تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-12-2013

آرٹیکل 199کی خلاف ورزی

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 199ریاست کے تمام شہریوں کو بلاامتیازِ رنگ و نسل برابری کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے مگر مملکتِ خداداد میں ایسا ہو نہیں رہا۔ مراعات یافتہ طبقے اور عام آدمی میں ، امیر میں اور غریب میں ، فوجی میں اور سویلین میں حتیٰ کہ عام اور سادہ چور ، ڈکیت ، جیب تراش ، جعلساز ، بدمعاش اور مراعات یافتہ سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے چور ، ڈکیت ، جیب تراش ، جعلساز اور بدمعاش کے ساتھ بھی آرٹیکل 199کے تحت برابری کا سلوک نہیں ہوتا۔ عام اور سادہ چور وہ ہے جواپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے یا بہتر کرنے کے لیے چھپ کر آپ کے یا میرے گھر میں چوری کرتا ہے۔ اسی طرح عام اور سادہ ڈاکو بلا تخصیصِ خاص و عام اپنا پیشہ سرانجام دیتا ہے۔ یہی حال جیب تراشوں ، جعلسازوں اور بدمعاشوں کی عوامی قبیل سے منسلک افراد کا ہے۔ نہ ان کا کوئی والی وارث ہے اور نہ ہی کوئی یونین ۔ نہ ہی ان کی کوئی اجتماعی آواز ہے ،نہ انہیں قانون کوئی تحفظ دیتا ہے اور نہ آئین ۔ نہ انہیں معاشرے میں کوئی عزت حاصل ہے اور نہ ہی انہیں عدالتیں ریلیف دیتی ہیں۔ دوسری طرف یہ عالم ہے کہ معاشرے میں بظاہر عزت دار ، کاروباری ، ٹریڈ یونینز کی چھتری تلے محفوظ و مامون ، سیاسی مراعات یافتہ اور عوام کے پیسوں پر سرکاری ملازمت کرنے والے چور ، ڈکیت ، جیب تراش ، جعلساز اور بدمعاش ایک ٹکٹ میں دس دس مزے کررہے ہیں۔
پولیس ، میڈیا ، قانون، عوام اور حکومت سب ہی مسکین قسم کے چوروں ، ڈکیتوں ، جیب تراشوں ، جعلسازوں اور بدمعاشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ یہ لوگ پورے پاکستان میں ایک ماہ کے اندر بھی وہ کچھ نہیں لوٹتے جو سرکاری اور سیاسی تحفظ کی چھتری تلے محفوظ لوگ ایک دن میں نچوڑ لیتے ہیں۔ کسٹم ، پولیس ، انہار ، جنگلات ، انکم ٹیکس ، بلدیات ، ترقیات ، پلاننگ ، صحت اور اسی قسم کے دیگر بے شمار محکموں سے وابستہ پیدا گیر بابوئوں کا تو ذکر ہی کیا، چھوٹے چھوٹے محکموں کے کلرک اور چپڑاسی تک اس لوٹ مار میں شامل ہیں اور انہیں اپنی اپنی یونین کی سرپرستی اور آئین کا تحفظ حاصل ہے۔ چپڑاسی رشوت لیتے رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے تو دلیل دی جاتی ہے کہ بے چارے کی تنخواہ ہی اتنی کم ہے کہ گزارا نہیں ہوتا۔ بات دل کو لگتی ہے ۔ چپڑاسی موقع پر ہی بری ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف بے چارے چور کی تو چپڑاسی جتنی بھی تنخواہ نہیں مگر اسے کوئی ریلیف دینے پر تیار نہیں۔ کلرک رشوت وصول کرتا پکڑا جائے اور کوئی بہادر افسر اسے معطل کردے تو یونین ہڑتال کردیتی ہے ۔ اگر ہڑتال سے کام نہ چلے تو عدالت حکم امتناعی جاری کردیتی ہے۔ کلرک بادشاہ اگلے روز اسی دھڑلے سے اپنا ''بزنس ‘‘ شروع کردیتا ہے۔ بڑے افسر کا تو پوچھو ہی نہ۔ اول تو اسے پکڑنے کے لیے طریقہ کار ہی اتنا لمبا ہے کہ خدا کی پناہ۔ دوسرا اسے اس کے سارے بھائی بند تحفظ بھی دل کھول کر فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا راوی چین لکھتا ہے۔
سرکاری اور سیاسی سرپرستی میں لوٹ مار کرنے والوں کے ذکر کو چھوڑیں کہ اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور حال یہ ہے کہ ہر گزرنے والا دن ان کے لیے لوٹ مار کے نئے نئے طریقے اور نئی نئی جہتیں لے کر طلوع ہوتا ہے۔ محکمے اپنی کارکردگی کے حوالے سے تقریباً ختم ہوچکے ہیں مگر افسران کی پیدا گیری کے حوالے سے پہلے سے کہیں زیادہ منفعت بخش بن چکے ہیں۔سرکاری افسران جن کا کام نظام چلانا تھا اپنا ذاتی پیداواری نظام چلانے میں مصروف ہیں۔ اور ان کا یہ پیداواری نظام دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ غیر سرکاری ادارے ، طبقے اور کاروباری مفاد میں بندھے ہوئے لوگ بھی باقاعدہ اور اجتماعی لوٹ مار ، ڈکیتی ، جعلسازی اور بدمعاشی پر اتر آئے ہیں اور انہیں کنٹرول کرنے والے سرکاری ادارے مکمل طور پر غیر موثر ہوچکے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ جس کا دل چاہتا ہے اپنے بازو کے زور پر کر گزرتا ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا ، ہاتھ پکڑنے والا اور عوام کو ان چوروں ، ڈکیتوں ، جعلسازوں اور جیب تراشوں سے بچانے والا نظر نہیں آتا۔
ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر اپنی اپنی اوقات اور استطاعت کے مطابق دوسرے کو لوٹ رہا ہے۔ رمضان میں تو یہ حال ہوتا ہے کہ پوری قوم مل کر پوری قوم کو لوٹ رہی ہوتی ہے۔ کسان کا یہ عالم ہے کہ اپنی گوبھی کی فصل پر تین ماہ محنت کرتا ہے، بیج ڈالتا ہے، کھاد ڈالتا ہے، سپرے کرتا ہے، سردی میں صبح چار بجے اٹھ کر پانی لگاتا ہے، ڈالے پر رکھ کر منڈی لاتا ہے، منڈی کے دروازے پر کسی اٹھائی گیرے سیاسی رہنما کے کڑچھے کو بھتہ دیتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد اپنی ذاتی محنت اور مزدوری شامل کرکے گوبھی پچیس روپے کلو میں بیچ کر گھر چلا جاتا ہے۔ آڑھتی ایک گھنٹے میں اس گوبھی پر پندرہ روپے کلو کمالیتا ہے اور دکاندار کو چالیس روپے میں فروخت کردیتا ہے۔ دکاندار منڈی سے دکان پر لانے کی '' مشقت‘‘ کے عوض چالیس روپے فی کلو میں خرید کی گئی گوبھی کو اسی روپے کلو میں 
فروخت کرتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہرشخص من مانی کررہا ہے ،نہ کوئی پوچھ نہ پڑتال اور نہ کوئی خوف۔ '' چیک اینڈ بیلنس ‘‘ نامی معاملے کو رخصت ہوئے عرصہ ہوچکا ہے۔ کوئی مائی کا لال اگر اس '' چیک اینڈ بیلنس ‘‘ نامی مردے کو نکال کر زندہ کرنا چاہے تو معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ سارے چور ، ڈکیت ، جیب کترے ، جعلساز مل کر ہڑتال کرکے پورا نظام زندگی مفلوج کردیتے ہیں۔ ان کے مطالبات اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔ بالآخر مجبوراً انہیں اس لوٹ مار کی مکمل یا جزوی اجازت مل جاتی ہے۔ اسی اجازت سے مجھے یہ خیال آتا ہے کہ وکلاء ، تاجر ، دکاندار ، کاروباری ادارے ، آڑھتی ، بروکر اور ذخیرہ اندوز سب اپنی اپنی جگہ پر لوٹ مار کررہے ہیں۔ ان کی انجمنیں ہیں، یونینز ہیں ، اجتماعی اتفاق و اتحاد ہے۔ وہ چوری بھی کرتے ہیں اور سینہ زوری بھی۔ للکار کر لوٹتے ہیں اور نہ کوئی خوف ہے نہ ڈر۔ اوپر سے ضرورت پڑے تو حکم امتناعی بھی حاصل کرلیتے ہیں اور ہڑتال بھی کردیتے ہیں۔
میں جب ملتان کا ذکر کرتا ہوں تو بعض قارئین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میں ملتان کا ذکر کیوں کرتا ہوں ۔ پورے پاکستان کا ذکر کیوں نہیں کرتا؟ کیا ملتان جزائر غرب الہندمیں ہے؟ کیا ملتان لاطینی امریکہ میں واقع ہے؟ جب میں ملتان کی بات کرتا ہوں تو ذاتی تجربے کی بنیاد پر کرتا ہوں۔ یہ صرف مثال دینے کے لیے ہوتا ہے وگرنہ پورے پاکستان میں یہی کچھ ہورہا ہے ۔ملتان کی بات تو محض تمثیل ہے۔ دیگ سے لئے گئے ایک لقمے کی مثال۔ جو ساری دیگ کا حال بتانے کے لیے کافی ہوتاہے۔ ملتان میں نئے ڈی سی او نے پٹرول پمپوں کی چیکنگ شروع کروائی۔ پیمانے پورے نہ تھے اور اوور چارجنگ ہورہی تھی۔ تھوڑی سختی کی۔ پٹرول پمپ مالکان نے کمیشن کا بہانہ بناکر ہڑتال کردی۔ سارے پٹرول پمپ بند ہوگئے ۔ مخلوق خدا خوار و خستہ ہوگئی۔ سبزی منڈی میں آڑھتیوں نے اپنی دکانوں کے آگے دیے گئے سرکاری تھڑوں پر دکانیں بنالیں۔ منع کیا تو پھڑیوں کو آگے کرکے ہڑتال کردی۔ صبح ڈی سی او نے سبزیوں کی نیلامی کا عمل خود اپنی نگرانی میں کروانا شروع کیا تو سب آڑھتی اور پھڑیے ایک ہوگئے۔ لوٹ مار کرنے والوںنے لوٹ مار سے روکنے پر ہڑتال کردی۔ فلور ملوں کی چیکنگ کی گئی تو اکثر ملوں کے آٹے کی کوالٹی انتہائی ناقص نکلی۔ چھاپوں کا خوف پیدا ہوا تو فلور ملز ایسوسی ایشن نے ہڑتال کی دھمکی دیدی۔ غرض جس کو لوٹ مار سے روکیں،جیب کاٹنے سے منع کریں، ڈکیتی کا راستہ روکیں وہ ہڑتال کردیتا ہے۔ مخلوق خدا تنگ ہوتی ہے۔ گراں قیمت پر ناقص مال خریدیں یا ہڑتال کا سامنا کریں۔
مملکت خداداد پاکستان میں کوئی عام چور ، ڈکیت ، جیب کترا ، جعلساز اور بدمعاش نہ تو ہڑتال کرسکتا ہے اور نہ اپنے مطالبات منوا سکتا ہے۔ نہ تو مخلوقِ خدا کو علی الاعلان للکار سکتا ہے اور نہ ہی حکم امتناعی جیسی سہولت سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے سرکاری اور سیاسی سرپرستی میں پنپنے والے غیر سرکاری اداروں اور زندگی کے مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معزز چوروں ، ڈکیتوں ، جیب کتروں ، جعلسازوںاور لوٹ مار میں مصروف لوگوں، انجمنوں اور ٹریڈ یونینز کو تمام قانونی مراعات اور سہولتیں میسرہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 199کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ دونوں قسم کے لٹیروں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ آرٹیکل 199تمام پاکستانی شہریوں کو بلاتفریقِ رنگ و نسل برابری کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے مگر صد افسوس کہ ایسا ہو نہیں رہا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved