تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     19-12-2013

قوم کا مستقبل

کسی بھی قوم کا مستقبل اس کے نوجوان ہوتے ہیں ۔اگر نوجوان باکردار اور پر عزم ہوں تو قوم کا مستقبل روشن ہوتاہے۔ اگر نوجوان بدچلن اورگمراہ ہوجائیں تو قوم کا مستقبل تاریک ہو جاتاہے ۔علامہ اقبال نے بجا طور پر کہا تھا ؎ 
 
گر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور 
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں 
 
 
نوجوانوں کی تربیت میںقوم کے بزرگ نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔عقلمند اور باشعور بزرگ نوجوانوں کو ہمیشہ راہ راست پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں ۔اگر قوم کے بزرگ خود ہی گمراہی، بدچلنی یا غفلت کا شکار ہوں تو نوجوانوں کے راہ راست پر آنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں ۔بزرگ نئی نسل کے لئے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں اور برا نمونہ نسل نو کی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ہماری قوم اس وقت اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اور میڈیا کے منفی استعمال کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں اخلاقی کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں ۔والدین کی اکثریت معاشی سرگرمیوں اور روزگار کی الجھنوں میں اس حد تک گرفتار ہوچکی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مشاغل سے صحیح طور پر واقف نہیں۔ والدین کی عدم توجہ کی وجہ سے نوجوانوں کے اخلاقی بگاڑمیں بتدریج اضافہ ہو رہاہے ۔معاشرے میں کثرت سے ہونے والے جنسی جرائم اس اخلاقی زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔اگر معاملہ معاشرے کے ذمہ داران اور والدین کی عدم توجہ تک محدود رہتا تو پھر بھی بہتری کے امکانات باقی رہتے لیکن اس وقت معاملہ اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ کہ ایک سازش کے تحت فحاشی وعریانی کی ترویج کے لئے تعلیمی اداروں کو استعمال کرنے کا ہولناک منصوبہ مرتب ہو چکا ہے۔ جنسی تعلیم کو نصاب میں بتدریج داخل کرانے کے لئے مختلف بین الاقوامی ادارے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ماہرین تعلیم کو بھی جنسی تعلیم کی ضرورت اور افادیت کا احساس دلانے کی کاوشیں ہو رہی ہیں۔ یہ ساراکام بزرگان اور راہنمایان قوم کی لاعلمی سے نہیں بلکہ ان کے اشتراک عمل سے ہو رہا ہے۔
چند روز قبل لاہور کے ایک مشہور آرتھوپیڈک، ڈاکٹر سلیم میرے دیرینہ دوست اسد آفتاب کے ہمراہ میرے گھر تشریف لائے۔ جواں سال ڈاکٹر سلیم ملت کے بہی خواہ اورنوجوانوں کے روشن مستقبل کی گہری امنگ اور نوجوانوں کی موجودہ اخلاقی گراوٹ کا شدید احساس اپنے دل میں لئے ہوئے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے نوجوان تعلیم کے زیور سے آراستہ وپیراستہ ہوں لیکن وہ ایسی تعلیم سے انتہائی نالاں تھے جو نسل نو کے اخلاقی مستقبل کی تباہی پر منتج ہو اور ان کو اپنی روایات، تہذیب اور مذہب سے دور کرنے کا سبب بن جائے۔ وہ اکبر الہ آبادی کے اس شعر کے ترجمان نظر آرہے تھے کہ ؎
 
 
ہم ایسی کل کتابوں کو قابل ضبطی سمجھتے ہیں 
کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں 
 
 
انہوں نے اس ملاقات میں بعض حیر ت انگیز انکشافات کئے۔ جو ہر دردمند اور صاحب شعور انسان کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ان انکشافات کی تائید کے لیے اہم ڈاکومنٹس پر مشتمل ایک فائل بھی ساتھ لے کر آئے تھے۔ ان کے چلے جانے کے بعد میں نے فائل میں موجود مواد کی ورق گردانی کی تو میرے دماغ اور اعصاب پر غم اور اضطراب کی ناقابل بیان کیفیت طاری ہو گئی۔ اگر ڈاکٹر سلیم کی فراہم کردہ معلومات درست تھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے عشروں میں نوجوانوں کی اخلاقی اور مذہبی تربیت پہلے کے مقابلے میں بہت مشکل ہو جائے گی۔
ڈاکٹر صاحب کی مہیا کردہ معلومات کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ دو معروف این جی اوز نے پاکستان میں ''جنسی اور تولیدی صحت‘‘ کے نام پر تعلیمی نصاب میں بعض اہم تبدیلیاں متعارف کروانے کا قصد کیا ہے۔ اس تعلیمی نصاب کا ہدف دس سے پندرہ سال کے بچے اور بچیاں ہیں ۔ایک معروف اخبارکی 24 اگست 2013ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 2009ء میں تشکیل دی جانے والی ایجوکیشن پالیسی میں اس موضوع کوملکی نصاب تعلیم میں داخل کرنے کی ہامی بھررکھی ہے۔ بظاہر تو یہ سب کچھ جنسی اور تولیدی صحت کے متعلق رفاہ عامہ کا ایک پیغام لگتا ہے مگر درحقیقت یہ اپنے اندر چار خطرناک عنوان سموئے ہوئے ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں: 
(1جنسی حقوق، (2جنسی صحت، (3تولیدی حقوق، (4تولیدی صحت 
جب ہم ان چاروں نکات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جنسی حقوق سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے کسی بھی فرد کو اپنی مرضی سے بغیر نکاح کے کسی بھی شخص سے جنسی تعلقات استوار کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور اس حق سے کسی بھی انسان کوکسی قانونی یا مذہبی وجہ سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔اسی طرح تولیدی حقوق سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نکاح کے بغیر بھی کسی بھی شخص کے بچے کی ماں بن سکتی ہے اور اگر عورت کی مرضی نہ ہو تو اس کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے شوہر کے بچے بھی پیدا نہ کرے ۔ایسے حقوق کی تعلیم کا لازمی نتیجہ اسلامی روایات پر مبنی معاشرے کو ایسے سماج میں بدل دے گا کہ جس میں نکاح اور شادی جیسے مقدس بندھنوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی ۔پھر انسان حیوانوں کی طرح اپنی نفسانی اور جبلی خواہشات کا اسیر بن کر رہ جاے گا ۔
پڑھائی لکھائی کی آڑ میں ایک ایسی تعلیم کو نصاب میں داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس کا ہمارے مذہب ،سماجی رویوں اور اخلاقی روایات سے دور پار کا بھی واسطہ نہیں۔ ڈاکٹرصاحب نے انکشاف کیاکہ اس تعلیم کی نشرواشاعت اورفروغ کے لئے بہت سی اہم سرکاری ،غیر سرکاری، سیاسی، غیرسیاسی اوریہاں تک کہ بعض مذہبی شخصیات بھی سرگرم ہیں اوریہ مذہبی شخصیات قرآن مجید میں حقوق زوجین کے حوالے سے بیان کردہ بعض حقائق کو جنسی تعلیم کے جواز کے لئے پیش کر رہی ہیں۔ قرآن مجید میں مذکور حقائق کو جنسی اور تولیدی حقوق کی تعلیم کو جائز قرار دینے کے لئے استعمال کرنا ''عذر گناہ بدتراز گناہ‘‘ کے مترادف ہے۔ قرآن مجید نے گو کہ حصول تعلیم کی بہت حوصلہ فزائی کی ہے مگر تعلیم کی آڑ میں فحاشی پھلانے کا منصوبہ قرآنی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے ۔فحاشی کی نشرواشاعت کے حوالے سے قرآن مجید کا بیان بالکل واضح ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃالنور کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے ‘‘قرآن مجید نے ہمیشہ پاکیزگی اور طہارت کا درس دیا ہے اور اسی کو مدارنجات بھی قرار دیا۔ قرآن مجید نے مردوزن کے اختلاط کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے عورتوں کو شرعی تقاضے کے مطابق پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32 میں اللہ تعالی نے برائی کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے اور اس آیت مبارکہ کے ذریعے ان راستوں اور طریقوں کے قریب جانے کی بھی مذمت کی گئی ہے جو بدکاری کے قریب لے جانے والے ہیں ۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس نصاب تعلیم کے بعض مندرجات پنجاب حکوت کی آفیشل ویب سائیٹس پر بھی آچکے ہیں اور اس تعلیمی نصاب کے درس گاہوں میں اجراء کے ساتھ ہی حکومت کو فروغ تعلیم کی مد میں خطیر رقم بطور فنڈ حاصل ہو گی ۔اس تعلیم کی مخالفت کرنے والے تنگ نظر ،انتہا پسند اور دقیانوسی اور تائید کرنے والے روشن خیال ،ترقی پسند اورا کیسویں صدی کے تقاضوں کے ہم آہنگ قرار پائیں گے ۔ماضی میں غیور پاکستانی مسلمانوں نے آغاخان بورڈ کو مسترد کرد یا تھا ۔اسی طرح اب بھی امید ہے (اگرچہ قوم کے بزرگ اور راہنماؤں کی بڑی تعدادخواب غفلت میں مدہوش ہے) کہ ملک وملت کے بہی خواہ اپنی غیرت کا سودا نہیں کریں گے اورتعلیم کی آڑ میں فحاشی پھیلانے والے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے اپنے فرائض منصبی کو احسن طریقے سے سرانجام دیں گے تا کہ قوم کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved