چوہدری نثار علی خان موجودہ پارلیمنٹ میں دوہری ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ایک طرف اپنے اراکین اسمبلی اور وزیروں کو قابو میں لانے کے لئے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں اور دوسری طرف اپوزیشن کو ایوان سے باہر رکھنے کے لئے کسی نہ کسی ''تماشے‘‘ کا سہارا لیتے ہیں۔ عموماً وزراء کرام کو جھوٹ بول کر حکومت کی دھاک بٹھانا ہوتی ہے۔ ایوان میں اپوزیشن موجود ہو‘ تو یہ کام اعتماد سے نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے وزراء کی تقریروں میں آٹے میں نمک کے برابر جھوٹ ہوتا تھا۔ اب نمک میں آٹے کے برابر رکھنا پڑتا ہے۔ اپوزیشن کو ایوان سے نکال باہر کیا جائے‘ تو سب کچھ چل جاتا ہے۔ لیکن اپوزیشن کی موجودگی میں اتنا زیادہ نمک باقی نہیں رہ سکتا‘ مخالفانہ تقریروں کے کف میں گھل کر بہنے لگتا ہے اور وزراء کی تقریروں میں استعمال ہونے والے لفظ کھوکھلے چنوں کی طرح ہوا میں اڑتے نظر آتے ہیں۔ آٹے اور نمک کے اس تناسب پر مبنی تقریریں کرنے کے لئے ''گلیاں سنجیاں‘‘ کرنا پڑتی ہیں اور یہ ذمہ داری چوہدری نثار نے اٹھا رکھی ہے۔ جب ضرورت پڑتی ہے‘ چوہدری صاحب‘ اپوزیشن کو مشتعل کر کے‘ واک آئوٹ پر بھیج دیتے ہیں اور اس کے بعد اپوزیشن کے ردعمل سے ڈرے سہمے وزراء کو اشارہ کرتے ہیں کہ ''موقع غنیمت ہے‘ جتنا جھوٹ بول سکتے ہو فٹافٹ بول لو۔ میدان صاف ہے۔‘‘ اور وزراء آئو دیکھتے ہیں نہ تائو‘ فٹافٹ جھوٹ کے فوارے چھوڑ کے دل‘ ذہن اور ذمہ داریوں کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں اور پارلیمانی نظام کامیابی سے مزید ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔
چوہدری صاحب کو سب سے زیادہ محنت جناب اسحٰق ڈار کے لئے کرنا پڑتی ہے۔ وہ دنیا کے واحد وزیر خزانہ ہیں‘ جنہیں قلت اور مہنگائی میں اضافے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں آتا۔ وہ عموماً ایوان کے سامنے بولنے سے کتراتے ہیں۔ جب ڈار صاحب تقریر کرنے والے ہوں‘ تو چوہدری نثار کو بہت پہلے تیاریاں کرنا پڑتی ہیں۔ شروع میں تو بڑے سخت طور طریقے اختیار کر کے اپوزیشن کو واک آئوٹ یا بائیکاٹ پر مجبور کیا کرتے تھے۔ لیکن اب اپوزیشن اور چوہدری صاحب کے مابین ایسی ٹیوننگ ہو گئی ہے کہ ادھر چوہدری صاحب نے کوئی لفظ ذرا زور دے کر بولا اور ادھر اپوزیشن پورے نظم و ضبط کے ساتھ لیفٹ رائٹ کرتی ہوئی‘ بیرونی دروازوں کا رخ کرتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ روز تو چوہدری صاحب نے حد ہی کر دی۔ نہ کوئی سخت لفظ بولا۔ نہ کسی پر الزام لگایا۔ نہ کسی کی توہین کی۔ صرف واک آئوٹ حاصل کرنے کے لئے‘ ایک لفظ قدرے زور ڈال کے ادا کر بیٹھے۔ ادھر انہوں نے ''تماشہ‘‘ کا لفظ بولا اور ادھر اپوزیشن چابی بھرے کھلونوں کی طرح‘ تراپڑ تراپڑ کرتی ایوان سے باہر کے راستے ناپتی نظر آئی۔ اس بار منزل واک آئوٹ نہیں‘ بائیکاٹ تھا۔ میں نے دوستوں کو فون کیا کہ چوہدری صاحب نے تو اتنا خوفناک لفظ استعمال نہیں کیا تھا‘ اپوزیشن کو کیا ہو گیا؟ پتہ چلا کہ چند ہفتوں کے اندر ہی چوہدری صاحب نے اپوزیشن کو اپنی تیز مزاجی کے جھٹکوں کا اتنا عادی بنا لیا ہے کہ وہ ''ہش‘‘ بھی کہہ دیں‘ تو اپوزیشن یوں حرکت میں آتی ہے‘ جیسے شدید جھٹکا لگ گیا ہو اور وہ پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر‘ دروازوں سے باہر نکل جاتی ہے۔ جس دن چوہدری صاحب نے چھوٹے سے بائیکاٹ کی خوراک دینا تھی‘ اپوزیشن بائیکاٹ پر چلی گئی۔ غیرجانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ چوہدری صاحب نے بائیکاٹ کی ڈوز نہیں دی تھی۔ انہیں اپنے وزیر خزانہ اور حکمران خاندان کے معزز بزرگ جناب اسحٰق ڈار کو تقریر کا ماحول فراہم کرنا تھا۔ صرف گھنٹے سوا گھنٹے کے لئے اپوزیشن کے بائیکاٹ کی ضرورت تھی تاکہ اس دوران ڈار صاحب جس قدر چاہیں‘ اطمینان سے اور کسی خلل اندازی کے بغیر جھوٹ بولنے کا فرض پورا کر لیں۔ سچی بات ہے‘ ڈار صاحب نے چوہدری نثار کی طرف سے فراہم کردہ دوستانہ‘ حلیفانہ بلکہ عاشقانہ ماحول کا خوب فائدہ اٹھایا۔ ایسے ایسے چھکے مارے کہ ایوان کی دیواریں اگر شیشے کی ہوتیں‘ تو ان کے ٹکڑے اڑ جاتے۔ انہوں نے فرمایا کہ ''میں نے آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہیں لی‘‘۔ گویا آئی ایم ایف خود ان سے ڈکٹیشن لیتا ہے۔ یہ آئی ایم ایف نہیں کہتا کہ ڈار صاحب! ٹیکسوں کی وصولی اور اخراجات میں بچت سے رقم بچا کر اپنا حساب متوازن کرو۔ یہ شرط ڈار صاحب آئی ایم ایف پر لگاتے ہیں کہ آپ کو ہر حالت میں خرچ متوازن کرنے کے میرے فیصلوں کی تائید کرنا ہو گی اور ڈار صاحب‘ اپنی بات منوا کے رہتے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے آئی ایم ایف کو ڈکٹیشن دی۔ کہا کہ اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس بلائو اور میں نے جمع تفریق کا کرتب دکھاتے ہوئے‘ آمدنی اور خرچ کا جو تخمینہ تیار کیا ہے‘ اسے تسلیم کر کے اگلی قسط ادا کرنے کی منظوری دو۔ ڈار صاحب کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے ڈکٹیشن لے کر قرض حاصل نہیں کیا بلکہ ڈکٹیشن دے کر آئی ایم ایف کو اتنا مجبور کیا کہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے‘ ڈار صاحب سے دست بستہ درخواست کی کہ وہ 55 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کی قسط قبول فرما لیں‘ ورنہ ہماری نوکریاں چلی جائیں گی۔ کسی بھی قرض لینے والے وزیر خزانہ کا آئی ایم ایف پر اتنا دبائو دیکھنے میں نہیں آیا‘ جتنا ڈار صاحب ڈال دیتے ہیں۔
ڈار صاحب کی اتھارٹی کا یہ عالم ہے کہ وہ ایوان کے اندر سینے پہ ہاتھ مار کے‘ گرجدار آواز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ بجلی کی قیمتیں میں نے نہیں بڑھائیں اور ایوان میں بیٹھے کسی بھی رکن کو جرات نہیں ہوتی کہ ان کے دعوے کی تردید کرے۔ اس کا بندوبست چوہدری نثار پہلے ہی کر دیتے ہیں۔ وہ حزب اختلاف کے کسی رکن کو ایوان میںرہنے ہی نہیں دیتے‘ جو اختلاف کر سکتا ہو۔ پھر دوستانہ ماحول میں
ڈار صاحب مہنگائی کا الزام نگران حکومت پر لگا کر‘ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے‘ ایوان میں بیٹھے اراکین پر فاتحانہ انداز میں ہنستے ہیں۔ بالکل اسی طرح‘ جیسے شام کے صدر بشارالاسد‘ اپنی پارلیمنٹ میں من چاہے دعوے کر کے‘ حاضرین کی بے بسی پر ہنسا کرتے تھے۔ ایک بار مخدوم جاوید ہاشمی کو شام کی پارلیمنٹ میں‘ صدر کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ ہر دوسرے جملے پر حاضرین بے تحاشا تالیاں بجاتے تھے۔ جاوید ہاشمی نے تالیوں کے پہلے سیشن میں ہاتھ نہیں اٹھائے‘ تو ان کے ساتھ بیٹھے میزبان نے کہنی مارتے ہوئے انہیں کہا: ''پاکستان واپس جانا ہے‘ تو تالیاں بجاتے رہیے۔‘‘ خدا کا شکر ہے‘ ابھی پاکستان میں ایسا موقع نہیں آیا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا۔ نواز شریف بہت طاقتور وزیر اعظم ہیں۔ اگر ڈار صاحب نے اپنی تقریر کے دوران‘ شامی صدر جیسی تالیوں کی فرمائش کر دی‘ تو کس کی مجال ہے؟ جو ڈار صاحب کی تقریر کے دوران اسی طرح تالیاں نہ بجائے‘ جیسے وسطی ایشیائی ریاستوں کے حکمرانوں کے لئے بجائی جاتی ہیں۔ ویسے ہمارے ماحول میں تو وزیر خزانہ کے ان دعوئوں کو ایوان کے اندر خاموشی سے برداشت کر لینا بھی ایسا ہی ہے‘ جیسے کسی آمر کی تقریر کے ہر جملے پر تالی بجانا۔ ورنہ تصور کر کے دیکھئے کہ اپوزیشن ایوان کے اندر بیٹھی ہو اور ڈار صاحب سینے پر ہاتھ مار کے کہتے ہوں کہ میں نے چند ہی روز کے اندر ڈالر 6 روپے سستا کر دیا ہے۔ حزب اختلاف‘ چوہدری نثار کی وجہ سے ڈار صاحب کو ہوٹ نہ کرتی‘ تو کم از کم اسے ابکائیاں ضرور آنے لگتیں۔ آج بھی اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 107 روپے 25 پیسے ہے۔ اگر ڈار صاحب کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے‘ تو اس کا مطلب ہو گا کہ پاکستان میں ڈالر کا ریٹ 113 روپے 25 پیسے تک چلا گیا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ ابھی تک ڈالر اتنا مہنگا کبھی نہیں ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ ڈار صاحب نے درحقیقت ڈالر کا انتہائی ریٹ 113 روپے تک پہنچانے کا حکم دے کر کہا ہو گا کہ اسے واپس 106 روپے تک لے آئو۔ مگر بدبخت اہلکاروں نے حکم کی تعمیل نہیں کی اور ڈالر زیادہ سے زیادہ 110 روپے تک جا سکا۔ اب وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک کے اہلکاروں کی خیر نہیں۔ اگلی بار انہیں کسر نکالنے کے لئے ڈالر کا ریٹ 120 روپے پر لے جانا پڑے گا تاکہ آئندہ جب ڈار صاحب‘ ڈالر سستا کرنے کا اعلان کریں‘ تو مارکیٹ میں وہ 120 روپے کا ہو اور ڈار صاحب دعویٰ کریں کہ میں نے ڈالر کا ریٹ 10 روپے گرا دیا ہے۔ آپ کو میری یہ بات شاید عجیب لگے‘ مگر ڈار صاحب چند ہفتے مزید وزارت خزانہ سے کھیلتے رہے‘ تو یہ بھی ممکن ہو جائے گا اور تب چوہدری نثار بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ڈار صاحب کو تقریر کے لئے خالی میدان فراہم کرنے کی خاطر انہوں نے اپوزیشن کو کتنا ہی مشتعل کر کے باہر نکالا ہو‘ وہ دروازے توڑ کے اندر آ جائے گی اور اسے دیکھ کر ڈار صاحب کے الفاظ‘ ان کے حلق میں اٹک کے ہاتھ پائوں مارتے رہ جائیں گے۔ ڈار صاحب کی شعلہ بار تقریر سننا ہو‘ تو ایوان سے اپوزیشن کا ریزہ ریزہ صاف کرنا ہو گا۔
گلیاں ہوون سنجیاں وچ ڈاہڈا ڈار پھرے