عوام اپنے مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کسی کو یہ غم ستاتا رہتا ہے کہ پانی نہیں آرہا اور اس غم کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ آنکھوں سے پانی ٹپکاتا رہتا ہے۔ اگر لوگ پانی کے نام پر رونا بند کریں تو کتنا سارا پانی بچ جائے! لوگ خود ہی آنکھوں کا پانی ضائع کرتے رہتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ آنکھوں کا پانی مر گیا ہے۔
بجلی کے بحران کو روتے رہنا بھی عوام کی پرانی عادت ہے۔ بجلی نہ آئے تو مصیبت اور آئے تو مصیبت۔ آپ سوچیں گے آنے پر کیسی مصیبت! بجلی اگر آ جائے تو بل زیادہ آتا ہے۔ توانائی کے بحران میں برقی آلات نہیں چلتے تو بل بھی کم آتا ہے۔ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ حکومت بجلی کم دے کر اُن کا خرچ بچانا چاہتی ہے‘ مگر جب عوام اپنے طور پر طے کر لیں کہ حکومت کا کوئی بھی کام سیدھا نہیں ہے تو پھر اُن سے یہ بات کوئی منوا نہیں سکتا کہ حکومت کچھ اچھا بھی کرسکتی ہے۔
ایک زمانے سے لوگ روتے آئے ہیں کہ حکومت آمدورفت کی بہتر سہولتیں فراہم نہیں کرتی۔ جب حکومت اس مطالبے کو پورا کرتی ہے تو لوگ خرچے کا رونا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ ٹرینیں وقت پر آرہی ہیں اور وقت پر جارہی ہیں۔ یہ سہولت بہت خوب ہے مگر ذرا سا خرچ بڑھ گیا ہے۔ ریلوے کا خسارہ پہلے ہی اچھا خاصا تھا۔ لوگوں نے ٹرینوں کا شیڈول درست کرنے کی ذمہ داری حکومت کے ناتواں کاندھوں پر ڈالی تو خرچ تو بڑھنا ہی تھا‘ سو بڑھ گیا۔ اب اگر اِس کے بدلے حکومت عوام سے کچھ وصول کر رہی ہے تو اِس میں غلط کیا ہے؟ ٹرینیں گھاس تو کھاتی نہیں، ڈیزل پر چلتی ہیں‘ اور اگر گھاس بھی کھاتی ہوں تو کیا یہ مفت ملتی ہے۔
عوام نے کبھی جمہوری حکومتوں کی ''مجبوریوں‘‘ پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی ہے؟ بے چاری منتخب حکومتوں کے لیے ذمہ داریاں دو دھاری تلوار کی طرح ہوتی ہیں۔ ایک طرف جمہوریت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے اور دوسری طرف، اُس سے کہیں بڑھ کر، خود کو برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ حکومت برقرار رہے گی تو جمہوریت بھی برقرار رہ پائے گی۔ مُرغی ہوگی تو انڈا مل سکے گا نا! یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اِس بیلنسنگ ایکٹ کو دیکھنے اور انجوائے کرتے ہی میعاد ختم ہو جاتی ہے۔
جاتی ہوئی حکومتیں اچھا خاصا کچرا جمع کرکے آنے والی حکومت کے لیے چھوڑ جاتی ہیں۔ آنے والے بے چارے ٹھیک سے سانس بھی نہیں لے پاتے کہ مطالبات شروع ہو جاتے ہیں۔ عوام کی بے صبری کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ کِسی نے چولھے پر دیگ ابھی چڑھائی ہے۔ پانی میں صرف چاول ڈالے ہیں اور لوگ چاہتے ہیں کہ دو تین منٹ کے اندر بریانی کو دم دے دیا جائے۔ جمہوریت کے معاملے میں عوام کا رویہ عصر کے وقت روزہ توڑنے جیسا ہے۔ جس منتخب حکومت نے ابھی دم بھی نہیں لیا ہوتا اُس کا ناک میں دم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ برسوں کا کچرا محض ایک پھیرے میں صاف ہو جائے۔ اب اِتنی بڑی جھاڑو کوئی کہاں سے لائے؟ اور اگر مل بھی جائے تو اُسے استعمال کرنے کی سکت کس میں ہے؟
مرزا تنقید بیگ کو عوام کی یہ روش ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ ابھی کوئی حکومت اپنا سامان سفر کھول ہی رہی ہوتی ہے کہ اُس کا بوریا بستر گول کرنے کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔ مصر میں بھی تو یہی ہوا۔ اخوان المسلمون کی حکومت کو محض ایک سال بھی ڈھنگ سے برداشت نہ کیا گیا جبکہ حسنی مبارک کی آمریت کو تیس سال بخوشی برداشت کی جاتی رہی۔
مسلم لیگ ن کو تیسری بار اقتدار ملا ہے۔ ہیٹ ٹرک ہوئی ہے مگر لوگ اِسے ہِٹ ٹرک کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ گزشتہ حکومت نے توانائی کا بحران ترکے میں چھوڑا۔ یہ بحران موجودہ حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے کافی ہے۔ حکومت کو ریاستی اُمور کی باگ ڈور سنبھالے چھ ماہ گزر چکے ہیں مگر اب تک کسی بھی معاملے کا سِرا اُس کے ہاتھ نہیں آرہا۔ آئے بھی کیسے؟ جانے والوں نے کوئی کسر چھوڑی ہو تب نا۔ تمام معاملات کو اچھی طرح بگاڑ کر آنے والوں کو تھمایا گیا کہ لو، اب سب کچھ سیدھا کرکے دِکھاؤ!
مرزا کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی تیسری حکومت اب تک سمجھ نہیں پائی ہے کہ معاملات درست کرنے کا سلسلہ کہاں سے شروع کیا جائے۔ ریلوے کا خسارہ سپر سانک طیارے کی رفتار سے پرواز کر رہا ہے۔ ٹرین چلے نہ چلے، خسارے کا میٹر چلتا رہتا ہے۔ نل سے پانی ٹپکے نہ ٹپکے، ہر ماہ بل ضرور ٹپک پڑتا ہے۔ بجلی آنے سے انکار کرتی رہتی ہے مگر اُس کا بل آنے سے انکار کرتا ہے نہ جھٹکے دینے سے۔ بجلی کے بل میں ایسے جھٹکے پائے جارہے ہیں کہ بہتوں نے تو برقی آلات کو بجلی کے بل کی مدد سے چلانے پر غور شروع کر دیا ہے۔
امن و امان کے مسئلے نے قوم کو تو خیر بے امن کیا ہی تھا، حکومت کا بھی چین اور سکون غارت کردیا ہے۔ حد یہ ہے کہ اِس مسئلے کے ٹیڑھے پن کے باعث حکمرانوں کو زیادہ وقت ملک سے باہر گزارنا پڑ رہا ہے۔
عوام کی بے صبری ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ وہ راتوں رات تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ دوسری طرف حکمران بھی تو یہی چاہتے ہیں۔ اُن کے اپنے مسائل ہیں جن کے حل کے لیے اُنہوں نے چار پانچ سال انتظار کیا ہوتا ہے۔ یعنی سب کچھ پلک جھپکتے میں پا لینے کی خواہش کے معاملے میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان مقابلہ رہتا ہے۔ اس مقابلے میں فتح یقیناً حکمرانوں کی ہونی چاہیے‘ اور ہوتی بھی ہے۔ جو اپنے مخالفین کو ہٹانے کے لیے پانچ سال متحرک رہے ہوں وہ اقتدار پانے کے بعد کس طور متحرک رہ سکتے ہیں؟ کیا پانچ سال کی تھکن نہیں اتاریں گے؟ بس، اِتنی سی بات ہے جسے سمجھنے سے عوام قاصر رہتے ہیں۔ اقتدار کا حصول بچوں کا کھیل نہیں۔ تھکن سے چُور کر دینے والے اِس کھیل میں حصہ لینے والوں کو سُکون کا سانس لینے کا موقع ضرور دیا جانا چاہیے۔
اب ایک بار پھر یہی ہو رہا ہے۔ جو لوگ پانچ سال سے اپنی باری کے منتظر تھے اُنہیں ذرا ذرا سی بات پر پریشان اور بدنام کیا جا رہا ہے۔ کبھی ڈرون حملوں کا معاملہ اُٹھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کبھی نیٹو سپلائی روک کر واحد سُپر پاور سے ایک کمزور ملک کی قابلِ رحم حکومت کا ناطقہ بند کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کا سَر توانائی کے بحران کی اوکھلی میں دے کر اُس پر مُوصلی برسانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہ تو عوامی دھاندلی ہے۔ اُنہیں آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ ع
ابھی آئے، ابھی بیٹھے، ابھی دامن سنبھالا ہے
ہر نئی جمہوری حکومت کے ساتھ عوام کا وہی برتاؤ ہوتا ہے جو وہ قربانی کے جانور سے روا رکھتے ہیں۔ کچھ دن چارا ڈالتے ہیں، جانور کو گھماتے پھراتے ہیں اور پھر قربانی۔ جمہور ذرا سوچیں۔ اگر جمہوریت کے نام پر اُن کا یہی چلن برقرار رہا تو کون آئے گا۔