میری طرح اکثرلوگوں کے ساتھ یہ ضرورہوتاہوگا کہ اگر ان کواپنے جانے پہچانے یا بچپن اور لڑکپن کی یادوں سے مزین اپنے آبائی شہریاگائوں میں دس بیس برس بعد جانے کا اتفاق ہو تو اس شہر، قصبے یا گائوں کو دیکھتے ہی انہیں پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ پرائے ہو گئے ہیں۔ وہ شہر، قصبہ اور یادوں میں بسی ہوئی اس کی گلیاں، چوک، گھر اور چوبارے کہیں بہت آگے نکل گئے ہیں اورآپ کہیں پیچھے کھڑے ہیں۔جب بھی مجھے اپنے آبائی قصبے میں جانے کا مجھے اتفاق ہوتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ میں کسی اجنبی جگہ پرآ گیا ہوں۔ ہم جیسے لوگ جو پاکستان بننے سے ایک دو سال پہلے یا بعد پیدا ہوئے اور میٹرک کرنے کے بعد مزید تعلیم یاتلاش معاش کے لیے کسی دوسرے بڑے شہر یا بیرون ملک منتقل ہو گئے توجب کبھی وہ اپنے آبائی شہر، قصبے یا گائوں میں جاتے ہیں توان کی جنم بھومی ان کے لیے اجنبی ہوچکی ہوتی ہے۔ نہ وہ عمارتیں نہ وہ لوگ اور نہ ہی وہ رستے اور گلیاں!اجنبی چہرے اور اپنی طرف اجنبی نظریں اٹھتی دیکھ کر عجیب کیفیت ہوجاتی ہے۔
ایسے میں میرا ذہن چالیس پچاس برس پیچھے اپنی یادوں کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے سوچنے لگتاہے۔۔۔ کہاں وہ کھلا کھلا سا بازار، کھلی کھلی کچی سڑکیں، نیم پختہ تنگ گلیوں والا قصبہ، ایک سرے سے دوسرے تک ہرفرد ایک دوسرے کے حسب و نسب سے واقف اورکہاں اب تنگ سڑکیں، دور دور تک پھیلی ہوئی اونچی نیچی عمارتیں، بیشتر ان جانے لوگ جہاں چلنا پھرنا دشوار ہوچکا ہے۔ قصبے سے ایک میل دور بہتی کٹورہ نہر جو صبح کی سیر اور پڑھنے والوں کو تنہا اور خاموش فضا فراہم کرتی تھی ،اب اپنے چاروں طرف پھیلی آبادی اور بے تحاشا ٹریفک کے شور سے اٹی پڑی ہے ۔۔۔ کھیل کے وہ میدان جو ہر وقت نوجوانوں سے بھرے ہوتے تھے ، اب خالی خالی سے لگتے ہیں۔ چالیس پینتالیس سال قبل قصبے میں کھیلوں کو فروغ دینے والے حاجی سیف اﷲ زرگر کو دیکھتے ہی ان کے لیے دعائیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ انہوں نے نوجوانوں کو کھیلوں کی طرف راغب کرنے کے لیے کُھڈیاں میں کر کٹ کی بنیاد رکھی اور اس کے لیے اپنی جیب سے وسائل استعمال کیے ۔ اب وہ ٹانگوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں اورکافی بوڑھے ہو چکے ہیں لیکن ان کی یہ روایت ان کے بیٹے حاجی محمد اشرف نے سنبھال لی ہے۔اﷲ اس گھرانے کو ہمیشہ خوش اور آباد رکھے ۔
کُھڈیاں شہر کے بالکل درمیان میں کوئی تین ایکڑ جگہ خالی ہے جہاں چالیس سال قبل ایک وسیع ہسپتال تھا۔ یہ کُھڈیاں اور اس کے نواح میں آباد کوئی130دیہات کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں دیا کرتا تھا۔اس کا انچارج ایک ایل ایس ایم ایف ڈاکٹر ہوا کرتا تھا۔اس میں ایک آپریشن تھیٹر بھی تھا لیکن آج یہ ویران پڑا ہے۔ اگر حکومت پنجاب کے خادم اعلیٰ جناب شہباز شریف توجہ دیں تو اس جگہ کم از کم پچاس بستروں پر مشتمل ایک بہترین ہسپتال بنایا جا سکتا ہے۔ اگر صوبائی حکومت وعدہ کرے تو بیرون ملک مقیم پاکستانی جن سے میری بات ہو چکی ہے ،اس کار خیر میں حصہ لیتے ہوئے شہباز شریف کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ میں حکومت پنجاب کا اس سلسلے میں مثبت جواب کا منتظر رہوں گا ۔
لاہور سے پاکپتن ریل گاڑی سے سفر کرتے ہوئے جب اپنے قصبے کے ریلوے اسٹیشن پر اترتے تھے تواس کی خوبصورت عمارت قصبے کی شان میں اضافہ کرتی تھی ، لیکن1971ء کی جنگ میں بھارتی ہوائی جہازوں کی بمباری سے یہ اس قدر تباہ ہو گیا کہ اس کا نام و نشان مٹ کر رہ گیا، اس کی جگہ اب ایک چھوٹی سی عمارت کو ریلوے اسٹیشن کا نام دے دیا گیا ہے۔ میرے قصبے کے اس ریلوے اسٹیشن سے شہر کی طرف داخل ہونے والا ریل بازار جہاں چند ایک ہی دکانیں تھیں اب بھر بھرا نظر آتا ہے۔ قصبے کے اردگرد کے ایک سو سے زائد دیہات کا واحد خریداری مرکز ''مین بازار‘‘ جس کا دامن اس قدر وسیع تھا کہ اس میں سے گزرتے ہوئے تنگی کا احساس نہیں ہوتا تھا آج اپنی آب وتاب کھو چکا ہے ، اس کی جگہ قصوری بازار، محلہ بلوچاں سے لاری اڈہ اور کمیٹی چوک سے پولیس تھانہ اور پرانی امام بارگاہ اور سرکلر روڈ کی جگہ دکانوں والی سڑک بن چکی ہے ۔کھڈیاں خاص کا لاری اڈہ جہاں پچاس سال قبل صرف پہلوان شریف کا ہوٹل ہوا کرتاتھا، اب لاری اڈے کی طرف جانے والی سڑک کے دونوں طرف ایک کلومیٹر تک ورکشاپوں ، دکانوں اور ہوٹلوں کا راج ہے ۔
کُھڈیاں خاص کے سامنے کھڑا تصور ہی تصور میں چالیس سال پیچھے دیکھتا ہوں تو اس کے چاروں طرف جوہڑ ہی جوہڑ نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھار جب ہمارے ہائی سکول کے استاد تاریخ اور جغرافیہ پڑھاتے ہوئے جزیروں کی باتیں کرتے ہوئے ان کی ہیئت ترکیبی بتاتے تو ہمیں یہی محسوس ہوتا کہ ہمارا قصبہ کھڈیاں خاص بھی تو ایک جزیرہ ہی ہے جو چاروں طرف سے جوہڑ وں میں گھرا ہوا ہے لیکن آج جب چشم تصور سے جوہڑوں کے وہ نظارے ایک جھٹکے سے ٹوٹتے ہیں تو ان کی جگہ دور دور تک بلند عمارتیں ہی نظر آتی ہیں۔ اپنے گھر کے سامنے خالی کھلے میدان میں ایک چھوٹا سا درخت اور اس سے چند گز پرے ایک گھنا، وسیع اور پرانا درخت
اپنی ٹھنڈی چھائوں کی طرف کھینچنے لگتا تھا۔ اس وقت کھڈیاں خاص میں بجلی نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ تپتی دوپہر میں جب سکول تین ماہ کی چھٹیوں کے لیے بند ہوتے تھے تو اسی بڑھ کے درخت کے سائے میں آدھے سے زیا دہ قصبہ جن میں عورتیں مرد اور بچے سبھی شامل ہوتے تھے پناہ لیتے تھے ۔ بڑھ کے اس بہت بڑے درخت کے سائے کو ایک بڑے سے کنویں کی دیوار نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا، ایک حصے میں لڑکیاں اور ہر عمر کی عورتیں بیٹھی کروشیا سے کپڑوں کی کڑھائی سلا ئی یا چنگیریں اور ٹوکریاں بناتی تھیں اور چارپائیوں کے ساتھ باندھے ہوئے کپڑے کے جھولوں میں ننھے منے بچوں کو جھولے دیتے ہوئے سلا دیتی تھیں ۔ دیوار کی دوسری طرف لڑکوں اور مرد وں کی مختلف ٹولیاں تاش، پانسہ اوربارہ ٹانی جیسے فرشی کھیلوں میں مصروف ہوتی تھیں۔ اس وقت کے لوگ میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ قصبے کے لوگ جب اچانک کسی طرف سے لال رنگ کی آندھی اٹھتے دیکھتے تو پورا قصبہ پکاراٹھتا تھا کہ کہیں کوئی قتل ہو گیا ہے اور پھر کوئی ایک گھنٹے بعد بہت سے لوگ چارپائی اٹھائے ہمارے قصبے کے پولیس اسٹیشن یا ہسپتال کی طرف آتے دکھائی دیتے تو پتا چلتا کہ فلاں گائوں کا کوئی آدمی قتل ہو گیا ہے، لیکن آج ایک ایک دن میں کئی ڈاکے اور قتل ہوتے ہیں اور آندھی تو دور کی بات ہے پتا تک نہیں ہلتا۔افسوس،میرا قصبہ منشیات کے گڑھ میں بدل چکا ہے، ہیروئین اور چرس اب اس قصبے سے پورے ضلعے میں تقسیم ہوتی ہے۔