تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     20-12-2013

کتنی برساتوں کے بعد؟

سولہ دسمبر ہر سال آتا ہے اور اہل پاکستان کو اداس کرکے چل دیتا ہے ۔اس سال دن کے دکھوں میں عبدالقادر ملا کا غم بھی شا مل ہوا۔ انہیں مبینہ واردات کے 42 سال بعد قتل اور ریپ کا قصور وار قرار دے کر پھانسی دے دی گئی تھی۔ 1971ء میں اس روز میں لانگ ورتھ ہاؤس آفس بلڈنگ میں فیلو شپ کر رہا تھا ۔میرے افسر بل رچرڈسن نے‘ جو بعد میں کانگرس کے رکن اور نیو میکسیکو کے گورنر ہوئے‘ چپ چاپ ایک رپورٹ کا تراشہ میری طرف بڑھا یا جس میں سقوط ڈھاکہ کی خبر تھی ۔تھوڑی دیر میں گروپ کے سربراہ کانگرس مین بریڈ فرڈ مورس آگئے اور انہوں نے میری میز کے ایک کونے پر بیٹھ کر مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا ۔ اس وقت یہ لوگ لبرل ریپبلیکن تھے اور قدرتی طور پر انہیں صدر رچرڈ نکسن کی ڈپلومیسی ناکام ہونے کا صدمہ تھا جو نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی سالمیت کے حق میں جھکائو کا مظاہرہ کرتے پائے گئے تھے۔ صدر نکسن نے کونسل کے اجلاس میں مشیر ہنری کسنجر سے گفتگو کرتے ہوئے ہندوستانی جنگ بازوں کو بُرا بھلا کہا اور بھارت کے عزائم کی تائید کرنے سے انکار کر دیا۔ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی واشنگٹن سے خالی ہاتھ لوٹ گئی تھیں مشرقی پاکستان کے بحران کے دنوں میں عبدالقادر ملاّ ڈھاکہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور اسلامی جمعیت طلبا ( اسلامی چھاترو شنگھو) کے ناظم تھے جو جماعت اسلامی پاکستان کی ایک ذیلی تنظیم تھی ۔
میں لاہور کے صحافیوں کے اس گروہ میں تھا جو جماعت اسلامی کے سیاسی نظریات سے اختلاف رکھتے تھے ۔میں نے اچھرہ میں جماعت کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی پہلی پریس کانفرنس میں شرکت کی اور منتظمین نے جب دیکھا کہ ''کوہستان‘‘ کاپریس فوٹو گرافر یا سین بھی در آیا ہے تو انہوں نے اسے یہ کہہ کر کمرے سے نکال دیا کہ تصویر بنانا منع ہے ۔وہ رپورٹر آئی ایچ راشد کا بھائی تھا جو انجمن صحا فیان پنجاب کے صدر ہوئے اور چند ماہ قبل وفات پائی ۔ بنیادی جمہوریتوں کی تشکیل کے بعد صدر محمد ایوب خان کے الیکشن کا غلغلہ بلند ہوا تو جماعت اسلامی نے اپنے نظریات میں ترمیم کرتے ہوئے ان کی مد مقابل محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ اس انتخابی مہم میں حبیب جالب بھی محترمہ کے موئید تھے ۔ہمارے گروپ نے جماعت اسلامی کا رشتہ امریکہ سے جوڑا اور تحقیق و تنقید کے دریا بہا دیے۔ روزنامہ تسنیم میں میرے پرانے ساتھی بلکہ باس سعید ملک‘ کوثر نیازی‘ ارشاد حقانی اور مصطفیٰ صادق جماعت سے نکل آئے تھے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب پریس فوٹو گرافروں کے آنے تک جماعت اسلامی کی پریس کانفرنس شروع نہیں ہوتی تھی ۔جماعت اسلامی‘ نیشنل عوامی پارٹی‘ خاکساروں اور احراریوں کے لیڈروں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی مگر ان سب نے بتدریج زمینی حقائق کو تسلیم کیا اور پاکستان کی سیاست میں بھر پور حصہ لینے لگے ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں یہ نظریاتی ارتقا ء خوش آئند تھا۔1971ء میں بنگلہ دیش کی جد و جہد کے بارے ان سب پارٹیوں کی خاموشی یا جنرل محمد یحییٰ خان کی حکومت کی حمایت قابل فہم تھی ۔ مشرقی پاکستان میں نوزائیدہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تنظیم نہیں تھی ۔ پاکستان کی بانی مسلم لیگ دو بڑے دھڑوں‘ کنونشن اور کونسل‘ میں بٹ کر مسمار ہو چکی تھی۔ ملک کے مشرقی صوبے کے مذہبی عناصر میں جماعت اسلامی کا اثرو رسوخ تھا اس نے بنگلہ دیش کی لڑائی میں پاکستان کی مسلح افواج کا ساتھ دیا یہ اس کا سیاسی عمل تھا جس سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر جسے گردن زدنی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
گردن زدنی تو وہ لوگ بھی قرار نہیں پائے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ مکتی باہنی بنائی۔ الشمس اور البدر منظم کیں ۔بھارتی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے اور ایک سال بعد ذوالفقارعلی بھٹو کی کوشش سے مشروط طور پر ہمسایہ ملک کی قید سے آزاد ہو کر گھروں کو لوٹے ۔ ملکوں کے نقشے بدلتے ہیں اگر پاکستان نہ بنتا تو بنگلہ دیش کا وجود بھی نہ ہو تا۔ عبدالقادر ملاّ کو مومنہ کے استغاثے پر نہیں ''غداری‘‘ کی سزا دی گئی۔ اس بنا پر تو جارج واشنگٹن کو بھی یہ انتہا ئی سزا دی جا سکتی تھی جس نے برطانیہ عظمیٰ کی نو آبادیاتی حکومت کے خلاف تلوار اٹھائی۔ مشرقی ساحل کی تیرہ نو آبادیوں کے کوئی تین درجن لیڈر بھی جنہوں نے اعلان آزادی پر دستخط کئے سزاوار ہیں ۔ پھر جان ہینکاک جو لندن کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے والی کانگرس کے صدر تھے اور ٹامس جیفرسن جس نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا دستور لکھا ۔ کون غدار ہے اور کون ہیرو؟ اس سوال کا فیصلہ عدالت نہیں تاریخ کرتی ہے ۔
بل رچرڈسن مجھے اپنی گاڑی میں پی سٹریٹ پر اتار کر ڈوپانٹ سرکل کی طرف چل دیے جہاں ان کی رہائش تھی۔ میں ہارٹنٹ ہال میں رہتا تھا ۔تھوڑی دیر میں سعید عنصری آئے اور اطلاع دی کہ سفیر کے گھرمیں پارٹی ہو رہی ہے اور باہر بہت سے ملازمین دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں ۔سفارت خانہ اور سفیر کا سرکاری مکان قریب ہی تھے ۔ پیدل چل کر پہنچا تو اطلاع کو درست پایا ۔ سفیر این ایم رضا کے سرکاری بنگلے پر ان کی صاحبزادی رخشی کی سالگرہ منائی جا رہی تھی اور مہمان مشرقی پاکستان کے حالات سے بے خبر جام پہ جام چڑھا رہے تھے ۔میں نے واشنگٹن کے رد عمل پر ایک مضمون لکھا‘ جسے میرے اخبار نے سنڈے ایڈیشن کے صفحہ اول پر شائع کیا ۔چند روز کے بعد سنا کہ صدر بھٹو نے امریکہ سے واپس جا کر پنجاب یونیورسٹی کے میدان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا اور جنرل (ریٹائرڈ) رضا کو سبکدوش کر دیا ۔
پاکستان کی قومی اسمبلی نے عبدالقادر ملا کی پھانسی کے خلاف قرار داد منظور کی ہے جو 1971ء کے ذہنی انتشار کی صدائے بازگشت لگتی ہے۔ یہ قرارداد جماعت اسلامی کے ایک رکن نے پیش کی۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی نے اس کی مخالفت کی اور اے این پی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ۔تاہم وزیر داخلہ نثار علی خان نے جماعت کے لیڈر کی پھانسی کی مذمت کرتے ہوئے اسے پرانے زخم ہرے کرنے کے مترادف کہا ۔ان کی تقریر دفتر خارجہ کے بیان سے مختلف ہے جو کہتا ہے کہ پاکستان کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ۔قرارداد کے مخالفین اس بیان کی آڑ لے سکتے ہیں مگر یہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معا ملات میں مداخلت کی بات نہیں۔ سابق مشرقی پاکستان کا معاملہ ہے جس کی پُر تشدد علیحدگی نے ایک قوم کو مخمصے میں ڈال دیا تھا ۔حمود الرحمن کمشن نے اس سانحہ کی تحقیقات کی مگر اس کی رپورٹ اب تک قومی اسمبلی میں پیش نہیں کی گئی۔اس میں فوج کی زیادتیوں کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ بنگلہ دیش میں سیاسی وجوہ کی بنا پر اس سزا پر رد عمل غیر معمولی تھا۔ احتجاجی مظاہروں میں دو درجن سے زیادہ افراد نے جانیں دیں۔ یہ رد عمل بھٹو کے پھانسی پانے سے بڑھ کر ہے ۔
کہتے ہیں کہ جنگ کا پہلا شکار سچ ہو تا ہے ۔پاکستان اور ہندوستان کے فوجی افسروں اور سول سرکاری ملازمین نے اس سانحے پر جو 35 سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں ان میں سے اکثر ''صفائی‘‘ کے بیا نات ہیں مگر ان میں جنرل کمال متین الدین‘ جنرل مانک شا‘ جنرل فضل مقیم‘ کرنل صدیق سالک‘ سول سرونٹ مسعود مفتی اور مورخ شرمیلا بوس کی تصنیفات میں صداقت کی جھلکیاں مل جاتی ہیں ۔ پاکستان کی خانہ جنگی کے وقت وہ کلکتہ کے ایک پرائمری سکول کی طالبہ تھیں ۔شرمیلا‘ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی اولاد میں سے ہیں ۔ اپنی کتاب Dead Reckoningکی تشہیر اور دوسرے علمی کاموں کے لئے واشنگٹن آتی جاتی رہتی ہیں۔ وہ ہندوستانی اور پاکستانی ''آفیشل لائن‘‘ کی تردید کرتی اور ریکارڈکو درست کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اردو کے شاعر غیر جانبدار اور حقیقت شعار تھے۔ جالب نے ارباب بست و کشاد کو خبردار کیا۔ ''محبت گولیوں سے بو رہے ہو‘‘ اور فیض احمد فیض نے استفسار کیا ۔''خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟‘‘ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved