صدر کرزئی کی نیت کچھ بھی ہو، انہوں نے ایک سچے افغان والا رویہ ضروراختیار کرلیا ہے۔وہ امریکہ کے ساتھ آئندہ برسوں کے لیے سکیورٹی کے ایک طویل مدتی دوطرفہ معاہدے (بی ایس اے) پر اپریل 2014ء میں ملک کے صدارتی انتخاب سے پہلے دستخط نہ کرنے پر ڈٹ گئے ہیں۔وہ تاخیری حربے کے طور پر واشنگٹن سے اس یقین دہانی کا مطالبہ کررہے ہیں کہ افغانوں کے گھروں پر چھاپے مارنے اور ڈرون حملوں کا سلسلہ بند اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں مدد فراہم کی جائے گی۔
واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں کچھ فوج رکھنے کی خاطر بی ایس اے (Bilateral Security Agreement)بہت ضروری ہے تاکہ افغان فوج کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھی جاسکیں۔صدر کرزئی کے اپنے موقف سے ہٹنے سے انکار پر امریکی حکومت نے مبینہ طور پر یہ معاہدہ طے کرنے کے متبادل طریقوں پر غور شروع کردیا ہے۔ایک اطلاع کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے برسلز میں نیٹو کے حالیہ اجلاس میں کہا ہے کہ اگر کرزئی اپنی ضد پر قائم رہے تو اس معاہدے پر افغان حکومت کا کوئی دوسرا اعلیٰ عہدیدار بھی دستخط کرسکتا ہے ۔اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ امریکہ اس امکان کو مسترد نہیں کرتا کہ اپریل 2014ء کے آخر تک کی بقیہ صدارتی مدت کے لیے وہ کرزئی کی جگہ کسی دوسرے وفادار شخص کو لے آئے۔
صدر کرزئی کے ترجمان نے اس دھمکی پر تند ردعمل ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ معاہدے پر دستخط کون کرے ، اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکہ افغان عوام کی امنگوں اور مطالبات کا احترام کرتے ہوئے انہیں تسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ مطالبات پورے نہیں ہوں گے صدر کرزئی حکومت کے کسی عہدیدار کو معاہدے پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ صدر کرزئی کا یہ رویہ یقینا امریکہ کے اس سلوک کی پیداوار ہے جو حالیہ برسوں کے دوران ان سے روا رکھا گیا۔ آج وہ ایک بند گلی میں کھڑے ہیں اور شاید تاریخ میں اپنا تاثر درست کرنے کے آروزمند ہیں...بہرحال، دیرآید درست آید۔
واشنگٹن کے خلاف صدر کرزئی کے حالیہ تلخ بیانات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں فرانسیسی اخبار لی موندے کو دیے گئے انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا :''کیا آپ کے خیال میں امریکہ ایک نو آبادیاتی طاقت کی طرح کا طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہے؟‘‘ تو انہوں نے کہا :''یقینا ، امریکی ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہم تمہیں تنخواہیں نہیں دیں گے اور تمہیں خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیں گے۔ یہ سب دھمکیاں ہیں۔ لیکن اگر آپ ہمارے شریک کار بننا چاہتے ہیں تو افغان گھروں کا احترام کریں ،ہمارے بچوں کو قتل نہ کریں۔ ہم افغانوں کی جانوں کے تحفظ اور افغانستان میں امن کے لیے اپنے عزم کا احترام چاہتے ہیں‘‘۔
وہ اس سے زیادہ کیا کھری کھری سناسکتے تھے کہ '' امریکی اور نیٹو فورسز جو اپنے وسائل کے ساتھ یہاں ہیں...امید ہے یہ وسائل صحیح طور پر خرچ ہوئے ہوں گے ،ضائع ہوئے ہوں گے نہ لوٹے گئے ہوں گے...ایک دروازے سے آکر دوسرے دروازے سے نکل رہی ہیں، اگر وہ ہمارے گھروں کی عزت کریں،اگر ان کی موجودگی یہاں امن لائے تو ہم ان کا خیر مقدم کریں گے؛اور اگر وہ افغانوں کے گھروں ، عزت اور سلامتی کی قیمت پر یہاں ہیں اور اگر ان کی موجودگی کا مطلب مسلسل جنگ وجدل ، بمباری اور قتل و غارت ہے تو یہ ناقابل قبول ہوگا۔ہم چند لوگوں کے امیر بننے اور باقیوں کو مرنے دینے کے بجائے پرامن رہنے کو ترجیح دیں گے۔ حضور نہیں،آپ کا شکریہ !‘‘۔
کیا پاکستان میں عمران خان کے سوا کوئی کہہ سکتا ہے...نہیں، شکریہ ؟
کرزئی نے افغان غیرت و تمکنت کے بارے میں بھی بات کی:'' افغان جھکنا نہیں جانتے۔ماضی میں وہ نو آبادیاتی طاقتوں کو شکست دے چکے ہیں۔ افغان باوقار لوگ ہیں اور صرف باعزت تعلقات قبول کریں گے‘‘۔انہوں نے غلط نہیں کہا۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کرزئی نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں جو کہا وہ پاکستانی حکمرانوں کے لیے چشم کشا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے کہہ رہے ہیں: '' دہشت گردی کے خلاف جنگ افغان بستیوں اور افغان گھروں میں ہرگز نہیں لڑی جانی چاہیے۔ اگر یہ جنگ لڑنی ہے تو اس کا رخ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی طرف موڑا جائے جہاں انہیں تربیت دی جاتی ہے اور پالا پوسا جاتا ہے‘‘۔ کرزئی کا اشارہ واضح طور پر پاکستان کی جانب تھا جہاں کوئی بھی ان کی تردید کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔
کرزئی نے جو ایک اور '' انکشاف ‘‘ کیا اس سے حیرت انگیز طور پر افغانستان کے اختتامی کھیل (Endgame)کی کئی اندرونی پرتیں بے نقاب ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ امن عمل میں مدد دینے کے لیے کوئی '' نظر آنے والی اور حقیقی کوشش ‘‘ نہیں کررہا اور '' بعض مغربی طاقتیں‘‘ بھی افغانستان کو کمزور کرنے کے لیے نسلی بنیاد پر تصادم کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس بات کا ثبوت دکھا سکتے ہیں کہ امریکیوں نے یہ افواہ پھیلا کر معاملے کو غلط رنگ دیا کہ طالبان کرزئی کے ساتھ بات چیت کرنے کے مخالف ہیں؛حالانکہ ان کا طالبان سے براہ راست رابطہ ہے اور ان کے بقول وہ افغان امن کونسل کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔
وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ قطر میں طالبان کی طرف سے جاری ہونے والا بیان امریکیوں نے لکھا تھا۔ انہوں نے بالاصرار کہا کہ امن مذاکرات کے لیے قطر کا تعین امریکہ نے کیا تھا لیکن اب قطر ہمارا آپشن نہیں ہے۔ کرزئی نے لی موندے کو جس طرح کے شوخ جواب دیے، نیویارک ٹائمز نے ان سے اسی طرح کا سوال کردیا:'' صدر حامد کرزئی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ دنیا کی واحد سپر پاور جو پچاس اقوام کے اتحاد کی قیادت کررہی ہے اور جو بارہ برس کی جنگ میں 600ارب ڈالر خرچ کرنے کے علاوہ دوہزار سے زائد جانیں گنوا چکی ہے، اس ملک میں مزید قیام کرنا چاہتی ہے لیکن افغان صدر اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں‘‘۔
لی موندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کرزئی نے امریکیوں کے بغیر افغانستان کی بات کرکے اس طرح کا سوال کرنے کی گنجائش پیدا کردی تھی۔ انہوں نے کہا تھا: '' امریکہ کے '' زیرو آپشن‘‘ (امداد کے خاتمے) کے باوجود ہم ایک قوم کے طور پر زندہ رہیں گے۔ ایسا وقت ہمارے لیے کٹھن ہوگا لیکن ہم ایک قوم اور ایک ریاست کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھیں گے‘‘۔ یہ بات دوسرے بدقسمت ملک ، پاکستان پر بھی صادق آتی ہے جس نے امریکہ کا اتحادی بننا پسند کیا اور امریکہ کی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شریک کار اور ہدف بننے یعنی دونوں صورتوں میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھایا۔ اب بھی جب پاکستان اور افغانستان کو ڈومور(do more)کے لیے کہا جاتا ہے ، افغانستان میں امریکہ کے کئی معاملات باقی رہتے ہیں۔
اب کرزئی نے تصدیق کردی ہے کہ امریکہ کے پاس افغانستان کے لیے مذاکرات کی کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے۔ ظاہر ہے‘ وسطی ایشیا کے بڑے کھیل (گریٹ گیم) کی چینی مہم کے لیے واشنگٹن کی اپنی ترجیحات ہیں۔ وہ صرف ایسی سٹریٹیجک صورت حال چاہتا ہے جس میں وہ دسمبر 2014ء تک افغانستان سے واپس جا سکے اور وہ بھی مکمل نہیں۔ جو لوگ افغانستان کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ 2014ء کے بعد کسی بھی نام اور انتظام کے تحت اس ملک میں فوجی طور پر موجود رہنے کا مطلب کیا ہے۔
افغانستان میں کرزئی کم از کم اتنا حوصلہ رکھتے ہیں کہ وہ امریکہ کی ڈبل گیم اور اپنے ملک کی غیرت‘ عزت اور وقار کی بات کر سکیں۔ ہمارے ہاں قوم کی آزادی اور وقار کے لیے کوئی کھڑا ہونے کی جرأت نہیں کرتا۔ایسا لگتا ہے کہ ہم ایسٹ انڈیا کمپنی والے دور کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ ہم میں میسور کے لیجنڈری حکمران (ٹیپو سلطان) جیسا کوئی نہیں رہا۔ ہماری موجودہ حکمران اشرافیہ اس ناسٹیلجیا میں گرفتار ہے کہ ان کے باپ دادا برٹش انڈیا میں کیا کردار ادا کر رہے تھے‘ لہٰذا وہ صحیح معنوں میں آزادی کا تصور کرنے سے معذور ہیں۔ آزادی اور وقار کے احساس سے عاری یہ حکمران ریاست کی خودمختاری کو پہلے ہی گنوا چکے ہیں اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ ''کاروبار اور تجارت‘‘ کے نام پر بھارت کے ساتھ سرحدوں کو بھی ایک غیر متعلق چیز بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)