گے‘ دہشت گردی نے ہماری تہذیب کو نقصان پہنچایا ہے‘ ہم اپنی ثقافت کو دہشت گردی اورطالبانائزیشن سے بچانے کے لئے جنگ لڑیں گے‘‘۔ بلاول بھٹو سے پہلے ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے طالبان کو للکارا تھاجس کے نتیجہ میں انہیں دہشت گردی کی واردات میں شہید کردیا گیا۔بے نظیر بھٹو سے پہلے ان کے والد اوربلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اپنے زمانے کے طالبان کے ظلم کا نشانہ بنے تھے۔بھٹو صاحب کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ٹھیکیداروں نے اپنے مقامی ''فرنچائزر‘‘ کے گٹھ جوڑ سے ایک جھوٹے مقدمہ میں پھانسی کی سزا دلوائی تھی۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس مقدمہ کو ''عدالتی قتل ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ 
بھٹو اوربے نظیر بھٹو نے اپنے ادوار میں جذباتی اورعوامی انداز میں تقریریں کی تھیں۔دونوں باپ بیٹی قومی اوربین الاقوامی فورمز پر الگ الگ ڈھنگ سے تقریر کرکے ایک زبردست تاثر پیدا کردیتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنمائوں میں مولانا کوثر نیازی اور محمد حنیف رامے اعلیٰ ترین مقرر تھے جوعوامی اورعلمی تقریر کرنے کے ماہر جانے جاتے تھے۔ پی پی پی کی موجودہ لاٹ میں بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن جبکہ ٹاک شوز کی حد تک فیصل رضاعابدی دھواں دار مقرر ہیں۔ ماضی میں مولانا شاہ احمد نورانی علمی تقریر کرنے میں مقبول جانے جاتے تھے۔آغا شورش کاشمیری ، رفیق احمد باجوہ جبکہ موجودہ دور میں شیخ رشید اور مولانا طاہر القادری مجمع باندھنے کے ماہر ہیں۔خطیب ِپاکستان کا خطاب رکھنے والے مولانا طاہرا لقادری کی ''کنٹینر تقریر‘‘ کئی گھنٹے تک جاری رہی تھی اورسامعین شدید ٹھنڈ اوربارش کے باوجود بھی پائوں کی مٹی چھوڑ نہیں پائے تھے۔
بلاول بھٹو کے لئے میں نے خطیب اورمقرر کے بجائے Anchorکی اصطلاح دانستہ استعمال کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر خطیب پیشہ ور ہوئے ہیں ۔جنہوں نے عوام کی بات کرنے سے زیادہ وہ باتیںکی ہیں جس کی انہوں نے ''سائی‘‘ (ایڈوانس رقم) پکڑی ہوتی تھی۔بلاول بھٹو کی مہٹہ پیلیس والی تقریر سن کر دل چاہا کہ قراردیا جائے کہ بھٹو سیریز میں سے گڈ سپیکرز کی بھٹو،بے نظیر بھٹو اوربلاول بھٹو پر مشتمل ''ٹریل ‘‘ مکمل ہوگئی۔جناب آصف علی زرداری بھی عوامی اور پرجوش تقریر کرنے کی کوشش میں ''غیر سیاسی اداکار‘‘ ''جیالا شاہی ‘‘ اور ''کھپے‘‘ جیسی اصطلاحات متعار ف کرانے کے باوجود پر اثر تقریر نہیں کرپاتے ۔ میاں برادران میں سے نوازشریف اگرچہ عوامی تقریر کرتے ہیںمگر ان کا خطاب قدرے غیر جذباتی ہوتا ہے۔ نواز شریف صاحب البتہ اپنی تقریر میں عوام کو ہنساتے ہوئے ایک دو بڑے لافٹر ز پیدا کرتے ہیںجو نیوز بلیٹنز کے ساتھ ساتھ شہ سرخیوں کا حصہ بنائے جاتے ہیں۔
خادم اعلیٰ کی تقریریں جذبات سے بھرپور ہوتی ہیں۔وہ اپنا آہنگ اور تقریری مسالہ تیزکرتے ہوئے حبیب جالب کے کلام کا تڑکا لگاتے ہیں۔میاں شہباز شریف نے لانگ مارچ اور 2013ء کے عام انتخابات کے لئے جلسے جلوسوں میں عوامی انداز اپناتے ہوئے دھواں دار تقریریں کیں۔میاں نوازشریف دھیمے اور کومل سروں میں تقریر کرتے ہیںجبکہ شہباز شریف اونچے اور تیور سروں کے مقرر ہیں۔وہ جوش ِخطابت میں مائیک بھی گرادیتے ہیں۔ خادم اعلیٰ اب تک کئی بار مائیک گراچکے ہیں۔ غالباََ وہ مائیک گرانے میں Excellence کو چھونا چاہتے ہیں ۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے تقریر کرتے ہوئے مائیک گرائے تھے ۔کہنے والے کہتے ہیں پاکستانی سیاست میں ایسی ''پرفارمنس‘‘ دوبارہ دیکھنے کو نصیب نہیں ہوئی۔ بھٹو نے پہلی ہی ٹیک میں ''شاٹ اوکے ‘‘ دیا تھاجبکہ انہیں کاپی کرنے والے ری ٹیک پر ری ٹیک کرارہے ہیں۔ متحدہ کے رہنما الطاف حسین کی تقریر متاثر کن ہوتی ہے ۔وہ ایک عرصہ سے ٹیلی فونک خطاب کررہے ہیں۔ پارٹی ورکروںپر ان کے خطاب کا اثر براہ راست جیسا ہی ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ بھائی اگر کسی روز پاکستان تشریف لائیں اورقوم سے براہ راست خطاب کریں تو اس کے اثرات دوآتشہ ہوسکتے ہیں۔فوجی حکمرانوں میں فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک اور جنرل آغامحمد یحییٰ خان سے لے 
کر جنرل محمد ضیاالحق تک کوئی بھی اچھا مقرر نہیں تھا۔سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے ان درج بالا محبانِ وطن کو اگر عوامی تائید وحمایت حاصل کرنے کے لئے سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہوئے تقریریں کرنا پڑتیں تو ہمارے یہ فیلڈ مارشل اورجرنیل حکمران عوام کی پسندیدگی کے میرٹ پر سپاہی بھی ثابت نہ ہوپاتے ۔
بلاول بھٹو کی طرف سے سندھ میں بسنت منانے کے اعلان کے بعد حمزہ شہبازشریف نے بھی محدود پیمانے پر پنجاب میں بسنت منانے کی خوشخبری سنائی ہے۔بلاول نے بسنت منانے کے لئے ساحل سمندر کی وسیع لوکیشن کا انتخاب کیا جبکہ حمزہ شہباز شریف نے بسنت میلہ چھانگا مانگا میں سجانے کی نوید دی ہے۔ لہراتے سمندر کی آسمان کو چھوتی ہوئی ہوائوں اوردوسری طرف چھانگا مانگا کے جنگلات میں بسنت منانے کے لئے کونسی لوکیشن بہتر ہے اس کے لئے ماہر پتنگ باز ہونا ضروری نہیں ہے۔حمزہ نے یہ بھی کہاہے کہ اس بار محدود پیمانے پر بسنت منانے کے بعد اس تہوار کے پورے ثقافتی رنگ بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ اب یہ بسنت لورز پر منحصر ہے کہ وہ بسنت منانے کے اس انٹری ٹیسٹ میں پاس ہوتے ہیں یا فیل؟
بسنت ہویا سیاست اورپتنگ بازی ہویا اعتماد سازی دونوں صورتوں میں کھلی فضائوں میں کھلے ذہنوں کو آپس میں بغل گیر ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔بسنت اس خطے کاموسمی تہوار ہے۔ ماضی میں اس تہوار کو ہندوانہ قرار دے کر اس پر پابندی لگادی گئی تھی جو اپنے آپ اوراپنی ست رنگی ثقافت سے زیادتی کے مترادف ہے ۔شکر ہے کہ بلاول اورحمزہ کو بسنت منانے کا نہ صرف خیال آیابلکہ دونوں عملی طور پر دھرتی کے ثقافتی رنگ واپس لانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved