تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     21-12-2013

میری سرمایہ کاری اور مگر مچھ

چند منٹ پہلے میں نے آن لائن بِٹ کوآئنز (Bitcoins)کا ریٹ چیک کیا تو یہ 569 ڈالر تھا۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ بِٹ کوآئنز کیا ہوتے ہیں تو پھر ٹھہریں، آپ کو سمجھانے میں کچھ وقت لگے گا، لیکن پھر بھی ضروری نہیں کہ میں آپ کو سمجھا پائوں، اس میں میری اپنی خامی بھی آڑے آسکتی ہے۔ بِٹ کوآئنز وہ کرنسی ہے جو صرف آن لائن اپنا وجود رکھتی ہے۔ اس کا موجد کوئی ذہین انسان یا عام انسانوں کا کوئی گروپ تھا۔ اگر آپ کافی دور اندیش ہوتے اور آپ کو ان کاعلم ہوتا تو آپ گزشتہ جنوری میں یہ انیس ڈالر میں خرید سکتے تھے۔ بعد میں یہ بارہ سو ڈالر کے ہو گئے، یہاں تک کہ چینی حکومت نے بنکوں پر بٹ کوائینز کی خریدوفروخت پر پابندی لگا دی؛ تاہم آن لائن فروخت کنندگان انہیںقبول کرتے رہے۔ 
میں ان کی قیمت پرکڑی نظر رکھے ہوئے ہوں کیونکہ میں نے بھی یہ آٹھ سو ڈالر میں خرید کر نو سو ڈالر میں فروخت کر دیے تھے۔ اب میں انتظار کر رہا ہوں کہ ان کی قیمت میں کمی واقع ہو تا کہ میں دوبارہ خرید سکوں۔ اس بیان سے قارئین کہیں یہ تاثر نہ لے لیں کہ میں کوئی انتہائی موقع شناس سرمایہ کار ہوں۔ دراصل میں بھی ہر انسان کی طرح موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں اور اس مقصد کے لیے مارکیٹ پر نگاہ رکھتا ہوں کہ کہاں سے فی الفور منافع کمایا جا سکتا ہے‘ لیکن افسوس، میں سوچنے میں زیادہ تر مواقع گنوا دیتا ہوں۔ اس کالم کے اختتام پر آپ کو علم ہو جائے گا کہ نقصان کیسے ہو جاتا ہے۔ 
سرمایہ کاری کی مارکیٹ کا اصول یہ ہے کہ بھاری منافع وہاں سے کمایا جا سکتا ہے جہاں رسک ہو۔ پُرسکون پانیوں سے بڑی مچھلی نہیں پکڑی جا سکتی۔ جب میں نے ایک سال پہلے بٹ کوآئنز کے بارے میں پڑھا تو میں نے اپنے بیٹے شاکر سے کہا کہ وہ بھی میرے ساتھ خرید لے۔ اس پر اُس نے قہقہہ لگاتے ہوئے مجھے یاد دلایا کہ کچھ عرصہ پہلے میں افغانی (افغانستان کی کرنسی) خرید کر بھاری نقصان اٹھا چکا ہوں۔ دراصل جب میں نے افغانی کرنسی خریدی تھی تو میں نے کچھ حساب کتاب لگایا تھا کہ اس وقت جنگ کی وجہ سے افغانی کی قدر بہت گر چکی ہے لیکن جنگ کے خاتمے پر امریکہ بھاری مالی امداد دے گا اور افغانستان کو ملنے والے ڈالر افغانی کی قدر بڑھا دیںگے۔ مجھے یقین تھا کہ میں اچھا منافع کما لوںگا۔ کرزئی حکومت کو ڈالر ملنا شروع ہو گئے اور افغانی کا ریٹ بڑھتا گیا۔ میں خوش ہوا کہ عمدہ حساب کتاب کے ذریعے دولت کما رہا ہوں، لیکن جب اپنے پاس موجود افغان کرنسی کو کیش کرانے گیا تو پتا چلا کہ افغانستان میں تین قسم کی افغانی کرنسی ہے اور جو میرے پاس تھی، اس کی قدر مرزا غالب کے زمانے کی وفا کی طرح ہو چکی تھی (گویا کسی میں تھی ہی نہیں) 
کئی ماہ کی کنفیوژن کے بعد میں نے آخرکار بِٹ کوآئنز خریدے اور ان کے نرخوں پر نظر رکھنے لگا۔ ان کے حوالے سے سب سے پرکشش چیز یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر گمنام رہتے ہیں اور بنک بھی ان پرکوئی چارجز نہیں لیتے، ان کی زیرِ گردش مقدارکا محدود رہنا ان کی قدر بڑھا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ جیسے قسمت آزما افراد ان کو خرید نے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ دراصل اکیس ملین سے زیادہ بِٹ کوآئنز نہیں بنائے جاتے، اس لیے اگر ان کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے تو ان کی قدر میں اضافہ ہو جاتا ہے؛ چنانچہ رجائیت پسند لوگ ان پر قسمت آزمائی کر لیتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں لیکن کھیل تبدیل کرتے ہوئے منہ کا ذائقہ بدلنا اچھا لگتا ہے۔ سو، کھیل ہی کھیل میں اگر کچھ دال دلیہ کر لیتا ہوں تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ 
میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے بہت عمدہ خیالات سوجھتے رہتے ہیں لیکن میں عمل کرنے کے معاملے میں بہت سست واقع ہوا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میںکوئی منصوبہ دلجمعی سے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکا اور میرے دولت مند نہ ہونے کا ایک راز یہ بھی ہے۔ چند سال پہلے میں نے پڑھا کہ صومالیہ کے حالات بدلنے والے ہیں، میں نے شاکر سے کہا کہ وہ میرے ساتھ صومالوی شلنگ خرید لے۔ وہ ہنسا۔۔۔ اس مرتبہ زیادہ بلند آواز سے، یقین کریں اگر وہ موقع اس کے قہقہے کی نذر نہ ہوا ہوتا تو اس وقت میرے مالی حالات مختلف ہوتے۔ صومالیہ کی کرنسی میں بیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن میں اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا۔ جب ایران کے حالیہ انتخابات میں صدر روحانی نے کامیابی حاصل کی تو مجھے توقع پیدا ہوئی کہ اب ایران اور مغربی طاقتوں کے مذاکرات شروع ہو جائیں گے اور اس عمل کے نتیجے میں ایران پر لگی پابندیاں بھی ختم ہو جائیںگی اور ایرانی ریال جو کئی سال کی پابندیوں کی وجہ سے دبائو کا شکار رہا ہے کی قدر بڑھنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ جنیوا مذاکرات کی کامیابی کے بعد ایسے امکانات پیدا ہو چکے تھے؛ چنانچہ میں نے شاکر کو ای میل بھیجی کہ وہ ریال خرید لے، لیکن افسوس، اس نے دوبارہ افغانی یاد دلا دی۔ میں افغانستان کی داخلی زندگی میں دخل دینے پر خوش نہیں ہوں لیکن شاکر کی ہدایت پر اس لیے عمل کرتا آیا ہوں کہ وہ ایک کامیاب بزنس مین ہے۔ تسلیم، کہ میں اس طرح کے کاروباری تخیل سے محروم ہوں، میرا خیال ہے کہ وہ مجھے اس طرح کی حماقتوں سے بچا کر میری رقم کا تحفظ کرنا چاہتا ہے، لیکن احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے ہوئے وہ کچھ نادر مواقع گنوا بھی دیتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اُس وقت افغانی خریدنے سے پہلے مجھے اپنے ہمسایہ ملک کی کرنسی کے بارے میں کچھ تحقیق کر لینی چاہیے تھی لیکن اس ناکام تجربے کا یہ مطلب نہیںکہ آئندہ کہیں بھی سرمایہ کاری کرنے لگوں تو افغانی راستے کی دیوار بن جائے۔ 
کئی سال پہلے میں نے مگرمچھوں کا فارم بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ میں نے پڑھا تھا کہ ایک مادہ 100 کے قریب انڈے دیتی ہے اور ان میں سے بمشکل ایک یا دو مگرمچھ بچ سکتے ہیں؛ تاہم اگر اُنہیں محفوظ مقامات پر پالا جائے تو ان کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ فارم ذبح خانے کے قریب ہو تو اُن کے لیے سستا گوشت بھی حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن روایتی سستی کی وجہ سے وہ منصوبہ تکمیل کا مرحلہ طے نہ کر سکا۔ اس سے پہلے ریشمی کیڑے پالنے کا منصوبہ بھی اپنی موت مر چکا ہے۔ اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، بٹ کوائینز کا نرخ 574 ڈالر ہو چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved