گزشتہ روزقومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد‘وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے بتایا کہ قومی سلامتی اور اندرونی سکیورٹی سے متعلق حکمت عملی اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر بات چیت کی گئی۔ اجلاس میں داخلہ اور دفاع کے وزراء کے علاوہ‘ مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور‘ مسلح افواج کے سربراہوں‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل شریک تھے۔ وزیرداخلہ نے بتایا کہ جو پالیسی ہم لے کر آئے ہیں‘ اس کا پہلا باضابطہ مسودہ آج تیار ہوگیا ہے، جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ خفیہ رکھا جائے گا کیونکہ قومی سلامتی کے معاملات سب کے سامنے نہیں لائے جا سکتے۔ دوسرا سٹریٹیجک معاملات سے متعلق ہے، جس میں طے کیا جائے گا کہ موجودہ حالات میں ہی آگے بڑھنا ہے یا امن کے لیے مختلف لائحہ عمل تیار کرنا ہے؟ اور تیسرا حصہ آپریشنل ہے، جس میں ہمیں پاکستان کے گلی کوچوں کو محفوظ بنانا ہے۔ سٹریٹیجک معاملات کے حوالے سے چودھری نثار نے کہا کہ ''ہم نے امن کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ کامیاب نہ ہوئی تو پھر ظاہر ہے ہمارے پاس دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں‘‘۔ حکومت کی طرف سے اس اعلان کے چند ہی گھنٹے بعد‘ طالبان نے مذاکرات کی آپشن کو مسترد کر دیا اور طالبان کے نئے راہنما ملا فضل اللہ نے اپنا ایجنڈا یوں بیان کیا: ''حکومت سے امن مذاکرات بے معنی ہیں۔ ہم پاکستان کی حکومت کو ہٹانے اور ملک میں شرعی نظام نافذ کرنے کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے‘‘۔ رائٹر کے مطابق طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا: ''سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ پاکستانی حکومت بھی امریکہ کی کٹھ پتلی‘ ڈالر کی بھوکی اور کمزور ہے۔ ہمیں علم ہے کہ حکومت اندرون خانہ فوجی کارروائی کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ طالبان ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔حکومت خوشی سے فوجی کارروائی کرے، ہم نے ماضی میں بھی فوجی آپریشنوں کا مقابلہ کیا ہے اور اب بھی ان کا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ طالبان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں۔ جو وہ کہتے ہیں‘ کر دکھاتے ہیں اور جو کرتے ہیں‘ اس کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار نہیں کرتے۔
پاکستان کی طرف دیکھیں تو سب کی ڈفلی الگ الگ ہے۔ مشترکہ کانفرنسیں کرتے ہیں تو ایک ہی مسودے پردستخط کر دیتے ہیں، مگر باہر آ کر سب کی بولیاں جدا جدا ہو جاتی ہیں۔ جمہوریت اجتماعی فیصلوںکے ذریعے کام کرتی ہے اور اس میں یہ فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ مشترکہ مفادات پرکامل اتفاق رائے سے فیصلے کیے جاتے ہیں اور دیگر امور میں اختلاف رائے سے کیے گئے فیصلوں پر عملی اقدامات کی طرف پیش قدمی ہوتی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ آپ ہر جمہوری حکومت کی پالیسیوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ امریکہ میں سکیورٹی کے معاملات پر ہونے والے فیصلے جب عملدرآمد کے مرحلے میں داخل ہو جائیں تو پھر ان پر بحث نہیں ہوتی۔ سارا بحث و مباحثہ عملدرآمد کے مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے کر لیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ کار آپ کو برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور بھارت میں نظر آئے گا۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کے حکمران جنگ کا فیصلہ آج تک نہیں کر پائے‘ ہمیشہ دست و گریبان رہتے ہیں اور جنگ مسلط ہو جائے تو پھر دشمن سے لڑنے کے ساتھ ساتھ آپس میں لڑنا بھی نہیں بھولتے۔ قومی تاریخ کی ساری جنگیں یاد کر کے دیکھ لیجئے‘ ہم دشمن کے ساتھ بھی لڑ رہے تھے اور آپس میں بھی۔ کشمیر کی پہلی جنگ میں تو باہمی اختلافات کی انتہا یہ تھی کہ حکومت سرکاری طور پر جنگ میں شریک ہی نہ ہوئی۔ دوسری جنگ 1965ء میں آئی، جس میں پورا مشرقی پاکستان گلہ کرتا رہا کہ ہمیں دفاعی تحفظ کے بغیر اکیلے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ 1971ء میں ہم روایتی دشمن بھارت کے ساتھ بھی لڑ رہے تھے اور آپس میں بھی۔ دو سیاسی فریق ایک دوسرے پر باہم الزام تراشی کرتے ہوئے''بھٹو ذمہ دار ہے‘ بھٹو ذمہ دار ہے‘‘ چلا رہے تھے اور دوسرا فریق ''شیخ مجیب‘ شیخ مجیب‘‘ کی گردان کر رہا تھا اور اس باہمی توتکار میں پاک فوج جنگ لڑ رہی تھی۔فوج کو ایسی جنگوں میں دھکیلنے کا جو انجام ہوتا ہے‘ اسی سے ہماری فوج کو دوچار ہونا پڑا۔ ساری جنگوں میں اگر کوئی متفق‘ متحد اور یکسو تھا تو وہ ہمارا دشمن تھا۔ ہمارا اوپرکا دھڑ جنگ لڑ رہا تھا اور نچلا دھڑ اپنے بچائو کے لیے دہائی دے رہا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ ہاتھ تلوار چلا رہے تھے اور نیچے سے شلوارکھسک رہی تھی۔شلوار بھی کھسک گئی‘ تلوار بھی رک گئی۔ یہ ہے ہمارا اسلوب جنگ۔
جب ہم نے 1978ء میں افغانستان کے اندر اقتدار کی رسہ کشی میں ٹانگ اڑائی‘ تو ہماری آوازیں یوں بلند ہو رہی تھیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ہر ایک کا اپنا موقف‘ اپنی آواز اور اپنی رائے تھی۔ حدیہ ہے کہ جب سوویت یونین نے ہمارا مطالبہ مانتے ہوئے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا‘ ہم اس وقت بھی اس سوال پر باہم دست و گریباں تھے کہ سوویت افواج کی واپسی یا پسپائی کا فائدہ کیا اٹھایا جائے؟ ہم فتح کی شرائط پر بحث مباحثہ کرتے رہ گئے اور ہارنے والے واپسی کا یکطرفہ فیصلہ کر کے چلتے بنے۔ سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد ہم فتح کے نعرے بھی لگاتے رہے اور ایک دوسرے کی ٹانگ بھی کھینچتے رہے۔جونام نہاد مجاہدین ہماری مدد کے بل بوتے پرافغانستان میں حکمران بنے‘ انہوں نے ہم سے بھی دو قدم آگے بڑھ کے‘ ایک دوسرے کا خون بہانا شروع کر دیا۔ ہمیں آپس میں ایک دوسرے کو مارنا اوراس کی ٹانگ کھینچنا تو اچھا لگتا ہے،لیکن ہماری امداد لینے والے ایک دوسرے سے لڑیں‘ تو ہمیں اچھے نہیں لگتے۔ چنانچہ ہم نے باہم برسرپیکار اپنے پالے ہوئے تمام مجاہدین کو سبق سکھانے کے لیے طالبان تیار کیے اور ان پر حملہ آور ہو گئے۔ طالبان کامیاب ہو گئے مگر ہم نے آپس کا لڑنا نہیں چھوڑا۔ طالبان نے افغانستان میں موثر حکومت قائم کر لی، مگر ہمارے ہاں اقتدار کی رسہ کشی ہوتی رہی اور آخر کار جنرل پرویزمشرف نے ایک چھوٹے سے ٹولے کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر سیاستدانوں اور حکمران جنرلوں کے درمیان رسہ کشی کا سلسلہ پھر وہیں سے شروع ہو گیا جہاں سے وہ ٹوٹا تھا۔ امریکہ میں 9/11 کے واقعات ہوئے اور مغربی بلاک نے اسامہ بن لادن کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا ارادہ کیا تو عوام سے خوفزدہ‘ پرویز مشرف نے لپک کر امریکہ سے پناہ طلب کر لی۔کرسی پراپنا قبضہ مضبوط رکھنے کے عوض اس نے پاکستان کے سارے وسائل امریکہ کے سپرد کر دیے۔ القاعدہ اور طالبان کے خلاف لڑائی کا چارج امریکہ نے سنبھال لیا اور ہم حسب روایت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا دیرینہ مشغلہ شروع کر کے‘ خوشی سے ہنستے بستے‘ لڑنے بھڑنے میں لگے رہے۔ آپس میں لڑتے بھڑتے پرویزمشرف کو نکالا جو اپنے اقتدار کی عمر پوری کرتے ہوئے ناتواں ہو چکا تھا۔ آپ کو یادہو گا کہ جب عوامی مینڈیٹ لے کر آنے والے دونوں بڑے لیڈر مشرف کو ہٹانے میں مصروف تھے تو ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچ رہے تھے۔ دنیا میں ایسی لڑائیاں کم ہی لڑی جاتی ہیں کہ آپس میں حلیف بھی ہیں‘حریف کو شکست بھی دینا چاہتے ہیں اورایک دوسرے کو لات مکے مارنا بھی نہیں بھولتے۔آپس میں لڑتے لڑتے‘ دوسروں کے ساتھ برسرپیکار رہنے کا شوق بیک وقت پورا کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
گزشتہ سات آٹھ برس سے دہشت گردوں نے ہم پر یکطرفہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ ہم اپنے 45ہزار بے گناہ معصوم شہریوں اور 5ہزار سے زیادہ فوجی افسروں اور جوانوں کی زندگیاں قربان کر چکے ہیں۔ ہمارے شہر‘ ہماری بستیاں اور ہمارے دیہات کوئی دہشت گردی سے محفوظ نہیں۔ ہم مرتے بھی جا رہے ہیں اور لڑتے بھی جا رہے ہیں اور اس پر بحث بھی کرتے جا رہے ہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ طالبان برملا اعلان کرتے ہیں کہ ہماری آپ کے ساتھ جنگ ہے۔ وہ دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، مگر ہم یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ہم پر حملے کرنے والا ہمارا دشمن ہے یا دوست؟ کل ایک بار پھر ہماری حکومت نے اعلان کیا کہ ہم سکیورٹی کے نئے منصوبے کے مطابق پہلے مرحلے میں طالبات سے مذاکرات کریں گے۔پہلے مرحلے کے آغاز سے بھی قبل‘ ملا فضل اللہ نے جواب دیا ''مذاکرات بے معنی (یعنی بیہودہ) ہیں۔ ہم پاکستان کی حکومت کو ہٹانے اور ملک میں شرعی نظام نافذ کرنے کی جدوجہد میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے‘‘۔ شاہد اللہ شاہد نے بتایا کہ ''پاکستان کی حکومت اندرون خانہ فوجی کارروائی کے منصوبے بنا رہی ہے۔ ہم نے پہلے بھی فوجی آپریشنز کا مقابلہ کیا ہے اور اب بھی ان کا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ دشمن کے ارادے واضح ہیں۔سوچ غیرمبہم ہے۔دہشت گردی میں وہ تکلفاً بھی تعطل کی بات نہیں کرتا، مگر ہم آج بھی یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ طالبان ہمارے اپنے ہیں یاغیر؟ ہم یہ جنگ بھی سابقہ جنگوں کی طرح لڑنا چاہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ انجام اس مرتبہ مختلف ہو گا۔ کیسے ہو گا؟ اس سوال کے جواب پھر الگ الگ ملیں گے۔