ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوان کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر لاہور میں جشن کا سماں تھا۔ شریف برادران نے شان و شوکت اور جاہ و جلال سے اپنے ہم منصب کا استقبال کیا۔ ایک دن پیشتر مال روڈ پر مہنگائی مخالف ریلی کی باقیات کو راتوں رات صاف کر کے اس شاہراہ کو رنگین پرچموں اور رنگ برنگ خیر مقدمی بینروں سے سجا دیا گیا۔ انگریز سامراج کے بنائے ہوئے تعلیمی ادارے ایچی سن کے سامنے مال روڈ پھولوں کی پتیوں سے بھر گیا تھا جنہیں ترک وفد کے گزر جانے کے بعد خاکروب کوڑا دانوں میں بھرتے رہے۔ تمام دن لاہور کی سڑکوں پر پولیس کی گاڑیوں کے سائرن گونجتے رہے اور ''وی آئی پی موومنٹ‘‘ جاری رہی جس کی وجہ سے عام شہری ،ٹریفک جام میں ذلیل و خوار ہوتے رہے۔خاص لوگوں کے استقبال کا خرچہ برداشت کرنے والے لاکھوں عوام سردی میں ٹھٹھرتے رہے اور رات گئے تک گھروں کو نہیں پہنچ پائے۔
ترک مہمانوں کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقاریب میں امیر ترین معززین موجود تھے۔ دوپہر کے کھانے کے لئے مہمانوں کو ہیلی کاپٹر پر رائے ونڈ لے جایا گیا۔ شام کے وقت شہر کے مہنگے ترین فائیو سٹار ہوٹل میں پاکستان ترکی بزنس فورم کے تحت ایک تقریب ہوئی جس میں اس دورے کے اصل مقاصد سامنے آئے۔ تقریب میں پاکستان اور ترکی کے وزرائے اعظم کی تقاریر کے علاوہ دونوں ممالک کے وزرائے خزانہ نے بھی اپنے اپنے ملک کے معاشی کارنامے سناتے ہوئے مستقبل کے کچھ سہانے خواب دکھائے۔تقریب کے شرکا کی فہرست ہی اس بات کا ثبوت تھی کہ یہ سفارتی دورہ دراصل دونوں ممالک کے سرمایہ داروں کے درمیان کاروبار اور سودے بازی کو آگے بڑھانے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔ میاں شہباز شریف نے ترکی کے گن گاتے گاتے طیب اردوان کو اپنا استاد قرار دے ڈالا؛البتہ ساتھ ہی ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ استنبول میں میٹروبس کا منصوبہ ڈھائی سال میں مکمل ہوا تھا جبکہ لاہور میں یہ منصوبہ صرف 11ماہ میں مکمل کرکے وہ استاد پر بازی لے گئے۔ میاں نواز شریف صاحب جوش خطابت میں وہ باتیں بھی کہہ گئے جو عام طور پر حکمران سر عام نہیں کہا کرتے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ترکی کے سرمایہ داروں کو پاکستان میں ''سستی‘‘ اور ہنر مند محنت میسر ہوگی، حکومت پاکستان اس سلسلے میں خصوصی معاشی علاقے (SEZ's)بنائے گی جہاں ترک سرمایہ داروں کو ہر قسم کی ضمانت، ''سہولت‘‘ اور تحفظ فراہم ہوگا۔ منافعوں کی بیرون ملک منتقلی پر کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔
ترک وزیر اعظم کا یہ دورہ دراصل پاکستان اور ترکی کے سرمایہ دار طبقات کے منافعوں اور منڈی میں اضافے کی کاوش سے زیادہ کچھ نہ تھا۔بڑے پراجیکٹوں پر بڑی سرمایہ کاری کی پیشکشیں دراصل بڑے منافعوں اور بڑے کمیشن کی غمازی کرتی ہیں۔یہ سب کاروبار ''پاک ترک بھائی چارے‘‘ کی لفاظی کے لبادے میں کیا جارہا ہے اور حکمرانوں کے تجارتی معاہدوں کو ملکی تعلقات و مفادات کا نام دیا جارہا ہے۔پچھلے 67سال سے پاکستان اور چین کی ''ہمالیہ سے بلند دوستی‘‘، عرب ممالک سے ''برادرانہ تعلقات‘‘، امریکہ سے ''سٹریٹجک پارٹنر شپ‘‘ اور ''امت مسلمہ کی یکجہتی‘‘ کے خوشنما الفاظ سن سن کر مفلوک الحال عوام کے کان پک گئے ہیں لیکن ان کی محرومیاں کم نہیں ہوئیں۔
ترکی کے وزیر خزانہ ظفر اولایان نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ وہ ایک صنعت کار ہیں جبکہ طیب اردوان کا تعارف ایک بزنس مین کے طور پر کروایا۔دوسری طرف شریف برادران اور اسحاق ڈار سمیت پاکستان کے موجودہ حکمران بھی تو ملک کے سب سے بڑے سرمایہ داروں میں شامل ہیں۔ ترکی کی بہت سی کمپنیوں میں پاکستانی حکمران حصہ دار ہیں اور موجودہ حکومت میں شامل اہم شخصیات ان کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں۔ انہی کمپنیوںکو پاکستان (خصوصاً پنجاب) میں مختلف ٹھیکے دئیے جارہے ہیں اور جیسا کہ اس دورے سے ظاہر ہے ،آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا۔''غیر ملکی‘‘ سرمایہ کاری کے دعووں کے برعکس یہ کمپنیاں خالی ہاتھ اس ملک میں آتی ہیں، سرکاری ٹھیکے لیتی ہیں، حکومت سے ملنے والے ''موبلٹی چارجز‘‘ سے کاروبار شروع کر تی ہیں، حکومتی بینکوں سے آسان ترین شرائط پر قرضے حاصل کر کے کاروبار کو توسیع دیتی ہیں اور ہوشربا منافع کما کر بڑے پیمانے پر سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرتی چلی جاتی ہیں۔ اس تمام تر کھلواڑ میں پاکستانی حکمران یا تو براہ راست حصہ دار ہیں یا پھر کمیشن ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔سرمایہ کار کسی رنگ، نسل، مذہب، قوم یا کسی بھی دوسرے ناتے اور ہمدردی کی بنیاد پر کہیں سرمایہ کاری نہیں کرتا۔اس کے سامنے سرمایہ کاری کا واحد مقصد منافع اور ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہوتا ہے۔ حکمران طبقات کی لوٹ مار اور سرمائے کے ان رشتوں کو ''خیر سگالی‘‘،''ملکی مفادات‘‘ اور ''دوطرفہ تعلقات‘‘ کے دل کش غلاف چڑھا کر عوام پر تھونپ دیا جاتا ہے۔
میاں صاحبان نے ترکی کے وفد کو اپنے محلات بھی دکھائے، لیکن انہیں مصری شاہ، کوٹ لکھپت اور لاہور کی درجنوں کچی آبادیوں میں سے کسی کی سیر نہیں کروائی۔ بلوچستان، سندھ، پختونخوا اور جنوبی پنجاب تو درکنار لاہور کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں گٹر ابل رہے ہیں، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں ۔محنت کش عوام بجلی، گیس اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم سلگ رہے ہیں،لیکن ترکی کے حکمران بھی اتنے سادہ نہیں ہیں کہ زمینی حقائق نہ جانتے ہوں کیونکہ ان کی نیم اسلامی اور قدامت پرست سرمایہ دارانہ حکومت کے بڑے بڑے نمائشی منصوبوں تلے ترکی میں بھی کافی غربت پلتی ہے۔ اردوان حکومت کے معاشی کارناموں کا بہت چرچا کیا جاتا ہے لیکن پچھلی ایک دہائی میں ترکی کی معاشی نمو کی بنیاد بڑے پیمانے کی نجکاری اور بیرونی قرضہ جات ہیں۔آئی ایم ایف کا 23ارب ڈالر کا قرضہ تو اتار دیا گیا لیکن 2003ء سے 2012ء تک ترکی کے بیرونی قرضے میں 210ارب ڈالر یعنی 160فیصد جبکہ
گھریلو قرضوں میں 3600فیصداضافہ ہوا ہے۔1985ء سے 2003ء تک ترکی میں 8.5ارب ڈالر کی نجکاری ہوئی تھی جبکہ اردوان نے اپنے دور حکومت کے ابتدائی سات سالوں میں 36.4ارب ڈالر کی نجکاری کر ڈالی۔آبادی کا امیر ترین 20فیصد حصہ کل ملکی آمدن کے 50فیصد پر قابض ہے، یونیسیف کے مطابق تقریباً 50لاکھ بچے غربت کا شکار ہیں اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل 30فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔وزیر خزانہ سمیت ترک حکومت کے اہم ترین وزرا کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں۔
طیب اردوان حکومت کی عوام مخالف معاشی پالیسیوں، نجی زندگی میں حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور وسیع ہوتی ہوئی طبقاتی خلیج کے خلاف اس سال جون میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ہوئے تھے ۔ ان مظاہروں نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ٹھوس لائحہ عمل نہ ہونے اور انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کے باعث یہ تحریک وقتی طور پر بکھر گئی ،تاہم سماج کی سطح کے نیچے خلفشار بدستور موجود ہے جو کسی بھی وقت دوبارہ پھٹ سکتا ہے۔
پاکستان اور ترکی کے موجودہ حکمرانوں کی معاشی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں ممالک میں سرمایہ داروں اور ٹھیکیداروں کی چاندی ہوررہی ہے۔بڑے بڑے پراجیکٹوں والی یہ سرکاریں اقتصادی اعداد و شمار کو تو خوب رنگ روغن کر لیتی ہیں لیکن عوام کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔حکمرانوں کے کاروباری رشتوں اور سفارتی شعبدہ بازیوں سے دونوں ممالک کے محکوم عوام کا کوئی تعلق نہیں۔اس استحصالی نظام کے خلاف پاکستان اور ترکی کے کروڑوں عوام کی طبقاتی جدوجہد ہی انہیں انسانی بھائی چارے کے رشتے میں جوڑ سکتی ہے۔