تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     20-12-2013

خوش اُمیدی کی دُھند

موسم نے اپنا روپ بدل لیا ہے‘ ہماری صبحوںاورشاموں نے دُھند کی دبیزچادراوڑھ لی ہے اوراس میں سارے منظرگم ہوکر رہ گئے ہیں۔ لاہورکی دُھند آلود صبحیں اور شامیں اپنی جگہ خوبصورت ہیں مگر چولستان کے صحرا میں جب دُھند اترتی ہے تو اُس کی دلکشی اور جاذبیت لفظوں میں بیان کریں تو نظم رقم ہو جاتی ہے۔ دھند آلود موسم میں اپنا آپ گم کرنا اور پھرتلاشنا! بہاولپور یونیورسٹی میں گزرے خوب صورت دِنوں کی کبھی نہ بھولنے والی یادیں ہیں،ایسا لگتا جیسے بادل ہی زمین پر اتر آئے ہوںاورہم دُھند کے کسی خواب نگر کے باسی ہوں۔
ہمارے میدانی علاقوں میں سرد موسم کی صبحیں اورشامیں دُھندآلود ہوتی ہیں۔آپ بھی کسی روز صبح سویرے یا شام کے وقت‘باہر سڑک پرآ کر دیکھیں تودُھند میں آپ کو روزانہ نظر آنے والے کوڑے کے ڈھیر‘گڑھے اور سپیڈ بریکردکھائی نہیں دیں گے،اردگرد کا سارا بدنما منظر،دُھندکا جادوغائب کر دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح، خوش اُمیدی کی دُھندچاروں طرف خوب صورتی اورخوشنمائی اتارتی ہے۔حقیقتوںکے سپیڈبریکروہاں موجودہوتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دیتے۔زندگی کی لمبی سڑک پربکھرے مسائل کے ڈھیر بھی اسی خوش اُمیدی کی دُھند میں غائب ہو جاتے ہیں۔ایسے میں خوش اُمید مسافرکوزندگی کے سفرکاصحیح ادراک نہیں ہوتا، تاآنکہ اُس کے پائوں کسی تلخ حقیقت کے سپیڈ بریکر سے ٹکراجائیںاوراُسے احساس ہوکہ سفراتنا آسان اور سیدھا نہیں ہے۔
جب حقیقتوں کی دھوپ نکلے تودُھند چھٹنے لگتی ہے، پھرجو منظر سامنے دکھائی دیتا ہے اسے قبول کرنا مشکل اورکٹھن مرحلہ ہوتا ہے ۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ زندگی میں پُراُمید رہ کرحقیقی مسائل کا سامناکرو۔خوش اُمیدی میں حقیقتوں کا ادراک نہ کرنا بھی زندگی کا اصل مسئلہ ہے اور شاید بحیثیت قوم ہمارا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہم اپنے مسائل‘اپنی خامیوں اورکمیوں کونگاہ میں نہیں رکھتے، انہیں درست کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے،لہٰذاہماراسفردائروں میں رہتا ہے۔فاصلے طے کرنے کا احساس بھی ہوتا ہے‘ سفر کی تھکن بھی ہوتی ہے مگر منزلِ مراد ہاتھ نہیں آتی۔ہم بنیادی طور پراللہ پرتوکل کرنے والے خوش اُمید لوگ ہیں لیکن توکل علی اللہ کا صحیح مفہوم نہیں جانتے، اپنی زندگی بدلنے کی کوشش کیے بغیردُعا کرتے رہنا توکل نہیںبلکہ رب العزت نے بہت واضح کہہ دیا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
خوش اُمیدی نے کیسے کیسے خواب ہمارے آنکھوں میں اتارے اور پھر تلخ حقیقتوں کی دھوپ میں جب دُھند اڑی تو پتا چلا کہ گلاب ‘خاک ہو گئے اور خواب عذاب!ایک خواب چند ماہ پیشتر ہمارے رہنمائوں نے ہمیں دکھایا کہ ہم کشکول توڑکرخودانحصاری کی طرف سفرکریں گے اوراپنے وسائل سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ایک نعرہ بھی تھا اور ایک خواب بھی۔اس انقلابی نعرے نے انتخابی جلسوں میں خوب رنگ جمایا،یہ خوش اُمیدی کی دُھندتھی۔ آنے والے تمام دن بہت آسودہ اور خوشحال دکھائی دینے لگے کہ اب لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا‘مہنگائی
کے جن کو بوتل میں بند کر دیا جائے گا، عوام کا احساس کرنے والی حکومت کے دور میں غریب کے گھر میںاتنی روٹی پکے گی کہ سب پیٹ بھرکرکھا سکیں، روپیہ مستحکم ہوگا،بچہ بچہ سکول جائے گا، سرکاری اسپتالوں میں جعلی نہیں اصلی دوائیں مفت ملیں گی،دفتروں میں رشوت دیے بغیرکام ہونے لگیں گے، کرپشن ماضی کا حصہ بن جائے گی، ہرکام میرٹ کے اصولوں کے مطابق ہو گا، غیر ہنر مند مزدور کی کم از کم تنخواہ دس ہزارہو جائے گی، صنعتیں ترقی کریں گی، بجلی اورگیس سال کے بارہ مہینے تواتر سے ملتی رہے گی اور پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بن کر ابھرے گا اور۔۔۔ اور۔۔۔اور۔۔۔! اب جب حکومتیں بنیں، خوش اُمیدی کے ہنی مون دورانیے اپنے اختتام کو پہنچے تو پتا چلا کہ تلخ حقیقتوں کی کڑی دھوپ میںدھند چھٹ چکی ہے اورکشکول توڑنے کا انقلابی نعرہ لگانے والوں نے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کے لیے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔عالمی اداروں کی عوام دشمن شرائط بھی مان کر جی ایس ٹی بڑھا دیا گیا ہے، مہنگائی کے جن کو جس بوتل میں بند کرنا تھا وہ بوتل چکنا چور ہو چکی ہے، خود 
انحصاری کا خواب بس خواب ہی رہ گیا ہے، غریب کے دُکھ میں گھلنے والی حکومت نے مہنگائی کو وہ کھلی چھٹی دی کہ آلو،ٹماٹر،اور پیاز بھی سو روپے کلو سے اوپر فروخت ہونے لگے۔ادھر روپیہ اپنی بے قدری پہ شرمندہ ہے،اُدھر عوام خوش اُمیدی کی دُھند چھٹنے کے بعد پہلے سے موجود حقیقتوں کے بدنما منظر دیکھ کر سخت رنجیدۂ خاطر ہیں۔ یہ تو قومی منظر نامے کی بات ہوئی، ایسی ہی صورت حال ہمیں ذاتی زندگیوں میں اس وقت نظر آتی ہے جب ہم ضرورت سے زیادہ خوش اُمیدی کے شکارہوکراپنے مقاصدکوحاصل کرنے کی حقیقت پسندانہ کوشش کرنے کی بجائے بس خواب دیکھنے لگتے ہیں اوراِن خوابوں میںگھربناکر رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے خواب گھروں کی برف سے بنی دیواریں،حقیقتوں کی دھوپ سے جلد پگھل جاتی ہیں۔ خوش اُمیدی کی دُھند چھٹتی ہے تومنظر مختلف ہوجاتا ہے۔ شاعرکی زبان میں کچھ اس طرح سے ؎
''وہ جو ایک دنیا بسائی تھی تیرے نام پرکوئی اور تھی 
یہ جو حسرتِ دروبام ہے
یہ جو زرد رُو مِری شام ہے
کوئی اور ہے
کوئی اور ہے!‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved