تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     23-12-2013

بسنت

بسنت ہو گی لیکن ایک ضابطے کے ساتھ۔پنجاب حکومت نے ایک متوازن فیصلہ کیا اور یہی توازن ہماری ضرورت ہے۔حُسن میانہ روی میں ہے اور ہمیں آج اسی کی تلاش ہے۔افراط و تفریط آدمی کو توازن سے محروم کر دیتے ہیں۔اللہ کا دین سب سے بڑھ کر اس کا علم بردار ہے۔حیرت ہو تی ہے جب انتہا پسندی کے لیے اسے بنائے استدلال بنا یا جا تا ہے۔
بسنت میں کوئی بات غیر اخلاقی ہے نہ غیر شرعی،یہ ایک علاقائی اور مو سمی تہوار ہے جسے کسی مذہب سے کوئی نسبت نہیں۔اس حوالے سے جو داستانیں مشہور ہیں،وہ تاریخی طور پر ثابت نہیں۔اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ رویے کا ہے اور اسی سے انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔معا ملہ رویے کا ہو تو اس کا تعلق سماجی اصلاح سے ہے۔انتظامی ہو تو پھر حکومت سے متعلق ہو جا تا ہے۔بسنت ہمارے لیے دو طرح سے عذاب بن گئی ہے۔ ایک تو اسے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یرغما ل بنا لیا ہے۔ دوسراانتظامی نااہلی کے باعث معصوم جا نیں اس کی بھینٹ چڑھ جا تی ہیں۔عالمی کاروباری اداروں نے اسے مقامی اخلاقی وتہذیبی روایات سے دور کر دیا،اخلاق باختہ حرکتیں ہونے لگیں اور امرانے اسے اپنی خرمستیوں کا بہانہ بنا لیا۔حکومت نے نااہلی کا مظاہرہ کیا تومعصوم گلے کٹنے لگے۔یہ بات مسلمہ ہے کہ اگر کسی جائز کام کا سوئے استعمال بڑھ جائے تو اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک اگر بسنت سے سماج کی اخلاقی روایات پامال ہو نے لگیں اور عام آ دمی کی جان خطرے میں گھر جا ئے تواس پر پابندی لگا ئی جا سکتی ہے۔تفریح کے نام پراخلاقی روایت کو قربان کیا جا سکتا ہے نہ انسانی جانوں کو؛ تاہم اگر اس کا تدارک ممکن ہو توپھر بسنت میں فی نفسہ کچھ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اس سے روکا جائے۔
پنجاب حکومت نے اس ضمن میں کچھ فیصلے کیے ہیں، جیسے ڈورصرف سرکاری سرپرستی میںفروخت ہو گی یا پھر یہ کہ اس کے لیے مقامات متعین ہوں گے۔ان اقدامات سے بڑی حد تک اس تہوار کے سوئے استعمال کو روکا جا سکتا ہے۔میرا خیال ہے، سماجی اداروں کو اس باب میں حکومت کو مشورہ دینا چاہیے۔اگر وہ کوئی اور ایسا اقدام تجویز کر سکیں جس سے بسنت کے منفی اثرات کو رو کا جا سکے تو یہی ان کی خدمت ہو گی۔پابندی کا مطالبہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب ہم اس کے نقصانات پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
زندگی کے بارے میں ہمارا عمومی رویہ اصلاح طلب ہے۔ہم اسے متقی سمجھتے ہیں جس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہ دیکھی گئی ہو۔نیکی ہمارے نزدیک زندگی کی زینتوں سے کنارہ کشی کا نام ہے۔مذہب کی وہ تعبیر ہمیں زیادہ متاثر کر تی ہے جس میں لوگ جان ہتھیلی پہ لیے پھریں۔غربت و عسرت کو ہم اللہ کا انعام سمجھتے ہیں۔ہمارے خیال میں اللہ والا وہ ہے جو مادی ترقی کی کوشش نہ کرتا ہواور زندگی کی آسائشوں سے دور رہتا ہو۔اس طرح تفریح کی ہرصورت ہمارے فلسفے میں لہو ولعب ہی کا دوسرا نام ہے۔فنونِ لطیفہ کے بارے میں ہمارا رویہ مخالفانہ بلکہ دشمنانہ ہے۔کاش کوئی جان سکے کہ اس خود اذیتی سے ہم نے سماج کو کتنا نقصا ن پہنچایا ہے۔ہر لطیف جذبہ مر رہا ہے اور زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔
سماج انسانی رویوں کا مظہر ہو تا ہے۔انسانوں کے ہاں لطیف جذبات اگر مر جا ئیں تو معاشرہ جنگل سے قریب تر ہو تا ہے۔ایثار، محبت، بھائی چارہ، برداشت،رواداری،یہ سب اقدار ختم ہو جاتی ہیں،ان کی جگہ معاشرہ عدم برداشت، خود غرضی، بے نیازی اور ظلم جیسے رذائل کا مرکز بن جا تا ہے۔مثبت اقدار اسی وقت پنپ سکتی ہیں جب انسانوں میں لطیف جذبات زندہ ہوں۔مزاج میںیہ لطافت اُس وقت پیدا ہو تی ہے جب انسان کا جمالیاتی ذوق زندہ ہو اوروہ زندگی کی خوب صورتی کو محسوس کر سکتا ہو۔جمالیات کی آبیاری فنونِ لطیفہ سے ہوتی ہے۔یہ زندگی کے نازک تاروں کو چھیڑتے ہیں اور پیارکا نغمہ گونجنے لگتا ہے،یہ رنگوں کو بکھیرتے ہیںاورتصویرناطق ہو جا تی ہے۔یہ مٹی کے گارے کو اپنی انگلیوں کا رچاؤ دیتے ہیں تو خیال مجسم ہو جا تا ہے۔دنیا کا کوئی سماج ،اسی
لیے ان فنون سے بے نیاز نہیں رہا جو انسانی جمالیات کی تعمیر کرتے ہیں۔اسی پر تہذیب کھڑی ہو تی ہے اور انسان کا سماجی ارتقاہوتا ہے۔ مولا نا ابوالکلام آزاد جمنا کے کنارے ، تاج محل کی چھت پر بیٹھ کرستار نہ بجاتے تو شاید ان کے لکھے الفاظ اتنے مترنم نہ ہوتے۔الفاظ میں چھپی موسیقی کو وہ اُسی وقت دریافت کر پائے جب انہوں نے اس فن کو جانا۔جس طرح ایک ماہر مو سیقار سروں کو ترتیب دیتا اور ایک دل آ ویز نغمہ تخلیق کرتا ہے، اسی طرح مو لانا آزاد الفاظ کے سروں کو جمع کرتے اور 'غبارِ خاطر‘ مرتب کر دیتے ہیں۔فونِ لطیفہ سے بے نیاز کوئی قلم کار ایسا شاہکار نہیں دے سکتا۔تہذیب اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔
لطیف جذبات کی آبیاری کا کام تہوار بھی کرتے ہیں۔موسم بدلتا ہے تو انسان کا مزاج بھی تبدیل ہو تاہے۔وہ اس کا اظہار کرتاہے۔اس اظہار کے مختلف اسالیب ہیں،ایک اسلوب کا نام بسنت ہے۔اللہ کے رسول ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے مقامی لوگوں کے بارے میں جا نا کہ ان کے تہوار ہیں تو مسلمانوں کو دوتہوار دیے۔۔۔عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔مسلمان ان پر جس طرح اظہارِ مسرت کرتے تھے، سیرت و حدیث کی کتابوں میں ان کی تفصیلات مو جود ہیں۔اسی طرح اسلام جہاں بھی گیا، مقامی تہوار باقی رہے،اگر ان میں کوئی بات دین کی بنیادی تعلیم کے خلاف نہیں تھی۔ ایران اور افغانستان میں آج بھی نو روز کا تہوار منا یا جا تا ہے جو اسلام سے صدیوں پہلے سے رائج ہے۔آج ہم سعودی عرب سمیت کسی عرب سفارت خانے کی تقریب میں جائیں، عرب موسیقی کی دھنیں بج رہی ہوتی ہیں اورعرب فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔
ہمارا سماج بدقسمتی سے لطافت سے محروم ہو گیا ہے۔مذہبی تعبیر سے لے کر سماجی رویے تک، ہر جگہ سختی ہے،عدم برداشت ہے اور دوسروں کو واصلِ جہنم کرنے کی بے قابو خواہش ہے۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تعلیمی نصاب سے لے کر سماجی اداروں تک، کہیں جمالیاتی ذوق کی آب یاری کا کوئی اہتمام نہیں۔یہ ذوق فنونِ لطیفہ سے پیدا ہوتا، تہواروں میں پرورش پاتا اورادب میں پنپتاہے۔تعلیمی اداروں میں ان تینوں کا گزرہے نہ سماجی سرگرمیوں میں۔اس کے نتیجے میںدل کی سختی اتنی بڑھ گئی کہ جہاں چند افراد ہنستے کھیلتے دکھائی دیں، ہم لٹھ لے کر چڑھ دوڑتے ہیں کہ لہو ولعب کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔چاندنی اگر حرام ہو جائے تو پھر صرف اندھیرا باقی رہ جائے گا۔
مجھے خوشی ہوئی کہ پنجاب حکومت نے ایک متوازن قدم اٹھایا ہے۔اس نے ایک تہوار پر پابندی لگانے کے بجائے اس کے سوئے استعمال کو روکنے کی کوشش کی ہے اور یہی اس وقت ہماری ضرورت ہے۔ اگر ہم اس کا اطلاق فنونِ لطیفہ پرکر سکیں تواس سے سماج کے جمالیاتی ذوق کو بیدار کیا جا سکتا ہے۔یہ بیدار ہوجائے تو پھر توازنِ فکر و عمل کے لیے شاید ہمیں زیادہ محنت نہ کر نا پڑے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved