چوتھی عالمی ادبی کانفرنس کی کامیابی کے ڈنکے بجا کر ابھی فارغ ہوئے ہی تھے کہ عطاالحق قاسمی نے الحمرا کے کھچا کھچ ہال نمبر ایک میں اپنے ساتھ منعقدہ شام بعنوان ''بزبانِ قاسمی‘‘کے دوران سب کو ہنسا ہنسا کر بے حال کر دیا۔ اب تین سال کی بندش یا التواء کے بعد اس کے پرچے ''معاصر‘‘کا موٹا تازہ شمارہ شائع ہو کر موصول ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی کہ اب یہ ہر تین مہینے بعد باقاعدگی سے شائع ہوا کرے گا ؎
تری آواز مکّے مدینے
کوئی ساڑھے چار سو صفحات پر پھیلی ہوئی اس یاد گار دستاویز کی قیمت 600روپے رکھی گئی ہے جس کی ادارت میں امجد طفیل اور علی عثمان قاسمی بھی شامل ہیںاور جس کا انتساب عطا کے علمی ،ادبی ، جمالیاتی اور سیاسی ذوق کے حامل دوست محمد افتخار بٹ (دوبئی) کے نام ہے۔ پرچہ خوبصورت ٹائٹل سے مزیّن ہے لیکن آرٹسٹ کا نام کہیں درج نہیں ‘نہ ہی یہ چیف ایڈیٹر کے زورِقلم کا نتیجہ ہو سکتا ہے‘جبکہ معاصر دوستوں کی تفصیل اس طرح سے ہے:ملک محمد عثمان (بحرین)،چودھری تنویر الحسن(دبئی)،محمد عتیق (دوحہ/قطر)،عبدالحمید المفتاح (دوحہ/قطر)اور احسان شاہد (برطانیہ) ۔
فہرست کے مطابق رسالے میں حمدو نعت‘مقالات‘عالمی ادب ‘غزلیں‘افسانے‘گوشۂ احمد ندیم قاسمی‘ گوشۂ عامر سہیل‘ مضامین‘نظمیں‘منظوم تراجم‘ طنزو مزاح ‘پھر غزلیں اور نثری نظمیں شامل ہیں۔ لکھنے والوں میں بالترتیب حفیظ الرحمان احسن ‘ریاض حسین چودھری‘ علی رضا‘عطا الحق قاسمی‘ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال‘حیدر طباطبائی‘ قیصر تمکین‘ ڈاکٹر شکیل انجم‘آصف فرخی‘ محمد حمید شاہد‘ڈاکٹر ناصر عباس نیّر‘انور شعور‘یہ خاکسار‘روحی کُنجاہی‘سید مشکور حسین یاد‘ صابر ظفر‘ علی اکبر عباس‘ نصرت صدیقی‘ کرامت بخاری‘ عقیل عباس جعفری‘ عباس تابش‘ ایوب ندیم‘ مسعود اشعر‘ محمد سعید شیخ‘ گلشن کھنّہ‘ سلمیٰ اعوان‘ ڈاکٹر عدیل احمد‘ صنوبر صباء‘ دستگیر شہزاد‘ امجد طفیل‘ شاہد حمید‘ محمد اظہر شریف‘ فتح محمد ملک‘ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ محسن احسان‘ ڈاکٹر علی محمد خان‘ افضل توصیف‘ غلام حسین ساجد‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن ‘محمد اظہر مسعود‘ مظہر سلیم مجوکہ‘ روبینہ ناز‘ اسلم انصاری‘ زاہد مسعود‘ شفیق احمد خان‘ غافر شہزاد‘ ڈاکٹر کوثر محمود‘ حسن عباسی‘ ابرار ندیم‘ شاہد زبیر‘ ناز بٹ‘ عارف وقار‘ حافظ مظفر حسن‘ حمیدہ شاہین‘ ڈاکٹر صغریٰ صدف‘ سید نوید حیدر ہاشمی‘ تصدق شعار‘ سید فہیم الدین‘ ثمینہ سید‘ ملکہ نسیم‘ حنا انور‘ رضیہ غزل‘ ڈاکٹر شبنم عثائی‘ تن دیپ تمنا(کینیڈا) اور جینت پرمارشامل ہیں۔
میں نے احتیاطاً سب کے سب لکھنے والوں کے نام درج کر دیے ہیں تاکہ یہ نہ ہو کہ کسی کا نام رہ جائے اور وہ لٹھ لے کر میرے پیچھے پڑ جائے جبکہ میں لٹھ برداروں کی زد میں اکثر و بیشتر آتا بھی رہتا ہوں‘ اور‘ دوسرے یہ کہ ان خواتین و حضرات کے ناموں سے آپ کو اندازہ ہو جائے کہ یہ تحریریں کس معیار کی ہوں گی۔ ان نگارشات پر طبع آزمائی اس لیے نہیں کی گئی کہ ایک تو یہ بہت مشکل کام ہے اور دوسرے اس کالم میں اتنی گنجائش بھی نہیں ہے کہ میں ان پر تبصرہ کرنے بیٹھ جائوں جبکہ یہ کام مزید خطرناک ہے‘ اور ‘اس کالم میں آپ کو یہ اطلاع دینا ہی مقصود تھی کہ یہ رسالہ بالآخر شائع ہو گیا ہے‘ کر لو جو کرنا ہے۔کچھ مضامین ویسے بھی کافی خطرناک ہیں‘ جن میں قیصر تمکین کا مضمون ''فکشن کیوں؟ ‘‘ بطور خاص شامل ہے جس میں موصوف نے فکشن کی برتری ثابت کرتے ہوئے شاعری کو حسبِ توفیق پچھاڑا ہے بلکہ ہمارے محبوب فکشن رائٹر انتظار حسین پر بھی ہاتھ صاف کر گئے ہیں ؎
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
اب اس شمارہ میں شامل غزلوں میں سے کچھ اشعار آپ کے تفنن طبع کے لیے پیش ہیں‘ اپنے دوست قیصر تمکین سے انتہائی معذرت کے ساتھ:
قریب و دُور کوئی دوسرا نہیں یا رب
کسی کو بھیج کہ یکتائی ہو رہی ہے بہت
ہجوم دیکھ کے بازار میں یہ لگتا ہے
کہ مفلسی ہے نہ مہنگائی ہو رہی ہے بہت
وہ نظر جس نے مجھے چھوڑ دیا تھا آزاد
زندگی بھر میں اُسی کی نگرانی میں رہا
میں نے پھیلائے نہیں ہاتھ کسی کے آگے
کوئی مشغول مگر فیضِ رسانی میں رہا
(انور شعور)
دشواریاں سفر کی رہی ہیں نگاہ میں
رکھ آئے گھر میں خود کو بھی سامان جان کے
(رُوحی کُنجاہی)
ہر فرمائش آئندہ پر ٹالتا ہوں
بچّے مجھ سے جھوٹ بہت بُلواتے ہیں
مجھے اب احتیاطاً خط نہ لکھنا
مرے بیٹے کو پڑھنا آ گیا ہے
وہاں تک تو ہمارے ساتھ چلیے
جہاں تک خوفِ رسوائی نہیں ہے
بہت سستے میں انسان بک رہے ہیں
ہمارے ہاں تو مہنگائی نہیں ہے
(نصرت صدیقی)
پہلے بھی میں خراب تھا‘بیحد خراب تھا
پر ہو گیاہوں آپ سے مل کر خراب تر
(عقیل عباس جعفری)
زندگی تو نے قدم موڑ دیئے اور طرف
اور اندر سے مجھے اور سفر پر رکھاّ
(عباس تابش)
وہ کسی اور داستان سے ہے
اور ہے میری داستان میں بھی
اِدھر ہوتی تھیں پُھولوں کی قطاریں
یہ کس نے راستہ بدلا ہُوا ہے
(عطاالحق قاسمی)
میں جل رہا تھا اپنی تیرگی کی آنچ میں ‘مگر
مجھے پرائی صبح کے نواح میں بُجھا دیا گیا
(زاہد مسعود)
میں ترے کُنجِ تغافل سے نکلتی کیسے
میرا ساماں اسی کونے میں پڑا سجتا ہے
جانے کیا سوچ ہے وُہ جس کی روانی تُو ہے
تُو مری پیاس رہا‘ اب مرا پانی تُو ہے
میرے ناخن کسی دیوار کے اندر ٹوٹے
یہ کہانی کا خُلاصہ ہے ‘ کہانی تُو ہے
(حمیدہ شاہین)
اُدھر جلے ہوئے خوابوں سے اُٹھ رہا تھا دُھواں
اِدھر فلک سے نمودار ہو رہا تھا میں
(نوید حیدر ہاشمی)
آج کا مقطع
دُھندلے بدن میں شام ہوئی تھی جہاں ‘ظفر
اُڑتے ہیں آفتاب کے آثار اُس طرف