تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-12-2013

’’اخراجِ عقیدت‘‘

بزرگوں سے سُنا ہے بڑوں کی ہر بات بڑی ہوتی ہے۔ وہ غلط بھی کریں تو صحیح۔ اُن کا جھوٹ بھی سچ، کڑوی بات بھی میٹھی۔ وہ غم کی محفل میں ہاہا ہی ہی بھی کریں تو لوگ داد کے ڈونگرے برسائیں۔ 
نسل پرستی کے شدید ترین مخالف اور اِنسان کے بُنیادی حق یعنی آزادی کے حقیقی علم بردار نیلسن مینڈیلا کے لیے منعقدہ دعائیہ اجتماع میں جو کچھ ہوا وہ بجا طور پر اِس امر کا غمّاز ہے کہ بڑے جب جو میں آتی ہے کر گزرتے ہیں۔ روکنا یا ٹوکنا تو دور کی بات ہے، لوگ اُن کی غلطی کو غلطی سمجھنے سے بھی دامن بچاتے ہیں! 
پاکستان جیسے کسے کچلے ہوئے، پس ماندہ اور لاچار ملک کے صدر یا وزیر اعظم نے وہی کچھ کیا ہوتا جو امریکی صدر اوباما، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ڈینش وزیر اعظم تھارننگ شمٹ نے کیا تو آج پوری دنیا اُن پر شدید لعن طعن کر رہی ہوتی۔ اِن تینوں رہنماؤں کا ہنسی ٹھٹھول اور پھوہڑ پن بھی توجہ کا مرکز بنا اور وہ بھی کچھ اِس طرح کہ دُعائیہ اجتماع ایک طرف رہ گیا! جو میلہ نیلسن مینڈیلا کے لیے لگایا گیا وہ اوباما، کیمرون اورتھارننگ شمٹ نے مل کر لوٹ لیا! 
امریکا، برطانیہ اور ڈنمارک کے سربراہانِ مملکت و حکومت نے ثابت کیا کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے لیڈر ہی نہیں، اب تک اِنسان بھی ہیں۔ غم سے خوشی اور سوگ سے جشن کشید کرنا اِنسانوں ہی کی تو فطرت ہے۔ غالبؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق 
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی! 
اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ جو لوگ اپنے خاندان میں کسی کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہوتے اُن سے مَیّت کے موقع پر مل لیتے ہیں۔ خوشی کی تقریب کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ شادی یا عقیقے کی تقریب میں مُنہ پُھلانے پر کوئی پابندی نہیں۔ مگر مَیّت میں سب ایک دوسرے کو خوش دِلی سے گلے لگالیتے ہیں۔ شادی کی تقریب میں جانے سے لوگ انکار کردیتے ہیں مگر تدفین میں شریک نہ ہونے کی ضِد کوئی نہیں کرتا۔ خوشی کے موقع پر شکل گُم کرنے سے دھاک بیٹھتی ہے، لوگ ہاتھ پیر جوڑ کر مناتے ہیں۔ اِس کے برعکس تدفین میں شریک نہ ہونے سے بَھد اُڑتی ہے۔ کوئی منانے بھی نہیں آتا! 
تدفین، فاتحہ خوانی اور دُعائے مغفرت کے بعد غیبت کے پوٹلے کُھلتے ہیں۔ ایک مُردہ دفنانے کے بعد سو گڑے مُردے اُکھاڑنے کی محفل جمتی ہے! اِسے کہتے ہیں شادیٔ مرگ! 
باراک اوباما، ڈیوڈ کیمرون اور تھارننگ شمٹ نے بھی مینڈیلا کیلئے دعائیہ اجتماع میں ''شادیٔ مرگ‘‘ کا خوب اہتمام کیا۔ اجتماع کا اہتمام چونکہ اسٹیڈیم میں تھا اِس لیے بیشتر شُرکاء اِسے کھیل کود سے متعلق کوئی معاملہ سمجھ بیٹھے! اسٹیڈیم کے اندر اور باہر مینڈیلا کے چاہنے والے ناچتے گاتے رہے۔ اِس ماحول کو دو آتشہ کرنے میں اوباما، کیمرون اور تھارننگ شمٹ نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اور کیوں ادا نہ کرتے؟ مزاج کے اعتبار سے دُنیا بھر کے انسان ایک سے ہوتے ہیں، چند لمحات خوش دِلی سے گزارنے کے لیے غم کی محفل کو بھی نہیں بخشتے۔ ذرا وکھری ٹائپ کے سہی مگر حکمران بھی ہوتے تو اِنسان ہی ہیں! ایڈوانٹیج یہ ہے کہ وہ غلط بھی کریں تو لوگ صحیح سمجھتے بلکہ صحیح ثابت کرنے پر بھی تُل جاتے ہیں! 
مینڈیلا آزادی کے علمبردار تھے۔ پھر بھلا اُن کیلئے دُعائیہ اجتماع آزادی کے اظہار کی نعمت سے کیوں محروم رہتا؟ ''عقیدت‘‘ کے اظہار میں سب اپنی اپنی طبیعت کی جولانی دِکھانے پر تُل گئے اور ضبط کے سارے بندھن توڑ کر کہیں سے کہیں جا نِکلے! گویا مینڈیلا نے منزلِ دہر سے گزر کر موج مستی اور میلے ٹھیلے کی راہ ہموار کی! 
اوباما، کیمرون اور تھارننگ شمٹ نے سوچا ہوگا کہ سب ہَلّا گُلّا کر رہے ہیں تو مُنہ پُھلاکر بیٹھ رہنے سے کیا فائدہ؟ اگر مُنہ بسورے بیٹھے رہے تو لوگ سمجھیں گے شاید مینڈیلا کا مرنا بُرا لگا ہے! امریکی صدر نے تھارننگ شمٹ کے پہلو میں بیٹھ کر جو انداز اختیار کیا اُس سے سب کو اندازہ ہوگیا کہ وہ جوانی میں کیسے رہے ہوں گے۔ نوجوانی کی چونچلے بازی کا مظاہرہ اُن تصاویر کے لیے تھا جو ڈنمارک کی وزیر اعظم اپنے آئی فون سے لے رہی تھیں! اوباما پلک جھپکتے میں عنفوانِ شباب کی کیفیت کو دوبارہ اپنے آپ پر طاری کر بیٹھے۔ گویا مینڈیلا کیلئے دعائیہ اجتماع نے ''ٹائم ٹریول‘‘ کا بھی اہتمام کردیا! اوباما ''دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے چند لمحات میں تین عشروں کو اُلٹے قدموں پھلانگ گئے! 
بعض لوگوں نے باراک اوباما کے انداز پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اُنہوں نے اپنے منصب کے تقاضوں کو نظر انداز کیا۔ ہمارے خیال میں اِس طرح کی تنقید سراسر بلا جواز ہے۔ بڑے حکمرانوں کے لیے منصب کا تقاضا کیا ہے؟ بے کس و لاچار ریاستوں اور منتشر معاشروں کی مٹی پلید کرنا، اور کیا؟ اوباما اور کیمرون جیسے حکمران اپنے منصب کا یہ تقاضا خوب نبھا رہے ہیں۔ کمزوروں پر زور آزمائی کرتے کرتے تھک جائیں تو مینڈیلا جیسے رہنماؤں سے عقیدت کے اظہار کے نام پر تھوڑی بہت دِل پشوری بھی کرلیتے ہیں! 
انسان کے دائیں طرف نیکیاں لکھنے والا اور بائیں طرف بدی لکھنے والا فرشتہ ہوتا ہے۔ تھارننگ شمٹ کے دائیں اور بائیں طرف کون تھا اِس کا تعین قارئین خود کریں۔ فرشتے ہمیں یوں یاد آئے کہ سربراہانِ مملکت و حکومت کی تقاریر کو سماعت سے محروم افراد کے اشاروں کی زبان میں 
بیان کرنے والے تھام سنگکا جنجی نے باراک اوباما اور دیگر رہنماؤں کی تقاریر کے دوران عجیب و غریب اشارے کئے۔ بعض اشارے انتہائی مضحکہ خیز اور لغو تھے۔ بعد میں اُس نے بتایا کہ وہ کسی اور دُنیا میں پہنچا ہوا تھا اور اُسے آسمان سے فرشتے اُترتے دکھائی دے رہے تھے! بے چارا جنجی شاید اوباما، کیمرون اور تھارننگ شمٹ کے درمیان چونچلے بازی کی تاب نہ لاسکا اور حواس باختہ ہوگیا! 
اِس پورے قصے میں امریکی خاتون اوّل مشل اوباما نے ثابت کیا کہ وہ خاتونِ اوّل ہی نہیں بیوی بھی ہیں۔ اوباما کو تھارننگ شمٹ سے خوش گپیاں دیکھتے ہوئے اُن کا مُنہ پُھول گیا اور وہ شوہر کی طرف سے خاصی ناگواری سے دیکھتی رہیں۔ جب اوباما اور کیمرون نے تھارنننگ شمٹ کے ہاتھوں کھینچی جانے والی تصویر میں شامل ہونے کی کوشش کی تو اس منظر کو دیکھ کر مشل ایسی بے مزا ہوئیں کہ کھسک کر دور ہوئیں اور دوسری سمت دیکھنے لگیں! مشل نے ثابت کیا کہ کوئی بھی عورت اپنے شوہر کو پرائی عورت کے ساتھ دیکھ کر حسد ہی محسوس کرتی ہے۔ حکمران خود کو انسان ثابت کریں نہ کریں، ان کی بیویاں خود کو عورت ضرور ثابت کرتی ہیں! 
عذرِ گناہ بد تر از گناہ کے مصداق تھارننگ شمٹ سے خوش گپیوں کی وضاحت کرتے ہوئے ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیلسن مینڈیلا مرنے کے بعد بھی لوگوں کو قریب لانے کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں! ہم نہیں سمجھتے کہ مینڈیلا نے کبھی خواب میں سوچا ہوگا کہ اُن کے مرنے پر لوگ اُن کے لیے دعا کے نام پر جمع ہوکر اپنی دل پشوری کو اُن کے کھاتے میں ڈالیں گے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved