سبھی مشکل میں ہیں کہ خود کردہ را علاجے نیست۔ بہتر ہے کہ ایک دوسرے کے گریباں پکڑنے اور کردار کشی کی دھمکیاں دینے کی بجائے باہم وہ بات کریں۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
خواجہ سعد رفیق بہت دن کے بعد ڈھنگ کے کسی کام میں لگے تھے۔ وہ کام جو غیرمعمولی توانائی کے اس جواں سال لیڈر کے شایانِ شان ہے۔ ریل کے اُجڑے ہوئے محکمے کو وہ پٹڑی پر چڑھانے میں لگے تھے۔ وہ خود پٹڑی سے اتر گئے۔ چہ چہ چہ، عمران خان کو انہوں نے بدنام کرنے کی دھمکی دی۔
تحریکِ انصاف نے اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا ارادہ کیا؟ اگر ان کے اور نون لیگ کے دوسرے لیڈروں کے کارنامے بیان کرنے کا فیصلہ کر لیا؟ اسد عمر نے کہا: لگتا ہے کہ خواجہ صاحب بھارتی فلمیں بہت دیکھتے ہیں۔ ہندی ان کی اچھی ہو گئی۔ تین اصطلاحات انہوں نے استعمال کیں۔ دو بازاری اور ایک بے محل۔ ''ستی ساوتری‘‘ خواتین کے باب میں برتی جاتی ہے۔ کیا یہ لب و لہجہ خواجہ محمد رفیق کے فرزند کو زیبا ہے؟
اقبالؔ کی منفرد نظموں میں سے ایک کا عنوان ہے ''مسولینی، اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے‘‘
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم
بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار، تو چھلنی، میں چھاج
آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے
اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج
پردۂ تہذیب میں غارت گری‘ آدم کشی
کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج
مسولینی سے اقبال ؔ کی ملاقات ہوئی تو اس نے نصیحت کی درخواست کی۔ کہا: اپنے شہروں کو ایک حد سے زیادہ فروغ نہ دینا۔ حرفِ تحسین بے اختیار اس کی زبان سے نکلا۔ فرمایا: یہ بات پیغمبر آخرالزماں ؐ نے ارشاد کی تھی۔
پتھر پہ پانی۔ رنج اور حیرت کے ساتھ آدمی یہ سوچتا ہے، حکمرانوں اور لیڈروں کو مشورہ دینے کا فائدہ کیا۔ پھر یہ کہ ہٹلر اور مسولینی تو ان میں سے بدترین تھے۔ ان میں اوّل الذکر سے ہمارے علامہ مشرقی کو واسطہ پڑا اور دوسرے سے اقبالؔ کو۔ معلوم نہیں، علامہ نے جرمنی کے آتش مزاج حاکم سے کیا کہا کہ ایک جیپ اس نے ان کی نذر کی۔ اچھرہ لاہور میں مرحوم کے گھر سے متصل، کرائے کے ایک مکان میں یہ اخبار نویس برسوں مقیم رہا۔ ہر صبح آسمانی رنگ کی اس گاڑی کو وہ دیکھتا اور حیران ہوتا۔ خال ہی علامہ نے اسے استعمال کیا۔ جزرس بہت تھے۔ ذہین ایسے کہ طالب علم تھے تو پیش گوئی یہ تھی کہ آئن سٹائن کا مرتبہ پا لیں گے۔ ریاضی میں طبع خداداد پائی تھی مگر قیادت کا ولولہ اور خود فریب۔
مسلمانوں کا المیہ یہی ہے۔ اپنے لیڈروں کو وہ پہچانتے نہیں۔ ایسے لوگ مسلّط ہو جاتے ہیں جو سیاست کے اہل نہیں ہوتے۔ ہر کام کے لیے ایک آدمی ہوتا ہے اور اسی کو مامور ہونا چاہیے وگرنہ معاشرہ فساد سے بھر جاتا ہے۔ دو لشکر ایک ہی وقت میں روانہ ہونے کو تیار تھے۔ ایک مردِ مجاہد امام مالک بن دینار ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امامؒ وہ تھے، کہ جن کے دستِ سخا کی حکایات خیرہ کن ہیں اور جو مدینہ کی گلیوں میں ننگے پائوں چلا کرتے۔ معلوم نہیں، خاک کے کس ٹکڑے کو رحمتہ اللعالمینؐ کے مبارک قدموں نے چھوا ہو ۔ سائل نے پوچھا : ایک لشکر کا لیڈر متقی بہت ہے مگر فنونِ جنگ میں کمزور ۔ دوسرا نماز روزے میں قدرے کاہل مگر ہزار آدمیوں کے برابر ہے ۔ فرمایا: جس کام پر جاتے ہو ، وہی ترجیح ہونی چاہیے، اسی کو نگاہ میں رکھو ۔
مدینہ کے اہلِ علم اور تھے ، عبد اللہ بن مسعودؓ ، جناب عبد اللہ بن عمرؓ ، افواج کی قیادت مگر خالد بن ولیدؓ کو سونپی جاتی ۔ اللہ کے آخری رسول ؐ نے انہیں سیف اللہ کہا تھا۔ امین الامت عبیدہ بن ابی جراحؓ کہ فاروقِ اعظم ؓ ان کا نام لیتے تو مؤدب ہو جاتے ۔ مصر کے رومی حکمرانوں سے کشمکش کا مرحلہ آیا تو عمر بن العاصؓ کا انتخاب ہوا ۔شہرِ نبیؐ میں ان سے بڑھ کر اہلِ تقویٰ موجود تھے مگر ایک دانا کی ضرورت تھی ، ایک شہسوار کی۔
جناب امیر معاویہ ؓ اور جناب عمر بن العاصؓ کے بعض اقدامات سے امیر المومنین عمر بن خطابؓ کو کوفت ہوتی رہی۔ معروف واقعات ہیں ۔ تنبیہہ کی اور بلا بھیجا ؛حتیٰ کہ سرزنش مگر معزول نہ کیا۔ اسی لیے یہ طالبِ علم عرض کرتاہے کہ ہر اعتبار سے عمر فاروقِ اعظمؓ جینئس ثابت ہوئے ۔ انتظامی، عسکری، علمی، سیاسی۔
زندگی کے دو پہلو سب سے زیادہ اہم ہیں ۔ دین اور سیاست۔ ان دونوں کو ہم نے ادنیٰ کے سپرد کر دیا اور امید یہ پالتے ہیں کہ غیب سے کوئی شہسوار نمودار ہوگا۔ ہماری شب کو سحر کرے گا۔ ایسا بھی ہوتاہے ۔ استثنیٰ کے طور پر ایسا بھی ۔ قائد اعظم محمد علی جناح اسی کی مثال تھے ۔ قدرت کا قانون مگر مختلف ہے ۔ کتاب میں لکھا ہے: لیس للانسان الا ما سعیٰ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی انہوںنے کوشش کی ۔
تو اپنی خودنوشت کو اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے، خامۂ حق نے تری جبیں
دوسرا اصول ہے کہ افراد کے لیے توبہ سہل ہے ۔ کسی وقت بھی ، سکرات سے پہلے کسی وقت بھی سب خطائیں معاف۔ قوم کا معاملہ قدرے مختلف ہے ۔
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
ولے کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اقوام بھی توبہ کر سکتی ہیں ، اجتماعی طور پر ۔ فرمایا: تم لوٹ جائو گے تو میں لوٹ جائوں گا۔ تم پلٹ آئو گے تو میں پلٹ آئوں گا ۔
اتنی بات اسد عمر کی سچّی ہے کہ خواجہ سعد رفیق خطابت کے کیسے ہی جوہر دکھائیں‘ عمران خان کے حریف نہیں بن سکتے ۔ عمران نے بھی مگر کیا کیا: اپنے دو کروڑ ووٹوں میں سے سوا کروڑ ضائع کر دئیے۔ ضرورت تنظیم کی ہے ، ترجیحات طے کرنے کی اور وہ حکومت اکھاڑنے کی فکر میں۔
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
تم نے تو خیر بے وفائی کی
سعد رفیق اور چوہدری نثار کا دکھ سمجھ میں آتا ہے، خواجہ آصف اور ایا ز صادق کا بھی ۔ گنتی بارِ دگر ہوئی ، ووٹ اگر جانچے گئے تو امکان ہے کہ وہ خسارے میں اور ان کی پارٹی بھی ۔ نادرا کے چیئرمین طارق ملک پہ نزلہ بے سبب نہیں گرا۔ حماقت کی حد ہے کہ رانا ثناء اللہ کو مذاکرات کے لیے بھیجا اور انہوںنے یہ فرمایا کہ بات کوٹالتے رہو ، یہی تمہاری انشورنس پالیسی ہے ۔ اقتدار ملتاہے تو خاک زادپروردگار ہو جاتے ہیں ۔
نشہ خودی کا چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ، مگر بنا نہ گیا
خدا کی پناہ ، پہلے دھاندلی ، اب مکر۔ طارق ملک اپنے فن کے شناور ہیں۔کہیں بھی کوئی نوکری ، کوئی افسری پالیں گے۔ نون لیگ ناک کے بل گری تو کیا کرے گی؟ کراچی میں ایم کیو ایم ، دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں نون لیگ ۔ سبھی مشکل میں ہیں کہ خود کردہ را علاجے نیست۔ بہتر ہے کہ ایک دوسرے کے گریباں پکڑنے اور کردار کشی کی دھمکیاں دینے کی بجائے باہم وہ بات کریں۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا