یقین کریں یا نہ‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کل امریکہ میں لوگ ورثے میں ملنے والی دولت سے زیادہ خاندانی نوادرات کو اہمیت دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ پیرا لیگل کورس کی کلاس لیتے ہوئے ہماری ٹیچر نے ہمیںمشورہ دیا کہ ہم اپنی وصیت لکھ لیں۔اُنھوں نے کہا کہ عام طور پر لوگ وصیت لکھنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ وہ موت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ تاہم، موت ایک حقیقت ہے اور دیگر انسانوںکی طرح ہم نے بھی اس کا مزہ چکھنا ہے؛ لہٰذا اس کے ذکر سے اجتناب کیوں؟
پاکستان میں بمشکل ہی ہم کسی سے وصیت لکھنے کا ذکر سنتے ہیں۔ ایساکیوں ہے؟ کیا پاکستانیوںکو موت پر شک ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیںہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ موت تو اٹل حقیقت ہے اور اس سے مفر ممکن نہیں، لیکن پاکستان میں امیر لوگ، جنھوں نے بدعنوانی، لوٹ مار اور غیر قانونی ذرائع سے دولت کمائی ہو، پہلے ہی اپنی دولت کا بڑا حصہ بچوں کے نام کرچکے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ اولاد سے بے پایاں محبت نہیں بلکہ ٹیکس افسران کو چکمہ دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ اسی طرح سیاست دان اپنے اصل اثاثے ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ وہ کسی کو ان کی ہوا تک نہیں لگنے دیتے۔ ہمارے ہاں سیاست میں غربت ''اثاثہ‘‘ سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ ارب پتی افراد غریب نظر آنے کے لیے بڑے جتن کرتے ہیں۔
امریکہ میں آپ اپنی غیر منقولہ جائیداد کو بھاری بھرکم ٹیکس ادا کیے بغیر اپنے بچوںکو نہیں دے سکتے۔ وہاں ٹیکس سے چھوٹ کا کوئی تصور موجود نہیں۔ آپ اپنے عزیز و اقارب کو جو تحفہ بھی دیتے ہیں، ٹیکس آفس میں اس کی رپورٹ کرنا پڑتی ہے اور اگر آپ ایسا نہیں کریںگے تو یا آپ کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا یا جیل جانا پڑے گا۔ انکل سام نے جو قانون بناتا ہے، اس پر بلاتخصیص عمل یقینی بناتا ہے۔ جس ریاست میں ، میں رہتی ہوںوہاں Death Duty بہت زیادہ ہے (وہ ٹیکس جو مرحوم کے ورثا کوجائیداد کی منتقلی سے پہلے ادا کرنا پڑتا ہے) جب تک ورثا یہ ٹیکس ادا نہیںکرتے، اثاثے ان کے نام منتقل نہیں ہوتے۔ کیا آپ یقین کریںگے کہ یہ ٹیکس مرحوم کے چھوڑے کل اثاثوں کا چالیس فیصد ہوتا ہے۔ یہ بہت بھاری رقم ہوتی ہے لیکن یہ قانون ہے اور کوئی بھی اس سے بچ نہیںسکتا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی قابل اور مہنگا ٹیکس اٹارنی، بھاری فیس کے عوض دولت مند کلائنٹس کو کوئی ایسا راستہ بتادے کہ وہ کم از کم ٹیکس ادا کرتے ہوئے جیل جانے سے بچ جائے۔
ایک سروے کے مطابق امریکہ میں ایک نیا رجحان ابھر رہا ہے۔۔۔'' لوگ خاندان کی دولت سے زیادہ خاندانی نوادرات کو اہمیت دیتے ہیں۔خاص طور پر ''بے بی بومرز‘‘( وہ لوگ جو 1946ء سے1964ء کے درمیان پیدا ہوئے ) اپنے آبائو اجداد کی لکھی ہوئی کہانیوں، وصیتوں اور ذاتی ضرورت کی اشیا کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘کچھ کا کہناہے کہ جنگ کے بعد کی نسل اپنے آبائو اجداد کی شناخت قائم رکھناچاہتی ہے۔ سروے کے مطابق صرف نو فیصد افرا د نے ان اشیا پر دولت کو ترجیح دی ۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کی یہ نسل ماضی سے تعلق قائم رکھنا چاہتی ہے۔ آج ان کو احساس ہورہا ہے کہ جو چیز آپ کے خاندان کو ممتاز بناتی ہے وہ دولت نہیں بلکہ یادگاریں ہیں ۔ ان یادگاروں کی مارکیٹ ویلیو نہیںبلکہ جذباتی اہمیت ہوتی ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنے خاندان اپنی کہانیوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں؟ عام طور پر ہوتا ہے کہ خاندان کے واقعات افراد کی وفات کے ساتھ ہی بھلا دیے جاتے ہیں کیونکہ وہ لکھے نہیں جاتے، لیکن جو افراد لکھتے ہیں ، وہ بھی ضائع ہوجاتے ہیں ۔ تاہم آج کل، جیسا کہ میںنے بتایا ہے، امریکی اپنے خاندان کی ایسی چیزوںمیں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔باپ دادا کی چھوڑی ہوئی چیزیںیقینی طور پر دیگر افراد کے لیے تاریخی اہمیت کی حامل نہیں ہوتیں لیکن اس خاندان کی آنے والی نسل کے لیے یقینا وہ چائے کا کپ، جس میں ان کے آبائو اجداد چائے پیتے تھے، وہ بیڈ، جس پر وہ سوتے تھے، وہ چھتری، جو اُن کے زیر ِ استعمال رہی، اور اس طرح کی بہت سی چیزیں، بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ نئی نسل کو جذباتی طور پر خاندان کے ساتھ جوڑے رکھتی ہیں۔ ان چیزوں کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ تقسیم نہیں ہو سکتیں؛ چنانچہ یہ تمام خبریں خاندان کی جذباتی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ اس کے برعکس دولت تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر تی ہے اور خاندان کو بھی تقسیم کردیتی ہے؛ چنانچہ یہ چیزیں خاندان کے لیے مرکزیت کا باعث بنتی ہیں۔
ہم پاکستانیوں کو اپنے خاندانی نظام پر بہت ناز ہے لیکن ہم ان چیزوںکی پروا نہیں کرتے۔ کیا ہمارے گھروں میں وہ قلم محفوظ ہے ، جس سے ہمارے داد ا لکھتے تھے، یا کیا ان کے زیر ِ استعمال چیزیں ہماری لیے اہمیت رکھتی ہیں؟کیا ہم نہایت بے دردی سے وہ چیزیں کباڑیے کے ہاتھ فروخت کرکے گھرمیں مزید جگہ بنانے کا جتن نہیں کرتے؟ کیا یہ سنگ دلی ہے یا نہیں ؟ کیا آپ کی اولاد کو اپنے دادا کے ذوق کا علم ہے؟کیا وہ دیوان ِ غالب اورمسدس ِ حالی،جو اُنھوںنے (فرض کریں دہلی یا کسی اورشہر ) سے خریدے تھے، آج آپ کے گھر میں ہیں؟ کیا آپ کے والد کا ٹائپ رائٹر آج آپ کے پاس موجود آئی پیڈ سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیںہے ؟آپ آئی پیڈ کا نیا ماڈل خرید لیں گے، لیکن یہ ٹائپ رائٹر اب دوبارہ کبھی نہیں ملے گا جس پر آپ کے والد کی انگلیاں چلتی تھیں۔ ساحر لدھیانوی نے درست کہا تھا۔۔۔''مفلسی حس ِ لطافت کو مٹا دیتی ہے، بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی‘‘لیکن کیا ہم بالکل مفلس ہو چکے ہیں ؟ جہاں تک جائیداد کا تعلق ہے تو اکثر ایساہوتا ہے کہ باپ دادا کی جائیداد کو، جو عموماً کسی گائوں میں ہوتی ہے، فروخت کرکے کی شہر ، فرض کریں لاہور یا کراچی، میں پلاٹ خرید لیا جاتا ہے اور وہ گھر ، جہاں کبھی خاندانی روایات پھلتی پھولتی تھیں، کسی اور خاندان کے پاس چلا جاتا ہے۔ یقینا اُسے اُن یادوںسے کوئی سروکار نہیںہوتا ، جو آپ کے لیے اس گھر سے وابستہ تھیں۔
میرا خیال ہے کہ جب ہم دیگر معاملات میں امریکیوںکی نقل کرنا باعث ِ فخر سمجھتے ہیں تو اس معاملے میں بھی کوئی حرج نہیںہونا چاہیے۔ جہاں تک آپ کا گھر اور اس میں موجود جگہ اجازت دیتی ہے، آپ کسی شیلف یا الماری میں خاندان کی چیزیں اکٹھی کرنا شروع کردیں۔ یقین کریں یہ ایک بہت اعلیٰ اخلاقی سرمایہ کاری ہوگی۔ اور تو اور، داداابو کا حقہ بھی وہ داستان کہہ دیتا ہے جو شاہنامہ بھی بیان نہیں کرسکتا۔