تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     25-12-2013

سودی معیشت کا جھوٹ اور مہنگائی

سودی معیشت کا کمال یہ ہے کہ اس کے چلانے والوں نے ایک عالمی معاہدے کے تحت تمام حکومتوں کو جھوٹ بولنے، فراڈ کرنے اور دھوکہ دینے کا مکمل اختیار دے رکھا ہے اور ان کے اس اختیار کو عالمی اور ملکی سطح پر قانونی طور پر تحفظ بھی حاصل کیا ہے۔ اگر ایک شخص کی دکان میں دو لاکھ کا مال ہو اور وہ اس کا سود ا کرتے وقت ایک کاغذ پر یہ تحریر لکھ کر دے کہ اس میں پانچ لاکھ روپے کا مال ہے اور خریدار کی گنتی کرنے پر ایسا نہ نکلے تو فوراً اس پر فوجداری مقدمات کھل جاتے ہیں۔ دھوکہ دہی کی تمام شقیں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ تھانہ، جیل، کورٹ کچہری اور وکیلوں کے چکر لگنا شرو ع ہو جاتے ہیں۔ ایک عام آدمی کے بینک میں اگر ایک لاکھ روپے موجود نہ ہوں اور وہ اس رقم کا چیک لکھ کر دے اور بینک کی زبان میں چیک 'ڈس آنر‘‘ ہو جائے تو وہ ناقابل ضمانت جرم کے تحت جیل کی ہوا کھاتا ہے۔ لیکن اس عالمی سودی نظام کا کمال دیکھیں کہ قومی ریاستوں کو ایسا کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ امریکہ کے شہر بریٹن ووڈز (Bretton Woods) کے ہوٹل ماؤنٹ واشنگٹن میں چوالیس ممالک کے سات سو تیئس نمائندے 22 جولائی 1944ء کو جمع ہوئے۔ جنگِ عظیم دوم کا پانسہ پلٹنے والا تھا۔ 6 جون 1944ء کو نارمنڈی فتح ہو چکا تھا۔ امریکہ اپنی پوری طاقت اور ڈالر کے نشے میں مست پوری دنیا کی کرنسیوں کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا۔ اس کانفرنس میں ایک ایسا معاہدہ کیا گیا جو عالمی مالیاتی نظام کی خشتِ اوّل ہے، اور آج یہ بریٹن ووڈز معاہدے کے طور پر تمام ممالک میں نافذالعمل ہے۔ اس معاہدے کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشی طور پر کسی بھی ریاست کو اقتدار اعلیٰ حاصل نہیں رہا۔ وہ تمام سیکولر نعرے باز جو اللہ کے اقتدار اعلیٰ کے تصور کے مقابلے میں عوام اور ریاست کے اقتدارِ اعلیٰ کا نعرہ لگاتے ہیں، یہ معاہدہ ان کے اس تصور کے منہ پر زوردار تھپڑ کا بدنما نشان ہے۔ اس معاہدے کے تحت تمام اقوام نے اپنی آزادی ایک عالمی ادارے آئی ایم ایف کے ہاتھ گروی رکھ دی ہے۔ کوئی ملک اپنی آزاد اور خود مختار کرنسی نہیں رکھ سکتا۔ ہر کرنسی کی مالیت دنیا بھر کی کرنسیوں کی مالیت کی محتاج ہے۔ ہر ملک کو صرف اور صرف کاغذ کے نوٹوں سے ہی کاروبارِ حکومت چلانے کا پابند کیا گیا ہے۔ آزادی تو اس طرح ہوتی کہ اگر آپ سونے اور چاندی کے سکوں میں کاروبار کرتے۔ سونے اور چاندی کے سکے دنیا بھر میں کسی شرح تبادلہ کے محتاج نہیں ہوتے۔ واشنگٹن، پیرس، ماسکو اور اسلام آباد میں سونا ایک جیسے دام اور شرح رکھتا ہے۔ لیکن اس معاہدے کے تحت حکومتوں کو دوسری حکومتوں سے کاروبار کے لیے کاغذ کے نوٹوں کا پابند بنایا گیا اور ہر ملک کے نوٹوں کی قیمت کو متعین کرنے کے لیے (International Bank of Settlement) قائم کیا گیا۔ اس سودی معیشت کو عالمی سیاسی نظام سے منسلک کرنے کے لیے ٹھیک گیارہ ماہ بعد اور جرمنی کے ہتھیار ڈالتے ہی جون 1945ء میں امریکی شہر سان فرانسسکو میں ایک چارٹر پر دستخط کیے گئے جس کے تحت اقوام متحدہ
کو قائم ہونا تھا۔ یوں اکتوبر 1945ء میں اقوام متحدہ وجود میں آئی اور اب کسی ملک کے پاس سیاسی اقتدار اعلیٰ بھی باقی نہ رہا اور معاشی طور پر تو وہ ویسے بھی غلام بنا لیے گئے تھے۔ محلے کے بدمعاشوں کی طرح پانچ غنڈے اور ان کے چار پانچ درجن حواری ممالک پوری دنیا کی آزادی اور خودمختاری سے کھیلنے لگے۔ جس ملک کی کرنسی چاہتے ہیں بے توقیر بنا دیتے اور جس کی چاہتے ہیں آسمان پر چڑھا دیتے ہیں۔ جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پاس ہوتی ہے اور نیٹو کے 48 غنڈوں کو غریب ملک 
افغانستان پر چڑھ دوڑنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ سے انکار کی یہی قیمت ہے جو پوری دنیا کے ممالک چکا رہے ہیں، لیکن ہر ریاست اس فریب میں مبتلا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اس کے پاس ہے۔ بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت ہر ملک کو اس کے معاشی سائز کے مطابق ایک کوٹہ دیا گیا جس سے اس کے نوٹوں کی قیمت متعین ہوتی ہے۔ آغاز میں اسے کسی ملک کے پاس موجود سونے کے ذخائر کے ساتھ منسلک کیا گیا‘ لیکن ساتھ ہی ملکوں کو قرضوں میں جکڑنے کے لیے کرنسیوں کی قیمتوں کے ساتھ کھیلا گیا۔ 1950ء کے آتے آتے امریکہ گولڈ ریزرو میں اتنا طاقت ور ہو گیا تھا کہ ڈالر کو سونے کا متبادل سمجھا جانے لگا‘ کیونکہ اس کے پاس دنیا کے گولڈ ریزرو کا دو تہائی تھا۔ اب تو بس کاغذ کے نوٹ تھے اور جھوٹ کا کاروبار۔ معاشی ماہرین نے حکومتوں کو معاشی بدحالی اور عالمی منڈی میں خرید و فروخت کو متوازن رکھنے کے بے شمار گُر سکھائے اور پورے نظام کو گورکھ دھندا بنایا۔ اپنی مالی حالت سدھارنے کے گُر ملاحظہ کریں۔ پہلا یہ کہ شرح سود میں اضافہ کرو اور خرچے کم کرو، دوسرا اپنی کرنسی کی قیمت گرا دو، تیسرا برآمدات کم کر دو، اپنے سونے کے ذخائر کی نسبت نوٹ زیادہ چھاپو۔ یہ سب سکھانے کے بعد 1971ء میں رچرڈ نکسن نے ایک نیا حکم نامہ پوری دنیا کے لیے جاری کر دیا۔ پوری دنیا اس لیے کہ سب ملکوں کی کرنسیاں ڈالر کے ارد گرد گھومنے لگی تھیں۔ اس نے کہا کہ اب ہم ڈالر گولڈ ریزرو کے مطابق نہیں چھاپیں گے بلکہ ایک نیا لفظ دنیا کی معاشیات کو دیا گیا کہ کسی ملک کی ساکھ یعنی (Goodwill) اس ملک کی کرنسی کی قیمت کو متعین کرے گی۔ اندازہ کریں کہ 1963ء میں امریکہ کے ذمے بیرونی ممالک کے بینکوں کی جتنی واجب الادا رقم تھی، اس کے حساب سے اس کے پاس سو فیصد سونے کے ذخائر موجود تھے، مگر1971ء کے بعد اس نے دنیا بھر سے کاغذ کے نوٹوں کی صورت اس قدر قرض لیا کہ ا س رقم کے مقابلے میں اس کے سونے کے ذخائر صرف 22 فیصد رہ گئے۔ یعنی پوری دنیا میں ایسے جعلی اور جھوٹے کاغذ کے نوٹ گھومنے لگے جن پر ایک جھوٹی عبارت وعدے کی صورت تحریر ہوتی ہے کہ ہم اس کے بدلے میں سونا، چاندی، گندم یا چاول دیں گے۔ 
یہ وہ سودی بینکاری اور کاغذی معیشت کا تہہ در تہہ جعلی نظام ہے جس کی چکی میں اس دنیا کا عام آدمی پس رہا ہے۔ میرے ملک پاکستان میں تو یہ جھوٹ اور فراڈ کا کاروبار گزشتہ چار دہائیوں سے زوروں پر ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت سونے کے کل ذخائر 318 ارب کے قریب ہیں اور اس مملکت کی ساکھ یعنی (Goodwill) کے تو کیا کہنے، بچہ بچہ جانتا ہے کہ معاشی حوالے سے دنیا میں ہماری کیا عزت ہے۔ لیکن پھر بھی موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے سے پہلے تک ایک ہزار سات سو ارب روپے کے نوٹ چھاپے جا چکے تھے، اور اب موجودہ حکومت روزانہ چھ ارب روپے کے نئے چمکتے اور جھوٹے نوٹ مارکیٹ میں لا رہی ہے۔ ان چھ ارب نوٹوں پر ایک عبارت گورنر سٹیٹ بینک کے دستخطوں سے تحریر ہوتی ہے کہ ''حامل ہذا کو مطالبے پر ادا کرے گا‘‘۔ کیا ادا کرے گا اور کیسے ادا کرے گا، یہ کسی کو نہیں معلوم۔ 18 کروڑ عوام کے بھروسے کو اس طرح مستقل دھوکہ دینا اور ان سے فراڈ کرنا صرف حکومتوں کا ہی کام ہے۔ پوری حکومت ایک ایسے دکاندار کی طرح ہے جس کی دکان میں دو لاکھ کا مال ہے اور وہ پانچ لاکھ کابتا کر فروخت کر رہا ہے۔ اب جس کے ہاتھ میں دو لاکھ کا مال پانچ لاکھ روپے کی قیمت میں آئے گا وہ اسی حساب سے اسے مہنگا بیچے گا۔ اس طرح ٹماٹر، آلو، گوبھی، پیاز، آٹا اور گوشت وغیرہ اور دیگر چیزیں مہنگی ہوتی ہیں۔ یہ مہنگائی گوادر سے گلگت تک یکساں ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کس قدر ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنا تو صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔ پوری دنیا میں جھوٹ اور بددیانتی کا یہ کاروبار چلتا ہے۔ اسے عالمی سودی غنڈہ گردی تحفظ دیتی ہے۔ ذرا سوچیں اگر کوئی شخص‘ گھر میں بیٹھ کر حکومت کی طرح ہی ایک جعلی رسید یعنی کرنسی خواہ ڈالر، یورو اور روپیہ چھاپے تو پوری دنیا سونگھتے سونگھتے اس کے پاس جانکلتی ہے اور اسے عبرت ناک انجام سے دوچار کرتی ہے۔ حالانکہ سونا حکومت کے پاس بھی نہیں اور وہ بھی سونے سے تہی دامن ہے۔ دونوں جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور جھوٹے نوٹ چھاپ رہے ہیں۔ لیکن ایسا فراڈ کرنے، جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کا اختیار صرف حکومت کے پاس ہے۔ 
اس عذاب کی آخری حد بہت خطرناک ہے۔ نوٹوں کی بوریاں بھری رہ جاتی ہیں اور اناج کی بوریاں خالی ہو جاتی ہیں۔ لوگ منافع کے لالچ میں اپنی اشیا بہتر کرنسی کی منڈیوں میں لے جاتے ہیں۔ یعنی کھانے پینے کی چیزیں بیرون ملک جانے لگتی ہیں۔ ہم لوگوں کو تسلی دیتے ہیں کہ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیب، کنو، ٹماٹر، ادرک، گندم باہر جا رہے ہیں۔ اصل میں یہ برآمدات نہیں بلکہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کی بھوک میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن کسی نے بھوکے لوگوں کے طوفان اور غیظ و غضب کا شاید ابھی تک اندازہ نہیں کیا۔ اگر کر لیتے تو کانپ اٹھتے۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں انہیں مستقبل میں صرف بہتے لہو میں ڈوبی گلیاں اور درودیوار ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved