تہران کی مرکزی شاہراہ ولی عصر پر مسجد بلال کے ساتھ ایران کے مرکزی ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینل کی عمارات ہیں‘ جنہیں 'صداوسیما‘ کہا جاتا ہے۔ عیسوی سال 2007ء میں جب مَیں ای سی او (یہ دس ممالک کی علاقائی تنظیم ہے جس میں ترکی، ایران، پاکستان، افغانستان اور روس سے آزاد ہونے والی چھ مسلم ریاستیں شامل ہیں) کے کلچرل انسٹی ٹیوٹ کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھا‘ تو تہران کے اسی مرکز صداوسیما میں حالات حاضرہ کے پروگراموں میں ایک مستقل تجزیہ نگار کی حیثیت سے مدعو ہوتا رہا۔ اسی ٹیلی ویژن چینل سے میں نے علامہ اقبال کی شاعری پر ایک مستقل سیریز بھی ریکارڈ کروائی۔ یوں تو میرے پاس ایک سفارت کار کی حیثیت سے پاکستان کا سرخ پاسپورٹ تھا لیکن چونکہ میں پاکستانی سفارت خانے کے بجائے ایک علاقائی تنظیم سے منسلک تھا‘ اس لیے اس تنظیم کے سربراہ ایران کے سابق وزیر تعلیم ڈاکٹر رجبی نے مجھے ان تمام سفارتی پابندیوں سے آزاد کر کے لکھنے اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں شرکت کی مکمل آزادی دے رکھی تھی۔
یہ آزادی محض رسمی نہ تھی بلکہ جب لال مسجد اور حفصہ مدرسے کے خلاف آپریشن کے موقع پر ایران کے انگریزی چینل پریس ٹی وی پر میری گفتگو سے سیخ پا ہو کر مشرف حکومت نے فوری طور پر مجھے ایران سے واپس بلا کر عبرت کا نشان بنانے کے لیے انکوائری کا آغاز کیا تو ڈاکٹر رجبی سفارتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے دو ماہ تک میرے حق میں لڑتا رہا۔ اس دوران جب تہران میں پاکستان کا سفیر مشرف حکومت کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے میری ایران بدری پر کمربستہ تھا، مجھے ایک سرکاری دور ے پر تاجکستان جانا تھا۔ میرے اس دور ے کو ڈاکٹر رجبی نے منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔ بات بڑھ سکتی تھی، مگر میں پاکستانی تھا اور مجھے یہ جنگ پاکستان میں ہی لڑنا تھی اس لیے میں نے پاکستان واپسی اختیار کر لی۔
بعد کی کہانی طویل ہے لیکن ایران کے اس عرصہ ملازمت میں جس شخص سے میرا تعلق بہت مستحکم ہوا وہ زین علی تھا، تہران ٹی وی کی اردو نشریات کا ڈائریکٹر۔ اس کے والد ایران سے کراچی آ کر مدتوں ایک ہوٹل چلاتے رہے تھے، اس لیے اسے اردو اور فارسی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اقبال شناسی کا ماہر اور سب سے اہم بات یہ کہ مسلکی تعصب اسے چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ گزشتہ دنوں جب میں نے ایران امریکہ معاہدے سے دلبرداشتہ ہو کر اپنا کالم ''مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل اور مرگ بر ضدِّ ولایتِ فقیہ‘‘ تحریر کیا تو زین علی نے مجھے ڈھونڈنا شروع کیا۔ گزشتہ دنوں میرے کالم کے مندرجات پر اس کا طویل فون آیا اور ایک محب وطن ایرانی کی طرح اس نے لمبی دفاعی گفتگو کی۔ اس کی گفتگو اگر لوگوں تک نہ پہنچے تو یہ میری طرف سے بہت بڑی خیانت ہو گی، اس لیے بھی کہ اس میں زین علی کا امت مسلمہ کے لیے درد بھی شامل ہے اور ایران سے محبت بھی۔ وہ میرے ملک کے لوگوں سے مختلف ہے۔ میرے ملک میں اگر کوئی کسی مسلک کے ماننے والوں کے کسی رویے کے بارے میں کچھ تحریر کر دے تو فوراً اسے یزید پکارنا شروع ہو جاتے ہیں۔ باقی مغلظات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ رویہ کسی ایک مسلک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
اس کالم کے جس حصے پر زین علی کو سب سے زیادہ اعتراض تھا‘ وہ تھا جس میں‘ میں نے لکھا تھا کہ ایران کا انقلاب جو آیت اللہ خمینی کی قیادت میں آیا وہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک امید کی کرن تھا لیکن اس میں آہستہ آہستہ مسلکی رنگ جھلکنے لگا۔ زین علی نے کہا کہ ایران آج بھی ایسے ممالک میں جارحیت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے جہاں سنی اکثریت ہے، مثلاً فلسطین اور مصرکے بارے میں ایران کی پالیسیا ں واضح ہیں۔ حسنی مبارک کے خلاف اور اسرائیل کی مخالفت میں ایران کا کردار پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے؛ حالانکہ دونوں سنی اکثریت والے علاقے ہیں۔ زین علی نے کہا کہ ایرانی معاشرے میں دوسرے معاشروں کی طرح خرابیاں بھی ہوں گی لیکن یہاں ممکنہ حد تک شرعی قوانین کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ میں ان دونوں معاملات میں زین علی سے مکمل اتفاق کرتا ہوں اور میں نے اس موضوع پر بار بار لکھا بھی ہے۔ لیکن جب میں نے افغانستان اور شام کے حوالے سے بات شروع کی تو زین علی اس کی پشت پر امریکہ اور سعودی عرب کے اثرات کے بارے میں گفتگو کرنے لگا۔ اس کی یہ دلیل بھی مضبوط ہے کہ ایران نے افغانستان میں شمالی اتحاد کا ساتھ دیا اور اس میں تو ازبک اور تاجک بھی شامل تھے جو سنی ہیں اور اس کے نزدیک ایران نے طالبان کی اس لیے مخالفت کی تھی کہ وہ اپنے سوا باقی تمام مسالک کے لوگوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ یہ وہ تاثر ہے جو میں نے بھی پورے ایران میں دیکھا ہے؛ حالانکہ افغانستان میں طالبان حکومت کے زمانے میں کسی قسم کا ایسا بیان یا فتویٰ جاری نہیں ہوا تھا۔ زین علی کی دوسری دلیل یہ تھی کہ امریکہ طالبان کی پشت پر تھا اس لیے ہم اس کے مخالف تھے۔ یہ دلیل بھی عالمی سیاست کے حساب سے وزن رکھتی ہے لیکن جب امریکہ شمالی اتحاد کے ساتھ تھا تو ایران کو طالبان کا ساتھ دینا چاہیے تھا جبکہ ایران شمالی اتحاد کے ساتھ ہی رہا، اس شمالی اتحاد کے ساتھ جس کی پشت پر امریکہ آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ گفتگو کے دوران ایران عراق جنگ کا تذکرہ چل نکلا اور اس کا موقف تھا کہ یہ جنگ مختلف عرب ریاستوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات کو خراب کرنے کے لیے شروع کروائی تھی اور امریکی اس کی پوری نگرانی کے ساتھ مدد بھی کر رہے تھے۔ یہ بات ایک تاریخی حقیقت ہے اور اس میں جن دس لاکھ مسلمانوں کا ناحق خون بہا وہ یقیناً ان حکمرانوں کی گردن پر ہے جنہوں نے اپنی بادشاہتیں بچانے کے لیے عرب و عجم اور پھر شیعہ سنی تنازعے کو ہوا دی۔ ایران امریکہ معاہدے کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ دراصل ایران کی فتح ہے کہ اس نے مغرب سے اپنے پُرامن ایٹمی پروگرام کا حق منوا لیا ہے۔ یقیناً یہ ایک سفارتی فتح ہے، لیکن ایران میں مجھ جیسے لاکھوں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو آیت اللہ خمینی کے شیطانِ بزرگ کے تصور کو حقیقت جانتے ہیں اور وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس دنیا میں فسادات کی جڑ امریکہ اور اس کی پالیساں ہیں۔ اس پر زین علی کا جواب یقیناً ایک خوش فہم اور رجائیت پسند ایرانی کا تھا کہ ایران آج بھی امریکہ کے نزدیک برائی ہی کا مرکز ہے۔ ایران کی اسرائیل مخالف پالیسی نہیں بدلی، ایران کو ابھی محبت کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا۔ میں بھی ایک رجائی شخص ہوں اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ میری دعا ہے کہ ایرانی اپنے تینوں نعروں۔۔۔ مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل اور مرگ بر ضدِولایت فقیہ پر قائم رہیں اور جو خواب انہوں نے چونتیس سال قبل دیکھے تھے وہ نہ ٹوٹیں۔
ایران امریکہ معاہدے اور پابندیاں نرم ہونے کے بعد میرا خوف اور میرے ذہن کا خطرہ زین علی سے مختلف ہے۔ وہ ایک ایرانی ہے اور وہ فردوسی کے اس قول کے مصداق کہ ''اگر ایران نہیں تو پھر کچھ نہیں‘‘ ایک محب وطن ایرانی ہے اور میں جس مملکت خداداد پاکستان میں رہتا اور اس سے محبت کرتا ہوں اس کا خدشہ کسی اور طرف سے ہے۔ اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہو گا جو ایران سے تیل خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور 2007ء سے اب تک بھارت اور ایران کی تجارت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ 2012ء میں ایران نے بھارت سے 15,968 ملین ڈالر کی تجارت کی اور اس میں ایران کی برآمدات 13556 ملین ڈالر تھیں جن میں بڑا حصہ تیل کا تھا، اس مقصد کے لیے بھارت اور ایران کی ایک مشترکہ جہازراں کمپنی ہے جس کی مالیت 250 ملین ڈالر ہے۔ اسی طرح چنائی پٹرولیم کارپوریشن اور مدراس فرٹیلائزر دونوں ملکوں کی مشترکہ کمپنیاں ہیں۔ بھارت کا ایران میں پندرہ ارب ڈالر سے ایک بزنس گروپ کا م کر رہا ہے جس کا نام ایثارگروپ ہے، اسی گروپ نے تہران میں ایثار پارس سٹیل مل قائم کی ہے جبکہ 2002ء میں بھارت اور ایران کے درمیان تیل اور گیس کی تلاش کے لیے OVL نامی کمپنی کام کر رہی ہے جس میں بھارت کا حصہ 36 ملین ڈالر ہے۔ یہاں میں ان موجودہ سیاسی نوعیت کی ترقیاتی سرگرمیوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جن میں چاہ بہار سے افغانستان تک سڑک اور چاہ بہار کی بندرگاہوں میں سرمایہ کاری شامل ہے۔ ایرانی معاشرے میں بھارتی فلموں کے اثر کا یہ عالم ہے کہ ہر فلم فارسی میں ڈب ہو کر سینمائوں میں لگتی ہے؛ چنانچہ بھارت کی اداکارائیں اور اداکار وہاں اجنبی نہیں۔ مجھے ایران سے خوش فہم اور پُرامید ہونا چاہیے کہ وہ ایک مسلمان ملک ہے لیکن میں، میرا ملک اور میرے ملک کے عوام بھارت کو جانتے ہیں اور ہم آئے روز اس سے نئے زخم کھاتے آ رہے ہیں۔ عالمی سیاست اور علاقائی بالادستی وہ ایسی بلا ہے جس نے اس دنیا میں صرف خون کی ہولی کھیلی ہے، قومی ریاستیں اس کھیل کے چہرے ہیں۔ اقبال ہمارا اور ایران کا مشترکہ ہیرو ہے جو بتانِ رنگ و بو کو توڑنے اور نیل کے ساحل سے کاشغر تک امتِ مسلمہ کی یکجائی کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ کاش اس نعرے کی گونج ایران کے تہران اور سعودی عرب کے مکہ و مدینہ سے ایک ساتھ بلند ہو۔