تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-12-2013

اتفاقات

''اتفاق‘‘پروفیسر پیٹر ہگز نے سگریٹ کا ایک طویل کش لے کرکہا:'' زندگی اتفاقات کا ایک حسین مجموعہ ہے‘‘۔ کمر ے میں موجود عظیم اذہان نے پروفیسر کی تائید میں سر ہلایا۔فرانس میں آج مایہ نازسائنسدانوں کے تین روزہ اجتماع کا آخری دن تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی کسی بھی تقریب کا مہمانِ خصوصی سٹیفن ہاکنگ کے سوااورکون ہو سکتا تھا۔موجودہ دور کے سب سے بڑے سائنسدان کا جسم مکمل طور پر مفلوج لیکن دماغ سات ارب انسانوں سے زیادہ متحرک تھا۔سالہا سال سے وہ بولنے کے لیے بھی اپنے جسم سے منسلک ایک خصوصی کمپیوٹر کا محتاج تھا۔ڈاکٹر ہاکنگ کوخراجِ تحسین پیش کرنا بھی اس کانفرنس کا ایک مقصد تھا۔ سائنس کے افق پر چمکنے والے کئی نوجوان ستارے بھی کمرے میں موجود تھے۔جہاں تک میرا تعلق تھا، میں ان مایہ ناز سائنسدانوں کی خدمت پرمامور تھا۔مجھے اس کامعقول معاوضہ ملتا تھا۔نہ بھی ملتا تو میں بخوشی یہ ملازمت قبول کرتاکہ ایسے عالی دماغوں کی صحبت بڑی سعادت کی بات تھی ۔گزر بسر کے لیے شہر سے باہر میرے وسیع فارم ہائوس کی سبزیاں ہی کافی تھیں ۔ 
ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ کا دایاں گال پھڑکنے لگااوراس سے منسلک سنسرکمپیوٹرکی مدد سے خیال کو آواز میں ڈھالنے لگا:''کرّہ ارض پہ ہم جو زندگی دیکھتے ہیں، اپنے آپ اتفاقاً وجود میں آئی ہے؛لہٰذاکائنات میں دوسری جگہوں پر بھی زندگی نے خودکو تخلیق کیا ہوگا‘‘۔
فضا میں موجود کیپلر دور بین ہر روز نئے سیارے دریافت کر رہی تھی۔ 2014ء میں کرّ ہ ارض جیسے پانچ سو سیاروں کی جانچ پڑتال کا عمل شروع ہونے کو تھا ؛لہٰذایہ موضوع سائنسدانوں کے ہر گروہ میں زیرِ بحث تھا۔''جناب آپ کن اتفاقات کی بات کر رہے ہیں؟‘‘ایک نوجوان نے پروفیسر ہگز سے مودبانہ لہجے میںپوچھا۔ ''زندگی کے لیے درکار لوازمات کا ایک جگہ اکٹھے ہونا ایک بہت ہی بڑا اتفاق ہے‘‘۔ پروفیسر ہگز نے کہا:''ظاہر ہے کہ زندگی کے لیے پہلی شرط کسی بھی سیارے کا اس کے سورج سے مناسب فاصلہ ہے۔کرّہ ارض کے لیے ایک بڑا چاند بھی ناگزیر تھا ورنہ سورج کے گرد اس کا مدار مستحکم نہ ہوتا۔اس صورت میںہم مسلسل جان لیوا برفانی ادوار (Ice Ages)میں پھنسے ہوتے یا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ جاتا۔ہمارے پانیوں پرچاند کے مثبت اثرات اس کے سوا ہیں۔زمین کے نیچے پگھلے ہوئی لوہے سے وجودمیں آنے والا مقناطیسی میدان اورفضا میں اوزون نہ ہوتی تو سورج کی خطرناک شعاعیں زندگی کو شدید خطرے سے دوچار رکھتیں۔ایسی صورت میں زیرِ زمین پناہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا‘‘۔
''طبّی معاملات اور بھی پیچیدہ ہیں‘‘۔ایک اور آواز آئی ''زندگی کو ہم بتدریج ارتقا کرتا دیکھتے ہیں۔دوسری طرف دل،دماغ،معدہ ،گردے اور پھیپھڑے،کسی میں بھی ذرا سی خرابی موت کا پیغام ہوتی ہے۔زندگی بہت ہی نازک اور حسّاس ہے‘‘۔''بقا کے لیے جانوروں اور پودوں کا باہمی ربط؟‘‘ایک اور نامی بولنے لگا۔''کروڑوں برسوں سے پودے نہ صرف ہمیں خوراک مہیا کر رہے ہیں بلکہ آکسیجن بھی۔دوسری طرف ہم انہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ دیتے ہیں۔کئی سیاروں کی فضا بڑی زہریلی اور مہلک ہے۔کرّہ ارض جیسی فضا تو جیسے کہیں موجود ہی نہیں‘‘۔
''انسان سب سے کمزور جانور تھا‘‘اب ارتقا کا ماہر گویا ہوا ''لیکن ذہنی طور پر سب سے شاندار۔ ہماری تعداد اب سات ارب کے قریب ہے۔ پہلے پہل ہم جانور شکار کرتے رہے اور جنگلی پھلوں سے پیٹ بھرتے رہے۔اس سے قبل کہ ہماری تعداد میں یہ غیر معمولی اضافہ ہوتا، ہم فصلیں اگانے کے ماہر ہو چکے تھے۔ ہم مصنوعی طور پر جانوروں اور پودوں کی تیزی سے پروان چڑھنے والی نسلیں پیداکر چکے تھے‘‘۔
ماہرِارضیات اٹھا''زمین کے نیچے مفید دھاتیں؟ سونا، چاندی چھوڑدیجئے، اگرکوئلہ اور تیل نہ ہوتا؟اگر لوہا اور ایلومینیم نہ ہوتے توکیا آج ہم اتنے ترقی یافتہ ہوتے ؟ دفاعی سازو سامان، ٹینک اور میزائل کیونکر بنائے جاتے؟ چلیں دھاتوں کو بھی چھوڑیے، اگر آسمان سے بارش نہ برستی تو زندگی کب کی مر چکی ہوتی‘‘۔ 
یہ سب انکشافات میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے۔میں توفقط اتنا جانتا تھا کہ جانوراور پودے تیزی سے اپنی نسل بڑھاتے ہیں اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ 
''جناب کیا مجھے ایک سوال کی اجازت ہے ؟‘‘میں نے کھڑے ہوکرگزارش کی۔ سب حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔ وہ تو شاید میری موجودگی کو ہی نظر اندازکر چکے تھے ۔ سوالیہ نظریں میری طرف مرتکز رہیں تو میں گویا ہو ا:''جناب کیا وجہ ہے کہ ہزاروں جانوروں میں سے صرف ہم انسان ہی ذہین ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ باقی سب ہماری خدمت پر مامور ہیں‘‘۔ خاموشی اسی طرح برقرار رہی ۔ ''جناب کیپلر دوربین ہزاروں سیّارے دریافت کر چکی ہے۔کیاان میں سے کسی اورپر بھی یہ اتفاقات جنم لے رہے ہیں ؟ ‘‘سکوت اور گہرا ہو گیا۔''جناب آج سے قبل میں کوئی مذہبی آدمی نہ تھا لیکن آپ حضرات کے انکشافات نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔مجھے یقین ہو چلا ہے کہ کوئی ان دیکھی ہستی بڑے پیار سے ہماری پرورش کر رہی ہے‘‘۔
وحشت ناک سنّاٹا چھا گیا۔ 
''ان دیکھی ہستی کیوں ؟ سیدھی طرح خدا کا نام کیوں نہیں لیتے؟ ‘‘ آخر کار پروفیسر ہگز کی آواز گونجی''تمہارے جیسے مدبّر کو یہ معمولی ملازمت زیبا نہیں۔تم برقع اوڑھو اور تلوار تھام کے افغانستان چلے جائو یا مصلیٰ اٹھا کے کسی صحرا میں گھس جائو۔ تمہارے ہی جیسے لوگوں نے میری دریافت کوخدائی ذرّے کا نام دیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر ہاکنگ کی مشینی ہنسی سنائی دی ۔ میں نے حیرانی سے پروفیسرہگز کی طرف دیکھا ۔اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ دوسروں کے تاثرات بھی کم جارحانہ نہیں تھے۔ایک نوجوان سائنسدان اٹھا اور مجھے گھسیٹتا ہوا دروازے کی طرف چل پڑا '' کیا ہم نہیں جانتے کہ اس قدراتفاقات کا اکھٹے ہونا ناممکن ہے۔ ہم سے بڑا خدا شناس کوئی نہیں لیکن اقرار کا مطلب اپنی آزادی کا خاتمہ ہے اور یہ کبھی نہیں ہوسکتا‘‘کمرے سے باہر دھکّا دیتے ہوئے اس نے سرگوشی کی۔ میرے جواب سے قبل ہی دروازہ بند ہو چکا تھا۔ 
جب میں یہ سوچتا ہوا واپس جا رہا تھا کہ آج کل کونسی سبزیوں کا موسم ہے تو پلٹ کر میں نے شیشے کی دیوار سے آخری بار کمرے کے اندر جھانکا۔ وہ سب ایک دوسرے سے یوں نظریں چرا رہے تھے، جیسے چوری کرتے پکڑے گئے ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved