بنگلہ دیش میں خاک و خون کی بارش تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے ۔بھارت میں بھی نفرت کا کاروبار جاری ہے ۔ دوسروں کی طرح ، اس معاملے میں میرابھی اپنا سچ ہے اور اس کے اظہار میں مجھے کوئی عار نہیں ۔
2008ء کے عام انتخابات سے کہانی کا آغاز ہوتاہے ، جب برّصغیر کے رواج کے مطابق ،شیخ حسینہ واجد عوام سے اقتدار کی بھیک مانگتے ہوئے سنہری وعدے کرنے لگی ۔ 71ء میں جنگی جرائم کرنے والوں کا محاسبہ بھی ان میں شامل تھا۔ ظاہر ہے کہ بنگالی عوام کی ایک بڑی تعداد کا لاشعور وہ فوجی آپریشن یاد آتے ہی کراہ اٹھتا ہے ۔ خاص طور پر وہ، جن کے اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب اس دوران قتل ہوئے ۔ 2009ء میں حکومت نے وہ خصوصی عدالت تشکیل دی ، جس نے فروری 2013ء میں عبد القادر ملّا کو عمر قید کی سزا سنائی ۔ حسینہ واجد ،نفرت کی آگ بھڑکانے میں کامیاب رہی تھی۔زخم ہرے ہو چکے تھے ؛چنانچہ شاہ باغ میں احتجاج اور سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا۔ سپریم کورٹ سے پھانسی کا پروانہ حاصل کیاگیا اور ایک نئے فساد کی بنیاد ڈالی گئی ۔ پچھلے چار انتخابات سے صورتِ حال یہ تھی کہ ایک بار شیخ حسینہ واجد اور ایک بار خالدہ ضیا کو اقتدار سونپا جاتاتھا۔مجیب الرحمن کی بیٹی نے اس بار یہ انتظام کیا کہ علیحدگی کی فلم بار بار چلتی رہے اور جذبات عقل کو ڈھانپ لیں ۔ بظاہر وہ کامیاب رہی لیکن الیکشن ہی سے اصل صورتِ حال واضح ہوگی۔
جماعتِ اسلامی 71ء میں فوج کے ساتھ تھی ۔ یہ کوئی شرم کی بات نہیں کہ دوسری طرف شیخ مجیب الرحمن بھارت کی ڈگڈگی پر ناچ رہا تھا۔پاکستان کے خلاف نفرت کے الائو بھڑکائے جا رہے تھے ۔ مرکز دشمن کارروائیاں عروج پر تھیں ؛چنانچہ جماعتِ اسلامی نے ریاست کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے ، بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی کا حال پاکستان جیسا ہی ہے۔عام طور پر دو چار نشستیں ۔ سب سے بڑی کامیابی 2001ء میں 300کے ایوان میں 17سیٹیں اور نیشنلسٹ پارٹی کے اقتدار میں شرکت ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذکر ہو تو زیادہ تر پاکستانی چپ سادھ لیتے ہیں ۔ ذمہ دار کون تھا؟ ظاہر ہے کہ سب سے بڑھ کر دو دہائیوں پہ پھیلی وہ نا انصافی ، جس نے ایک عام آدمی کے دل میں نفرت پیدا کی ۔ یحییٰ خاں برسرِ اقتدار تھا۔ اسی نے کئی ماہ پر پھیلی اس فوجی کارروائی کا حکم دیا تھا اور اسے بری الذمّہ قرار دیا جا ہی نہیں سکتا۔ ظاہر ہے کہ یحییٰ خان کو تحفے میں حکومت پیش کرنے والے کا نام ایوب خاں تھا ۔ جناب 11سال حکومت فرما کے ،ذلیل و رسوا ہوکر تشریف لے گئے تھے ؛لہٰذا وہ بھی قصوروار ہیں ۔ افسوس تب ہوتاہے ، جب تقسیم سے قبل ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین فطین لیڈر کا طرزِ عمل دیکھا جاتاہے ۔ بھٹو کی 88نشستوں کے مقابلے میں شیخ مجیب الرحمن نے 162سیٹیں حاصل کی تھیں ۔ اس کے باوجود بھٹو حکومت بنانے کے لیے سر پٹختے رہے اور بنگال میں پلتی نفرت پہ ایک نظر ڈالنا گوارا نہ کیا۔ اس سے بڑھ کر جناب نے قومی اسمبلی کے پہلے
اجلاس میں شریک ہونے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کیا۔ بعد میں انہوںنے میدانِ سیاست میں ٹانگیں توڑ دینے کی وضاحت پیش کی لیکن ان کا دورِ اقتدار دیکھا جائے تو سمجھ آجاتی ہے کہ ان کی مراد کیا تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو اگر اپنی محدود نشستیں دیکھتے ہوئے اپوزیشن لیڈر بننے کا اعلان کرتے تو کبھی وہ سب نہ ہوتا۔ بھٹو خود کو ناگزیر سمجھتے تھے ، شیخ مجیب الرحمن اور یحییٰ خان اپنے آپ کو ۔ ایک نیام میں تین تلواریں ۔
بتایا جاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن انڈین رسوخ میں ہونے کی وجہ سے ایک سکیورٹی رسک تھا۔ شیخ صاحب کی بھارت نوازی میں کوئی شبہ نہیں لیکن اقتدار اپنے ساتھ مجبوریوں کی بیڑیاں لاتاہے ۔ وہ متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بنتے تو اپنے لچھن ٹھیک کرتے یا نامقبولیت کا شکار ہو کر تشریف لے جاتے ۔کسی بھی لیڈر اور سیاسی جماعت کو نامقبول کرنے والے عوامل میں اقتدار شاید سب سے بڑا عنصر ہے ۔ قاف لیگ تو خیر کبھی مقبول تھی ہی نہیں ، پیپلز پارٹی کی مظلومیت کا خاتمہ بھی اس کے پانچ سالہ دورِ حکومت نے کیا۔صرف چھ ماہ قبل نون لیگ کو ووٹ دینے والے اب کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں ۔ خدا کرے کہ یہ غلط ہو لیکن ایسا لگتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی مقبولیت میں بھی کمی آرہی ہے ۔
بی جے پی کی طرف سے نریندرا مودی کو سامنے لائے جانے کے بعد بھارت میں بھی نفرت کا کاروبار ہو رہا ہے ۔ مخالف امیدوار کانگریس کے راہول گاندھی ہیں ، جن کا ماں کی طرف سے شجرۂ نسب جواہر لعل نہرو سے جاملتاہے ۔ شیخ حسینہ واجد ،شیخ مجیب الرحمن کی وارث اور خالدہ ضیا جنرل ضیاء الرحمن کی بیوہ ہیں ۔ پاکستان سے علیحدگی کی جنگ میں ضیاء الرحمن شیخ مجیب الرحمن کو اپنا سپریم لیڈر قرار دیتے تھے لیکن پھر شیخ صاحب کے جوہر کھلے اور وہ قتل کر دیے گئے ۔تب جنرل صاحب ہی نے شیخ کے قاتلوں کو معافی عطا کی۔ برصغیر کی سیاست نفرت اور وراثت کی سیاست ہے ۔ پاکستان میں اگرچہ کسی ملک سے نفرت کا سودا بکنا بند ہو چکا لیکن یہ خوش آئند ہے کہ بھٹو خاندان کی تیسری نسل پارٹی کی سربراہ ہے ۔ مخالف لیڈروں کی پرانی نسل بھی اپنے ننھے سپوت میدان میں چھوڑ چکی ہے۔ یوں یہ مشن جاری رہے گا ؛ البتہ پختون خوا میں تحریکِ انصاف قابلِ ذکر کا م کر سکی تو نئی نسل کا صفایا ہو سکتاہے ۔ بھارت کی ''عام آدمی پارٹی ‘‘جیسی کوئی نئی قوت بھی سیاست کا نقشہ بدل سکتی ہے ۔
نفرت کی آگ بہت کچھ بھسم کر ڈالتی ہے ۔پھر اقتدار کی کشمکش میں موت سے بڑی حقیقت کوئی نہیں ۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر کی مثالیں موجود ہیں لیکن بنگلہ دیش میں دونوں بڑی پارٹیوں کے پاس شیخ مجیب الرحمن اور جنرل ضیاء الرحمن کی صورت میں ذاتی شہید موجود ہیں ۔ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش کی صورتِ حال اور زیادہ گمبھیرہوتی چلی جائے گی ۔جنوری 2014ء میں عام انتخابات ہونا ہیں ۔ خالدہ ضیاء کی نیشنلسٹ پارٹی کی زیرِ قیادت اپوزیشن کی اٹھارہ جماعتیں اس بنا پر بائیکاٹ کا اعلان کر چکی ہیں کہ حسینہ واجد کے زیرِ اہتمام آزاد الیکشن ممکن نہیں۔ سابق آرمی چیف اور صدر حسین محمد ارشاد کی جاتیہ پارٹی بھی ان سے آملی ہے ، جو کبھی حسینہ واجد کی اتحادی تھی ۔ اسے ایک بڑا دھچکا قرار دیاجا تاہے ۔ روشن امکانات ہیں کہ 5جنوری کا الیکشن عوامی لیگ جیت بھی جائے تو حکومت زیادہ عرصہ چل نہ پائے گی ۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ ایک اور مارشل لا ؟ فوجی حکومتوں سے متنفر ہو کر بنگالی عوام نے سیاسی قوتوں کا انتخاب کیا تھا۔ 2006ء سے 2008ء کے درمیان وہ کچھ نئے تجربات بھی کر چکے ہیں ۔ اب جب کہ سیاسی حکومتوںکو اپنی مدّت پوری کرنے کا موقع ملنے لگا تو انہوںنے نفرت کا کاروبار شروع کر دیا۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ نفرت کی یہ آگ کس کس شہسوار کو لپیٹ میں لے گی ؟ بہرحال طے ہے کہ کچھ تازہ کھدی ہوئی قبریں اپنے مکینوں کا انتظار کر رہی ہیں ۔ ؎
کل پائوں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ، بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُرغرور تھا