تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     22-12-2013

شکر گزاری اور روشن پہلو

واشنگٹن ڈی سی میں ہولی ڈے(Holiday) سیزن کا آغاز ہوچکا تھا، لوگ چھٹیاں منانے کے موڈ میں تھے،کرسمس کی تیاریاں عروج پر پہنچ چکی تھیں،کرسمس ٹری سجائے جارہے تھے اور تحفے تحائف دینے اور لینے کا خوبصورت موسم تھاتاہم جارج اس موسم میں شدید احساس تنہائی کا شکار تھا۔اس کی ماں نے اپنے بوائے فرینڈ سے نیا بیاہ رچالیا تھااورخود جارج کی گرل فرینڈ جینی اسے چھوڑکر جاچکی تھی۔ وہ بے روزگار تھا اورکئی روز سے اپنے فلیٹ میں تنہاکمرے میں بند تھا۔اسے بارباریاد آتا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے زندگی اس کے لیے کتنی خوبصورت تھی۔ وہ ایک فرم میں مارکیٹنگ کا کام کرتاتھا، جینی کا ساتھ اسے میسر تھا، وہ اپنی ماں کا اکلوتااورلاڈلا بیٹااوراس کی ساری محبتوں کا حق دار تھا۔ ہفتے کے پانچ دن وہ خوب محنت کرتا اور ویک اینڈ پر جی بھر کے تفریح کرتا۔مگراچانک اس کی زندگی کا پہیہ بالکل الٹی طرف چلنے لگا۔ نوکری گئی، جیب خالی ہوئی تو جینی اسے چھوڑکرچلی گئی۔ وہ ابھی اس کی بے وفائی سے سنبھل نہ پایاتھا کہ اس کے ماں نے ایک نئی شادی کرکے اس کو گڈ بائے کہہ دیا۔اب وہ کئی روز سے شدید ڈپریشن کا شکار تھا۔ زندگی میں اسے کہیں کوئی دلکشی اور خوبصورتی دکھائی نہ دیتی تھی۔ مایوسی کے اندھیروں نے اس کے سامنے سے ہر روشن پہلو کو غائب کردیا تھا۔ اس عالم میں وہ سوچتا کہ
مرجانا بہتر ہے؛چنانچہ اس نے خودکشی کا ارادہ کرلیا ۔21دسمبر کا دن تھااور ٹھیک چاردنوں کے بعد کرسمس کا تہوار تھا۔ وہ اس موقعے پر اپنی ظالم تنہائی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پارہا تھا۔ انہی سوچوں نے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا۔ اس کے فون پر میسج کی گھنٹی بجی، جارج نے دیکھا تو اس کے دوست راجرکا نمبر سکرین پر تھا۔'' اوہ‘‘ جارج کے منہ سے نکلا۔ راجر گزشتہ ایک سال سے ہڈیوں کے کینسر کا شکار تھا اور ہسپتال میں زیر علاج تھا۔ جارج نے سیل فون پر میسج کھولا تو راجرکی مسکراتی ہوئی تصویر کے نیچے لکھا تھا:
Happy look on the bright side day. I have cancer, but I am not dead: I am happy,I am alive. I can feel pain and weep. I can hope good and smile too.
جارج کو خیال ہے کہ آج 21دسمبر ہے اور اس تاریخ کو زندگی کے روشن پہلو دیکھنے کا دن منانا ان کی قومی روایت ہے۔ راجر کی بھیجی ہوئی چند لائنیں پڑھ کر جارج کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے اندھیرے کمرے میں اچانک بلب روشن کردیا ہو۔ اس روشنی میں اس نے دیکھا کہ راجر ایک موذی مرض کا شکار ہوکر بھی شکر گزار ہے کہ وہ زندہ ہے اورخدا سے اور اپنے مستقبل سے اچھی امید رکھ سکتا ہے۔ اگر ایک شخص موت کے دہانے پر کھڑا ہوکر زندگی کے کٹھن لمحوں میں روشنی اور امید تلاش کرسکتا ہے تو وہ خود کتنا بڑا ناشکرا ہے۔ اسی خیال کے ساتھ جارج کی نظروں کے سامنے سے مایوسی اور خود ترسی کے اندھیرے دور ہونے لگے ۔ایک چراغ اس کے دل میں جلا اور جیسے دھند آلود سرمئی دن میں بھی سورج نکل آیا اور اس روشنی میں اسے اپنی زندگی اور اپنا وجود قیمتی نظر آنے لگا۔ جارج اپنے بیمار دوست راجر کا شکر گزار تھا جس نے آج بروقت اسے مایوسی سے نکال لیا۔
'' جارج‘‘ تو صرف ایک علامت اور ایک کردار ہے۔ ہمارے آس پاس کتنے لوگ ایسے ہیں جو زندگی میں ذرا سی ناکامی پر جینے کی لگن اور امنگ ختم کردیتے ہیں۔ آئے دن اخبارات میں بھی ایسی خبریں آتی ہیں۔امتحان میں ناکامی پرنوجوان نے خودکشی کرلی، محبت میں ناکامی پر زہر پی لیا۔ ایک بار ایک خبر نے چونکا کر رکھ دیا کہ آٹھویں جماعت کے طالب علم نے والد کی ڈانٹ پر دل برداشتہ ہوکر خودکشی کرلی۔ ذرا تصور کریں کہ آٹھویں کلاس کا طالب علم ابھی تو زندگی کا آغاز کررہا ہوتا ہے۔ کھیل کودنے اور بے فکری کی عمر میں زندگی سے اس قدر مایوس ہوکر زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کرلینا انتہائی قدم ہے۔ انسانی نفسیات کے ماہرین اس ایشو کو سمجھنے میں ہماری بہتر مدد کرسکتے ہیں،لیکن جو بات مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ والدین ، تعلیمی ادارے ، میڈیا اور معاشرہ فرد کی تربیت غیر محسوس طریقے سے اس انداز میں کررہے ہیں جہاں خواہش زندگی سے بڑی نظر آتی ہے اور ایک خواہش کی تکمیل میں ہی زندگی دکھائی دیتی ہے۔ خواہش ناتمام بھی رہتی ہے اور آرزوئیں تشنہ تکمیل بھی ہوتیں ہیں، ایسے میں زندگی کی ان گنت اور بے پناہ نعمتوں اور خوب صورتیوں کو مایوسی کی نظر سے دیکھنا انسان کا اپنے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہے۔ ہمارا دین ہمیں درس دیتا ہے کہ مایوسی کفر ہے۔ نعمتوں کی شکر گزاری کا حکم بار بار قرآن حکیم میں دیا گیا ہے۔ سورہ رحمن اسی مفہوم کے گرد گھومتی ہے۔
امریکی تو شاید سال میں ایک دن 21دسمبر کو زندگی کا روشن پہلو دیکھنے کا دن مناتے ہیں جبکہ ہمیں تو زندگی کا ہر دن شکر گزاری کے اسی عظیم احساس کے ساتھ گزارنے کا حکم ہے۔ زندگی کے روشن پہلو دیکھنا، شکرگزار ہونا ایسی کنجی ہے، ایک ایسا کھل جاسم سم ہے جس سے زندگی کی بڑی سے بڑی مشکلات سرہوجاتی ہے، کٹھن لمحات آسانی سے گزر جاتے ہیں۔ اسی کھل جاسم سم سے سرسے پیر تک معذور شخص سٹیفن ہاکنگ بنتا ہے، گونگی بہری اور اندھی لڑکی ہیلن کیلر بنتی ہے۔ اسی حوالے سے آخر میں ایک خوب صورت قول جس کا مفہوم یہ ہے کہ شکر گزاری بھرپور زندگی کا دروازہ کھولتی ہے۔ اسی سے انکار،قبولیت میں ڈھلتا ہے، جو کچھ زندگی میں ہمارے پاس موجود ہے وہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ بے ترتیبی ، ترتیب میں بدلتی ہے ، ابہام ختم ہوجاتے ہیں، ایک عام سادہ سا کھانا شاندار دعوت محسوس ہونے لگتا ہے۔اینٹوں کا مکان محبتوں سے سجا گھر بن جاتا ہے اور اجنبیت دوستی میں ڈھل جاتی ہے۔۔۔!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved