تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     24-12-2013

حکومت بناؤں یا کرسی کو لات ماروں؟

چھوٹا قد‘ بنیا مونچھیں‘ روایتی فلمی کردار منشی منقہ جیسا حلیہ‘ تیزرفتارتکلم‘جوش خطابت سے خالی لہجہ اور کسی طرح کی بناوٹ‘ رکھ رکھائو اور لیڈروں جیسے طور اطوار سے محروم ایک شخص‘ جو دیکھنے میں ہیڈکلرک لگتا ہے‘ بھارت کے اس صوبے کا وزیراعلیٰ بننے جا رہا ہے‘ جس کا بڑا حصہ بھارتی دارالحکومت پر مشتمل ہے اور اس میں گردونواح کی آبادیاں بھی شامل ہیں۔ اس نے صرف ایک سال پہلے ''عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے ایک جماعت منظم کی۔ جس کا سب سے زیادہ مخالف خود اس کا اپنا لیڈر انا ہزارے ہے‘ جس کے سائے میں وہ شخص نمودار ہوا۔ اس کے ترجمان کی حیثیت سے متعارف ہوا۔ میڈیا نے اسی حیثیت سے‘ اسے اہمیت دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اناہزارے کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ‘ وہ اپنے خیالات کا اظہار بھی کرنے لگا۔ انا ہزارے کو شک ہوا کہ یہ شخص سیاست کی طرف جا رہا ہے اور ان کا نام استعمال کر کے اپنی پارٹی بنانے کے چکر میں ہے۔ اناہزارے نے فوراً ہی اپنی غیرسیاسی حیثیت کو بچانے کے لئے‘ اروند کچری وال کے خیالات سے اختلاف شروع کر دیا اور پھر باربار وضاحت کی کہ اس کی بنائی ہوئی سیاسی پارٹی سے ‘ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہ انتھک منشی منقہ‘ اپنی دھن میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ دلی کے گلی کوچوں میں گھستا گیا۔ محلے کے کسی معزز‘ سیٹھ‘ لیڈر یاکسی بھی ادارے کا ممبر منتخب ہونے والے لوگوں سے گریز کرتا ہوا‘عام آدمی کے پاس گیااور جس کو ملا‘ اسے ایک ہی بات سمجھائی کہ'' دلی کی حکومتیں چلانے والی سیاسی پارٹیاں بی جے پی اور کانگریس دونوں چور ہیں۔ دونوں اپنی اپنی باریاں لگاتے ہیں۔ دونوں کرپٹ ہیں۔ دونوںایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیتے ہیں۔ دونوں کو عام آدمی کے مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ عام آدمی کا ذکر وہ دھوکہ دینے کے لئے کرتے ہیں۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں‘ اس کے مطلب سے انہیں کوئی غرض و غایت نہیں ہوتی۔حکومت پر قابض ہونے کے بعد وہ صرف اپنے طبقے کے مفادات آگے بڑھاتے ہیں۔ عام لوگوں کی قسمت بدلنا‘ ان لوگوں کا مقصد نہیں۔ اگر آپ ‘ اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں‘ تو حکومت کا کنٹرول خود حاصل کریں۔‘‘
کچری وال خوانچے والوں‘ ریڑھی والوں‘ چھوٹے دکانداروں‘ گلی میں جھاڑو دینے والے خاکروبوں‘ بھکاریوں‘ سبزی کی دکان پر کھڑے کلرکوں‘ مزدوروں اور خود سبزی فروشوں سے جب یہ باتیں کرتا‘ تو یہ لوگ اسے دیوانہ سمجھ کر ہنستے تھے۔ مگر کچری وال ‘ انسانی کچرے سے مایوس نہیں ہوا۔ وہ بار بار ان کے پاس جا کر اپنی باتیں دہراتا رہا۔ اس کی باتیں سن کر طنزیہ ہنسی ہنسنے والے آہستہ آہستہ توجہ دینے لگے۔ اس کے خیالات پر تبصرے کرنے لگے اور پھر یہ پوچھنے لگے کہ ''میںحالات کیسے تبدیل کرسکتا ہوں؟‘‘ اور وہ جواب میں پوچھتا کہ ''میں حالات کیسے بدل سکتا ہوں؟ یہ کام تو آپ لوگوں کا ہے۔ آپ خود نہیں کریں گے‘ تو میں کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘ اور پھر وہ انہیں بتانے بیٹھ جاتا کہ اپنے کام تم لوگوں کو خود کرنا پڑیں گے اور پھر وہ ان کے روزمرہ کے مسائل انہی کے سامنے دہرانے لگتا۔ آپ لوگوں کو ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملتا۔ کیا حکومت‘ یہ گارنٹی نہیں دے سکتی کہ وہ آپ کو کم از کم ضرورت کا پانی ضرور مہیا کرے گی؟ مثلاً اگر مہینے میں آپ کو 700لیٹر پانی ملنے لگے‘تو کیا آپ کی مشکل حل نہیں ہو جائے گی؟ آپ کو 24گھنٹے بجلی نہیں ملتی اور اس کا بل بھی بہت زیادہ دینا پڑتا ہے۔ اگر آپ کو بجلی مسلسل ملنے لگے اور اس کا بل بھی آدھا ہو جائے‘ تو کیا آپ کی زندگی آسان نہیں ہو جائے گی۔ سرکاری محکموں کی کرپشن نے‘ آپ سب کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ سارے شہری محکمے لوٹ مار کرنے میں لگے ہیں۔ ایک خوانچے والے کو اپنے بچے بھی پالنا ہوتے ہیں اور شہری محکموں کے رشوت خوروں کے پیٹ بھی بھرنا ہوتے ہیں۔ آپ جو کمائی اپنے بچوں کے لئے کرتے ہیں‘ کیا اسے سرکاری لٹیروں سے بچا نہیں سکتے؟ اس کی باتیں سن کر ان کے اداس چہروں اور امیدوں کی چمک سے محروم آنکھوں میں‘ زندگی کی آس ٹمٹمانے لگتی اور وہ پوچھنے بیٹھ جاتے کہ ''پھر ہم کیا کریں؟‘‘ اور کچری وال انہیں بتانے بیٹھ جاتا کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔ 
بھارت میں انتخابات مسلسل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی پنچایت کے۔ کبھی بلدیاتی اداروں کے۔ کبھی صوبائی اسمبلیوں کے اور کبھی قومی اسمبلی کے۔ ہر انتخابی لہر میں سیاسی پارٹیاں نئے نئے خواب اور نئی نئی امیدوں کے گلدستے سجا کر‘ انتخابی مہم میں اترتیں اور جو خواب فروشی کے فن میں دوسروں پر سبقت لیتا‘ اسے حکومت بنانے کا اختیار مل جاتا۔ مگر جس طرح یہ سیاسی جماعتیں‘ انتخابی میدان میں ایک جیسے وعدے کر کے حکومتیں بنانے کے لئے ووٹ بٹورتی ہیں‘ اسی طرح حکومتیں بنانے کے بعدلوٹ مار کا سلسلہ بھی وہیں سے شروع کر دیتی ہیں‘ جہاں پچھلی حکومت چھوڑ کر جاتی ہے۔ بھارتی عوام بھی دنیا کے دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے عوام کی طرح‘ لوٹ مار کے بار بار دہرائے گئے سلسلوں سے اکتائے ہوئے ہیں۔ کچری وال انہیں غورو فکر اور سوچ بچار کی دعوت دے کر ایک ہی بات کہتا رہا کہ ''آپ لوگ 66 سال سے بار بار ووٹ دے رہے ہیں۔ ایک ہی طرح کے خواب دیکھ کر‘ ایک ہی طرح کے لوگوں کو منتخب کرتے آ رہے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے مختلف نہیں نکلا۔ چہرے اور نسلیںبدلتی گئیںاو ر لوٹ مار میں اضافہ ہوتا گیا۔ آپ کی قسمت کسی بھی دور میں نہیں بدلی۔ ملک کا نظم و نسق چلانے والے امیر سے امیرتر ہوتے گئے۔ ان کے سرمایہ دار سرپرستوں کی دولت کے ڈھیر بڑے سے بڑے ہوتے گئے۔ کرپشن کرنے والوں کی آمدنی اور اختیار میں اضافہ ہوتا گیا اور آپ کی آمدنی گھٹتی چلی گئی۔ آپ نے جتنی بار بھی ووٹ دیا‘ اتنی ہی بار آپ کے خسارے میں اضافہ ہوا۔ اگر ایک مرتبہ آپ تجربے کی خاطر ہی سہی‘ اپنا ووٹ‘ اپنے جیسے لوگوں کو دے کر دیکھ لیں گے‘ تو کیا فرق پڑے گا؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ آپ کے حالات پہلے جیسے ہی رہیں گے۔ اس کا تجربہ آپ مسلسل کرتے آ رہے ہیں۔ ایک بار کسی اپنے جیسے غریب کو ووٹ دے کر بھی تجربہ کر لیں۔ ہو سکتا ہے یہ تجربہ کامیاب ہو جائے۔‘‘ روایتی سیاسی پارٹیوں سے مایوس لوگوں میں کچھ ایسے بھی تھے‘ جو کچری وال کے ساتھ ہوتے گئے۔ اگر انا ہزارے‘ کچری وال کی سیاست سے لاتعلقی کا اظہار نہ کرتے‘ تو اس کی کامیابی کا امکان زیادہ تھا۔ اپنے لیڈر کی طرف سے اعلان لاتعلقی کے باوجود‘ کچری وال اپنے جنون کے سہارے آگے بڑھتا رہا۔ اس نے اپنی پارٹی کا نام بھی ''عام آدمی پارٹی‘‘ رکھا اور عام آدمیوں کو ہی ساتھ ملاتا رہا۔ میڈیا نے اسے گھاس نہیں ڈالی۔ روایتی سیاسی گھرانوں میں سے کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ غریب لوگ‘ جو دوسری سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں دریاں بچھانے اور صفائی کے لئے استعمال ہوتے تھے‘ انہیں خود سیاسی عمل میں حصہ لینے کا موقع ملا‘ تو جوش خروش میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دلّی میں دو ہی بڑی سیاسی پارٹیاں حکومتیں بناتی رہی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہی دونوں کے درمیان مقابلہ تھا۔ عام آدمی پارٹی کسی شمار وقطار میں نہیں تھی۔ کچری وال کا ذکر بھی آتا‘ تو لیڈر حضرات تحقیرآمیز انداز میںاسے نظرانداز کر دیتے۔ کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں عام آدمی پارٹی‘ موضوع بحث ہی نہ بنی۔ بحث صرف اس بات پر ہو رہی تھی کہ شیلاڈکشٹ جو تین مرتبہ وزیراعلیٰ بن چکی ہیں‘ کیا وہ چوتھی مرتبہ کامیاب ہو جائیں گی یا بی جے پی پھر سے دہلی میںحکومت بنائے گی؟ جب انتخابی نتائج آئے‘ تو ماجرا ہی اور ہو گیا۔ تین مرتبہ فیصلہ کن اکثریت حاصل کرنے والی کانگریس کا صفایا ہو گیا اور وہ صرف 8نشستیں حاصل کر پائی۔ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر آئی مگر اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ اسے 32نشستیں ملیں اور عام آدمی پارٹی نے جو کسی گنتی میں نہیں تھی‘ 28نشستیں لے کر سب کو حیران کر دیا۔ کل 70نشستوں کی اسمبلی میںحکومت بنانے کے لئے 36ممبروں کی حمایت درکار ہے۔ چونکہ عام انتخابات آنے والے ہیں‘ اس لئے بی جے پی بدنامی سے دامن بچا رہی ہے۔کانگریس کے پاس اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ حکومت سازی کا تصور کر سکے۔ اس کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ باہر بیٹھ کر بی جے پی کو آگے بڑھنے سے روکے اور دوبارہ الیکشن کا راستہ بھی بند رکھے تاکہ وہ عام انتخابات کی تیاریاں کر سکے۔ اس نے باہر بیٹھ کر عام آدمی پارٹی کی حمایت کا اعلان کر دیا اور پھر کچری وال نے یہ فیصلہ سڑک چھاپ لوگوں پر چھوڑ کر انہیں دعوت دی کہ وہ حکومت سازی کا فیصلہ کریں۔ پانچ چھ دن لالو‘ رامو‘ رمظو‘ جگومسیح اور بھورا سنگھ صبح سویرے گھر سے یہ کہتے ہوئے نکلے ''آج میں دیہاڑی نہیں لگائوں گا۔ آج مجھے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم دلی کی حکومت بنائیں یا کرسی کو لات مار دیں؟ ‘‘ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved