تحریر : وصی شاہ تاریخ اشاعت     22-12-2013

مِرے معبود! آخر کب تماشا ختم ہو گا؟

اردو کے قدیم سے قدیم اور مستند ترین لغات اٹھا کر دیکھ لیں، کہیں بھی لفظِ تماشا کے ایسے معانی آپ کو نہیں ملیں گے جس پہ اتنا واویلا کیا جائے۔ جس ادارے پہ روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں غریب عوام کا کروڑوں خرچ ہوتا ہے، وہ عوام کو مسائل سے نکالنے کے لیے سوچ بچار کرنے کے بجائے جس طرح لفظِ تماشا کو اپنی توہین اور انا کا مسئلہ بنائے بیٹھا ہے اس پہ سر پیٹنے، بین کرنے کو جی کرتا ہے۔ بے حسی کی واقعی کوئی انتہا نہیں ہوا کرتی، کم ازکم پاکستان جیسے ملک میں۔ اگر لفظِ تماشا کو اپنی توہین سمجھا بھی تھا اپوزیشن نے، تو مناسب احتجاج کر کے عوام الناس کی خاطر آگے بڑھ جانا چاہیے تھا اور چودھری نثار صاحب کی شانِ عالیہ میں بھی معذرت کرنے سے قطعی کوئی فرق نہ پڑ جاتا۔ اگر وہ معافی نہ بھی مانگتے، عوام کو درپیش دیگر چلینجز کو پیش نظر رکھتے ہوئے سونے جیسے وقت کو بربادی سے بچانے کے لیے اتنا ہی کہہ دیتے کہ لفظ تماشا کے استعمال سے ان کا مطلب کسی کی دل آزاری نہیں تھا، آئیے مرتے، پستے، بلبلاتے ہوئے عوام کے مسائل پر غور کریں، مگر افسوس صد افسوس کہ عوام کے مال پر پلتے ہوئے ان تمام لوگوں کی انائیں دراصل بلائیں بن چکی ہیں، ایسی بلائیں جن کی تسکین ایسی ہی بے معنی اور لایعنی بحثوں سے ہوا کرتی ہے۔ لکھ لیجیے کہ جب تاریخ، پاکستان میں پل پل مرنے والے، پسنے والے عوام کا تذکرہ کرے گی تو یہ کبھی بھلائے گی نہیں کہ جب کروڑوں پاکستانی عوام مملکتِ پاکستان میں بدترین زندگی گزارنے پر مجبور تھے، ان کے نام نہاد لیڈر اپنی انائوں کے مچان پہ چڑھے لفظِ تماشا سے ہونے والی توہین پر بحث کر رہے تھے اور منہ سے نکلے ہوئے الفاظ واپس نہ لینے پہ اصرار اور تکرار میں مگن تھے۔ لوگ مر رہے تھے اور ان کے بہتے ہوئے لہو سے لیڈروں کی انائیں فربہ ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ خدا جانے کہ یہ تماشا کب ختم ہو گا؟ اسی تماشے پر جو واقعی اشرافیہ اور سیاستدانوں نے لگا رکھا ہے، محترم افتخار عارف صاحب کی غزل کا جواب نہیں۔ وہ آخر میں پیش کرتا ہوں مگر اس سے پہلے ذرا دیکھیے کہ لفظِ تماشا کو اردو کے بڑے شعراء نے کیسے کیسے برتا ہے۔ مرزا نے لکھا:
 
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اِک تماشا ہوا‘ گلہ نہ ہوا
پھر فرماتے ہیں:
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
 
اور پھر مرزا کا وہ لافانی شعر کہ جو سمجھ میں آ جائے تو انسان غم اور مسرت دونوں ''اذیتوں‘‘ سے آزاد ہو جایا کرتا ہے:
 
بازیچہ اطفال ہے دنیا مِرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے
 
اور لیجیے صاحب، افتخار صاحب کی غزل سے پہلے عوامی اور سرمست شاعر کے کچھ اشعار اور یاد آ گئے۔ ہر ہر شعر کو پاکستانی سیاست کے تناظر میں ہی دیکھیے گا، مفہوم زیادہ مہکے گا:
 
وہ بُلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
بندہ پرور جو ہم پر گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
آج ہم بھی تیری وفائوں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
 
اور آخر میں افتخار صاحب کی بے بہا غزل... غزل کیا ہے، ہمارے عہد کا نوحہ ہے۔ قطرہ قطرہ، لمحہ لمحہ روز مرتے ہوئے عوام کا نوحہ۔ جھوٹ، فراڈ، فریب، مکاری، دوغلے پن، دغا بازی، کرپشن، دھاندلی، بے حسی، اقرباء پروری و موروثی سیاست کا نوحہ:
 
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا
مِرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
نئے کردار آتے جا رہے ہیں روشنی میں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
چراغِ حجرہِ درویش کی بجھتی ہوئی لَو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے 
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا
دلِ نامطمئن ایسا بھی کیا مایوس ہونا
جو خلق اٹھی تو سب کرتب، تماشا ختم ہو گا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved