شاعر کی باقی پیش گوئیاں پوری ہوئیں تو یہ بھی ہو کر رہے گی ۔
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
امام غزالیؒ کا مطالعہ کیے بغیر اسلام کی علمی روایت کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ شاید وہ واحد سکالر ہیں ، جن کی زندگی میں انہیں امام کہا گیا ۔ عظمت جب ٹوٹ ٹوٹ کر برستی ہے تو حیرت کو جنم دیتی اور غلّو کرتی ہے ۔انقلاب کے بعد ایران کے پہلے منتخب صدر نے شاید اسی لیے آیت اللہ روح اللہ خمینی کو امام کا لقب دیا تھا۔
غزالی ؒکے عہد میں فرقہ واریت ابھر آئی تھی ، اسمٰعیلی فتنہ برپا تھا ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ یونانی فلسفیوں کا اثر فروغ پذیر تھا۔ امام نے ان سب فتنوں کا سدّباب کیا۔ یونانی فلسفے کے پیدا کردہ مغالطوں کو آپ نے نمٹا دیا۔ تقلید کے وہ سخت مخالف تھے ۔ ان کا سوال یہ تھا کہ ایک آدمی حنفی ، شافعی ،حنبلی یا مالکی گھر انے میں جنم لیتا ہے تو یہ لازم کیوں ہے کہ عمر بھر طوق گلے میں ڈالے رکھے؟
سب سے بڑھ کر جس چیز پر انہوں نے زور دیا، وہ یہ تھی کہ انسانی کردار کی تشکیل میں حسنِ نیّت کی اہمیت ہر چیز سے بڑھ کر ہے اور غور و فکر کی ۔علّامہ حنیف ندوی اہلِ حدیث تھے لیکن وسیع الظرف اور متجسّس ۔ امام ؒکی شخصیت اور افکار پر ان کی کتاب ''فکرِ غزالی ؒ‘‘ایک معرکتہ الآرا تصنیف ہے ۔ امام غزالی ؒپہ ان کا واحد اعتراض یہ ہے کہ فقہا ء کے باب میں وہ سخت گیر ہیں ۔
امام غزالی ؒکی یاد ایک ممتاز اخبار نویس کے اظہارِ خیال سے آئی ، ملک کی حالت پر وہ دل گرفتہ ہیں ۔ ان کا سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستانیوں کے تولیدی خلیوں میں کوئی خامی اور خرابی ہے؟ گریہ اس پر ہے کہ کچھ شاہی خاندان ملک پر مسلّط ہیں ۔ شریف ، چوہدری اور بھٹو (یا زرداری ) خانوادہ ۔ اقتدار وراثت میں ملتاہے ، صلاحیت اور جدوجہد سے نہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گزرے ہوئے کل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوںنے قائد اعظم ، اقبالؔاور محمد علی جوہر کا ذکر کیا ۔ وہ جو درمیانے طبقے سے اُبھرے اور قوم کا کامل اعتمادپایا ۔ اسی فہرست میں سرسید احمد خان اور نواب بہادر یار جنگ کو بھی شامل کر لیجئے ۔ محمد علی جناح نے جن ڈیڑھ رہنمائوں کو قابلِ اعتماد کہا تھا، جوہر ان میں آدھے تھے کہ جذبات سے مغلوب ہو جاتے ، بہادر یار جنگ پورے ۔ سری نگر میں قائد اعظم ؒکو ان کی وفات کا علم ہوا تو سکتے میں آگئے ۔
افسوس کہ قائد اعظم اور اقبال کی خط وکتابت کو، جو مطبوعہ ہے اور پاکستان کے عاشقِ زار محمود علی نے مرتب کی تھی ، بہت کم اہمیت دی گئی ۔ بغور اس کا مطالعہ کیا جائے تو مسلم قومیت پر اعتبار کے علاوہ دو نکات نمایاں ہیں ۔ اوّل یہ کہ مسلم لیگ تبھی مسلم برصغیر کی نمائندہ جماعت بن سکتی ہے ، اگر لیڈروں کی بجائے وہ عوام پہ انحصار کرے ، انہیں جگا سکے ۔ جناح اسی لیے لیڈروں کو کبھی سر پہ سوار نہ ہونے دیتے اور تمام تر توجہ رائے عامہ اور نوجوانوں پہ مرکوز رکھتے ۔ اقبالؔ علما اور لیڈروں کو زیادہ اعتنا کے قابل نہ سمجھتے ۔ تمام عمر مسلم عوام ان کے مخاطب رہے ۔ علما کے بارے میں ان کا مصرعہ ضرب المثل ہے ''دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد‘‘۔ سیاستدانوں کے بارے میں شیطان کی زبان سے یہ کہلوایا۔ ؎
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہِ افلاک
سرکارؐ کی ذات میں علم نے اپنا عروج اور مکمل اعتبار پایا۔ ظاہر ہے کہ لیڈروں کی ایک اہمیت ہوا کرتی ہے ۔آپؐ سے زیادہ کون اس نکتے کا شناورہوتا۔ ان پر توجہ فرماتے مگر بلالؓ زیادہ محبوب تھے ، صہیب رومی اور ان کے دوسرے ہم نفس بھی ۔
قریشی سرداروں کے وفد کو عمر ابنِ خطاب ؓ سے ملاقات کے لیے انتظار کرنا پڑا ۔ بلال ؓ وہاں موجود تھے ۔ وہ بدمزہ ہوئے تو ارشاد کیا کہ قبولِ اسلام کے وقت تم تأمل کا شکار رہے اور بلال بازی لے گئے ۔ نکتہ آشکار ہے ۔ معاشرے کی رفعت، ترقی اور بالیدگی کا انحصار ان صداقت شعاروں پہ ہوتاہے ، جو حق کی آواز پر لبیک کہنے میں اوّلیت اختیار کرتے ہیں ۔
تمام انسان ایک جیسے ہیں اور کوئی معاشرہ بانجھ نہیں ہوتا۔ تاریخ کا مطالعہ مگر یہ بتاتا ہے کہ قوموں اور معاشروں کے مزاج ہوتے ہیں ۔ صدیوں میں بنتے ہیں اور آسانی سے بدلتے نہیں ۔ سرکارؐکا اسوہ یہ کہتاہے کہ قوموں کی تعمیر کے لیے عوام کی تربیت لازم ہے ۔ علم کا فروغ اور کردا ر کی تشکیل۔ آزادی مگر ایک نظم کے ساتھ ۔ انسانو ں سے اللہ کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ تقلید کے خوگر نہ ہوں اور غور و فکر کو شعار کریں ۔ بار بار اللہ کی آخری کتاب یہ سوال کرتی ہے کہ تم سوچتے کیوں نہیں ؟ فرمایا: جو غور نہیں کرتے ، وہ بدترین جانور ہیں ۔ جانور نہیں، بدترین جانور ۔
برصغیر میں اقبالؔ غزالیؒ کا بدل تھے ۔ کارِ تجدید اگر کسی نے کیا تو انہی نے ۔ اردو زبان کا مزاج انہوںنے بدل ڈالا۔ مسلمانوں کے لیے دو آزادریاستوں کا تصور انہی نے پیش کیا ۔ امامؒ ہی کی طرح ، جب وہ اس دنیا سے اٹھے تو اپنے معاشرے کو ایک حد تک بدل چکے تھے ۔ اس یقین کے ساتھ وہ اس دنیا سے اٹھے کہ پاکستان قائم ہو کر رہے گا۔ انہوں نے یہ کہا تھا :
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
اقبالؔؒ اور پھر قائد اعظمؒ کے طفیل پاکستان قائم تو ہو گیا ، ہمارے مزاج کی بعض خرابیاں باقی رہیں ۔ غلامی اور ملوکیت کی صدیوں کے اثرات۔ اسراف ، دکھاوا، جذباتیت ، سطحیت ، احساسِ کمتری اور تقلید۔ اسی سے گروہ بندی جنم لیتی ہے ، بدگمانی بھی ۔ سچ پوچھیے تو برصغیر احساسِ کمتری کی سرزمین ہے ۔ فاتحین کی تلواروں تلے پلنے و الی اقوام۔ اجنبی سرزمینوں سے آنے والے پٹھان ، ترک ، مغل اور انگریز حکمران ۔
سچ کہا : قیادت درمیانے طبقے سے ابھرنی چاہیے ، جو اپنی جدوجہد اور ایثار سے پہچانی جائے ۔ امریکہ او ربرطانیہ کی طرح چین ، ترکی اور ملائیشیا کی مانند۔ ہم لیکن ردّ عمل میں بروئے کار آتے ہیں ۔ مزاجوں میں ہیجان بہت ہے ۔ بے لچک لوگ ، جو انا کو عزتِ نفس کا متبادل سمجھتے ہیں ۔ آخری تجزیے میں عزتِ نفس کارائج تصور بجائے خود احمقانہ ہے ۔ توقیر، جیسا کہ سرکارؐ نے ارشاد کیا تھا، حسنِ کردار سے ہوتی ہے ۔
1947ء میں پاکستان کا تصور قبول کیے جانے کے بعد قائد اعظم سے کہا گیا "Do you really believe it will become a nation? It will take fifty years"۔جواب میں ارشاد کیا "No, a hundred years"۔قوموں کی تشکیل و تعمیر کا عمل یہی ہے ۔ فروغِ علم سے اس عمل کو متواتر اور مہمیز کیا جا سکتاہے ۔ اللہ مہربان ہو تو قائداعظم ایسے لیڈروں کی نمود سے ، اپنی مثال سے جو ہجوم کی تربیت کریں ۔ آخری بات یہ ہے کہ مایوسی زہر ہے ۔ نظر اٹھا کر دیکھو تو اس قوم میں ایثار اور حسنِ عمل کی مثالیں بھی بہت ملیں گی ۔ اقبالؔ نے کہا تھا ۔ ؎
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
اور اسی نادرِ روزگار کا قول یہ ہے ۔ ؎
نہیں ہے ناامید اقبال ؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
شاعر کی باقی پیش گوئیاں پوری ہوئیں تو یہ بھی ہو کر رہے گی ۔
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد