تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-12-2013

وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

نون لیگ تو ہار جائے گی کہ ایک خاندان کی مِلک اور سیاسی مافیا بن چکی ۔ تحریکِ انصاف کا مستقبل بھی اصولوں کی پاسداری سے وابستہ ہے ۔ قدرت کے قوانین کبھی کسی کے لیے بدلا نہیں کرتے ۔ 
خیال یہ تھا کہ خواجہ سعد رفیق وقتی جذبات سے مغلوب ہوگئے اور 1980ء کے عشرے کا طلبہ لیڈر ان پر غالب آگیا ۔ جاوید ہاشمی سے میں کہا کرتا کہ طالبِ علم لیڈر ہمیشہ طالبِ علم لیڈر ہی رہتے ہیں ۔ خود ہاشمی کی سیاسی زندگی ایک مثال ہے ، قاضی حسین احمد مرحوم اور سیّد منوّر حسن کی بھی۔ خواجہ نے وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی بلوغت کا کچھ سفر طے تو کیا ، دبائو میں پرانی عادات لیکن پلٹ آتی ہیں۔ ہفتہ کو لاہور میں ان کے خطاب سے واضح ہوا کہ معاملہ کچھ سوا بھی ہے ۔ تحریکِ انصاف کے مظاہرے اور جلسے کو انہوں نے سرکس قرار دیا اور اس کا تمسخر اڑایا ۔ اپنے ساتھی رانا ثنا ء اللہ کی طرح ، جو غیر سنجیدہ سمجھے جاتے ہیں ۔ اسی پر بس نہیں ، میاں محمد شہباز شریف سمیت، نون لیگ کے دوسرے لیڈر بھی گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار تھے ۔ غیر معمولی سیاسی فہم کے حامل مگر ناراض وزیرِ داخلہ نے توحد کر دی ۔ انہیں وسط مدتی الیکشن کی بو آنے لگی ۔ طُرفہ تماشا یہ کہ پریشانی میں وہ واویلا کرنے پر اتر آئے اور وہ بھی قومی اسمبلی کے ایوان میں ۔ 
شیخ رشید کی خواہش یہ ضرور ہو سکتی ہے ، جنہیں خواجہ نے بی جمالو کہا۔ شاید وہ خوف زدہ ہوئے کہ کہیں عمران خان ان کے کہنے میںنہ آجائیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ سے زیادہ یہ خان کی خواہش تھی ۔ لاہو رمیں اپنے کارکنوں سے وہ کہہ چکے تھے کہ وہ آئندہ الیکشن کی تیاری کریں ۔ محض تمنّا سے مگر کیا ہوتاہے ۔ 
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم 
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں 
بے شک عمران خان کے مزاج میں وہ کیفیت قدرے زیادہ پائی جاتی ہے ، انگریزی میں جسے Willingness to believeکہا جاتاہے ۔ فوراً یقین کرلینے کا رجحان ۔ خواہشات آدمی کے باطن میں سرسراتی ہیں ۔ باہر سے تائید پا کر وہ برق رفتاری سے بروئے کار آتی ہیں ۔ کامیابی اس اعتبار سے بہت گمراہ کن چیز ہے کہ گاہے وہ حد سے زیادہ اعتماد کو جنم دیتی اور خوش فہمیوں کی جنّت آباد کر دیتی ہے ۔ بعض جدید مطالعوں سے کھلا کہ بہت زیادہ ورزش کرنے والے اپنے بارے میں حسنِ ظن کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ ایک قومی شخصیت پر تبادلہء خیال تھا ۔طالبِ علم نے یہی نکتہ بیان کیا تو وہ مسکرائے۔ معاً خیال آیا کہ وہ خود بہت پابندی سے ورزش کے عادی ہیں۔ اپنے آپ پر مگر انہیں قابو ہے ۔ کپتان کا معاملہ مختلف ہے ۔ وہی جو اقبالؔ نے اوائلِ بیسویں صدی کے پامال پنجابی کسان کے بارے میں کہا تھا۔ 
تاویل کا پھندہ کوئی صیّاد لگادے 
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
غالباً بعض مشیر وں نے کپتان کو اکسایا کہ انتخابی دھاندلی ، ڈرون حملوں اور مہنگائی پر تحریک اٹھا کر وسط مدتی الیکشن کا دروازہ کھولا جا سکتاہے ۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ، تحریکِ انصاف کا مظاہرہ جاری ہے ۔ ایک بہت ہی موثر مظاہرہ مگر جیسا کہ مبصرین کی اکثریت نے کہا تھا : کوئی طوفان نہیں آیا۔ مہنگائی اور انتخابی دھاندلی کے سلسلے میں حکومت پر دبائو بڑھے گا ۔لاہور اس کا قلعہ نہ رہے گا۔ وہ ناکردہ کار ثابت ہوئی ۔ کنفیوژن اور بے عملی کا شکار ۔خوف زدہ بھی ۔ احساسِ جرم میں وہ مبتلا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کی تھی۔ جیسا کہ نادرا کی چھان بین سے ظاہر ہوا ، کراچی میں تو الیکشن ہوا ہی نہیں ۔ دیہی سندھ کے ایک حلقے کی رپورٹ مرتّب کر لی گئی ہے ۔ 14فیصد ووٹ ناقابلِ شناخت ہیں ۔ 
غیر شہری سندھ میں پیپلز پارٹی نے من مانی کی اور پنجاب میں نون لیگ نے ۔ نگران وزیرِ اعلیٰ اسی لیے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنا ئے گئے ۔ تحریکِ انصاف کے وہ سخت گیر مخالف تھے ۔ ان کی اہلیہ محترمہ ان دنوں محترمہ مریم نواز کی اتالیق ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ وہ سینیٹر کے منصب کی امیدوار ہیں ۔ خود ان صاحب کو ایف بی آر نے نگران حکومت کے دور میں ایک کروڑ روپے ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اس جائیداد پر جو نیویارک کے مہنگے ترین علاقے میں ان کے نام پر ہے ۔ وہی کیا، بہت سے اور بھی ہیں ۔ ٹیکس مگر کون وصول کرے ؟ کل عمران خان نے ٹی وی پر کہا کہ کم از کم پانچ بڑے لیڈروں میں سے ہر ایک کے کھربوں روپے بیرونِ ملک پڑے ہیں ۔ اسی لیے انکل سام سے بھیک مانگی جاتی ہے ۔ اسی لیے آزادی گروی ہے ۔ سیّد منوّر حسن جب تحریک برپا کر کے حکومتِ وقت سے نجات حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں تو انہیں ملحوظ رکھنا چاہیے کہ مستقبل کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل کے بغیر ، محض اقتدار کی تبدیلی سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اوّل تو اس وقت مطالبہ نتیجہ خیز نہ ہو گا ۔ ہو بھی چکے تو وہی بے ڈھنگی چال دیکھنے میں آئے گی ۔ 
مرکزی حکومت گرانی کی ذمہ دارہے ۔ بجلی اس نے گراں کی ، پٹرول اور ڈیزل بھی ۔معاشی پالیسی اس کے ہاتھ میں ہے ۔ روپے کی قیمت اس کے اقدامات سے گری اور افراطِ زردو گنا ہو گیا۔ چھ ماہ کے عرصے میں آٹھ سو ارب روپے کے نوٹ اس نے چھاپے ۔ نون لیگ کے لیڈروں کا موقف مضحکہ خیز ہے کہ سرحد میں نرخ پنجاب سے زیادہ ہیں ۔ ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں کہ یہ صوبہ اپنی ضرورت کی بہت کم اشیا پیداکرتاہے ۔ نقل و حمل کے اخراجات اور آج کی صورتِ حال میں دہشت گردی کا راج ، جس کے اسباب تحریکِ انصاف نے بہرحال پیدا نہیں کیے ۔ 
سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ دو سال سے قبل ، عوام کی نظر میں نون لیگ کی ناکامی پوری طرح آشکار ہونے سے قبل ، وسط مدتی الیکشن کا مطالبہ رواہی نہیں ۔ ثانیاً مالدار طبقات ، پاکستان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے والے عرب ممالک ، امریکہ اور یورپی یونین کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں ، فعال طبقات بھی تائید نہ کریں گے۔ پولیٹیکل سائنس کے طالبِ علم جانتے ہیں کہ انتخابات کے درمیانی عرصے میں اصل کردار ووٹر وں کا نہیں ، فعال طبقات کا ہوتاہے ۔ 
اسٹریٹ پاور اب تحریکِ انصاف کے ساتھ ہے ۔مذہبی جماعتوں سے زیادہ ۔ لاکھوں نئے نوجوانوں کو عمران خان سیاست کے میدان میں کھینچ لائے ہیں ۔ جوں جوں حکومت سے ناراضی بڑھی ، تحریکِ انصاف کی قوت بڑھے گی ۔ پارٹی کی تطہیر، تنظیمِ نو ، تربیت اور نئے جماعتی الیکشن کے بغیر ہی انہیں اقتدار مل گیا تو تباہی آئے گی ۔ عمران خان کے ٹرک پر عمر اسد اور جہانگیر ترین کے علاوہ عبد العلیم خان بھی سوار تھے ، جن کی موجودگی میں لاہور میں عام انتخابات کا معرکہ سر کیا جا سکتاہے اور نہ بلدیاتی الیکشن کا ۔ ایک سود خور بھی تھا، راولپنڈی کی رائے عامہ جس سے نفرت کرتی ہے ۔ پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ کہا جا تاہے ۔ کیوں وہ کمزور ہے ؟ اس لیے کہ نچلی سطح تک انتخابات کرانے والی منظم اور مقبول ،جمہوری سیاسی جماعتیں کارفرما نہیں ۔ جمہوریت کا سب سے اہم ادارہ وہی ہوتی ہیں ۔ 
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ مگریہ بھی ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔نون لیگ تو ہار جائے گی کہ ایک خاندان کی مِلک اور سیاسی مافیا بن چکی ۔ تحریکِ انصاف کا مستقبل بھی اصولوں کی پاسداری سے وابستہ ہے ۔ قدرت کے قوانین کبھی کسی کے لیے بدلا نہیں کرتے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved