تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     25-12-2013

ملتان کا نذر بلوچ!!

ملتان سے رات گئے جمشید رضوانی کا موبائل پر پیغام تھا۔ بری خبر ہے۔تمہارے شہر اسلام آباد میں نذر بلوچ وفات پا گئے ۔
یوں محسوس ہوا کہ زندگی سے ایک اور رشتہ کمزور ہوگیا ۔ 
یہ ایک ٹیکسٹ مسیج مجھے کہاں سے کہاں لے گیا ۔ 
1993 ء میں ملتان یونیورسٹی سے ایم انگلش کیا تو نعیم بھائی نے کہا کہ کچھ دن انگریزی جرنلزم کے بڑے نام مظہر عارف کے ساتھ ان کے دفتر میں گزارو ۔ ڈاکٹر انوار احمد سے ملا تو انہوں نے مظہر عارف کو فون کر دیا ۔ مجھے کچھ علم نہیں تھا جرنلزم کیا چیز ہوتی ہے اور کس بلا کا نام ہے۔ مظہرعارف نے ڈاکٹر انوار کو کہا کہ بھیج دو۔ میں خان پلازہ میں واقع ان کے دفتر چلا گیا ۔ مظہر عارف ٹائپ رائٹر پر انگلیاں چلا رہے تھے۔ اپنی عینک کے اندر سے مجھے دیکھ کر پوچھا کیوں صحافی بننا چاہتے ہو؟ میں نے کہا میں تو صحافی نہیں بننا چاہتا ۔ انہوں نے انگلیاں ٹائپ رائٹر پر چلانا جاری رکھیں اور بغیر اوپر دیکھے کہا تو پھر یہاں کیا کرنے آئے ہو۔ میں نے سیدھا جواب دیا نعیم بھائی نے کہا تھا کہ کچھ دن آپ کے ساتھ گزاروں۔ وہ اپنے کام پر لگے رہے۔ مجھے لگا اس روکھے جواب کے بعد انہیں مجھ سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ اشارے سے مجھے کہا کہ دور پڑی کرسی پر بیٹھ جائو۔ایک ہفتے بعد اس کرسی پر بیٹھے بیٹھے میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں نے زندگی میں صرف صحافی بننا ہے۔ مظہر عارف کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ میں نعیم بھائی اور اماں کے خوابوں سے بھی بغاوت کر گیا ۔ نعیم بھائی چاہتے تھے اماں کے خواب پورے کروں ۔ میں نے کہا اماں نہیں رہی تو پھر خواب پورے کر کے کیا ہوگا ۔ کہنے لگے ان کی روح خوش ہوگی۔ میں چپ رہا ۔وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کی کینٹین پر ہم دونوں بھائی رات بھر خاموش بیٹھے چائے پیتے رہے اور پھر عمر بھر ہمارے درمیان اس موضوع پر کبھی گفتگو نہیں ہوئی۔ میں برسوں بیروزگار رہا کہ صرف صحافی بننا چاہتا تھا ۔ لیکن انہوں نے کبھی طعنہ نہ دیا ۔ ہر ماہ نعیم بھائی کی طرف سے ایک چٹ مل جاتی جو میں بہاولپور ہسپتال کے اکائونٹنٹ ساجد صاحب کو دے کر پیسے لے لیتا ۔ ہر بھائی کے لیے مخصوص چٹ اور نعیم بھائی کے دستخط پہچان کر ساجد صاحب اتنے پیسے دیتے جتنے ان کے خیال میں ہر بھائی کا ان کی تنخواہ میں حصہ بنتا تھا ۔ برسوں بعد آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ اگر ساجد صاحب نے مدد نہ کی ہوتی تو شاید نعیم بھائی کے لیے ہم بہن بھائیوں کو پڑھانا مشکل ہوجاتا۔ 
جس رات نعیم بھائی فوت ہوئے اس آخری شام اسلام آباد میں واک کے بعد میرے ساتھ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے پتہ نہیں کیوں اچانک بولے ''روفی یار، تمہاری وجہ سے اب میں بھی پہچانا جاتا ہوں ۔ اچھا لگتا ہے‘‘! میں مسکرا پڑا اور اگلی شام گائوں کے قبرستان میں جاری بوندا باندی کے درمیان ان کی قبر پر بیٹھا رو رہا تھا ۔ شاید وہ زندگی کی آخری شام بہاولپور سے یہی بتانے آئے تھے کہ انہوں نے مجھے بیس برس بعد ان کے اور اماں کے خواب توڑنے پر معاف کر دیا تھا ۔ 
ملتان کے دنوں میں جمشید رضوانی کے بعد میں جس سے زیادہ قریب ہوا وہ نذر بلوچ تھے۔ ان کے پاس ایک موٹرسائیکل ہوتی جس پر کوئی بھی بغیر پوچھے ان سے لفٹ لے سکتا تھا اور بہت ضرورت پڑنے پر وہ بائیک ادھار بھی مانگی جا سکتی تھی۔ دور سے پتہ چلتا تھا کہ نذر بلوچ کی موٹر سائیکل آرہی ہے۔ مخصوص انداز میں سگریٹ پیتے، میرا زیادہ خیال کرتے کہ نعیم کا بھائی ہے۔ نعیم بھائی کے ساتھ وہ سرائیکی قوم پرستی کے رشتے میں جڑے ہوئے تھے۔ نذر بلوچ کا ایک 
مخصوص فقرہ ہوتا تھا یار بندہ بن ۔ ایک دن اپنی پا نچ سالہ پیاری بیٹی کو پریس کلب لے آئے ۔ میں نے باتیں شروع کیں تو اس کی خوبصورت سرائیکی سن کر مزہ لینے لگا ۔ میں نے اسے چھیڑنے کے لیے کہا ''اڑی، کہاں سے باپ لیا ہے ؟ لنڈے کا لگتا ہے‘‘
فوراً بولی ''نہیں میرا بابا باٹے کا ہے لنڈے کا نہیں‘‘ ۔اسے میری یہ بات پسند نہیں آئی کہ میں نے اس کے باپ کو لنڈے کا کہا تھا ۔ میں نے کوئی اور بات پوچھی تو اس کا جواب سمجھ نہیں آیا۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو غصے سے مخصوص میٹھی سرائیکی میں بولی ''مویا ڈورا تاں نئیں؟‘‘ (کہیں تم بہرے تو نہیں ہو؟) ہم سب کا ہنس ہنس کر برا حال ہواکہ پانچ سالہ بچی نے کیا کہہ دیا تھا ۔ 
کچھ دن بعد نذر بلوچ کو پتہ چلا کہ میرے پاس رہنے کو جگہ نہیں تو اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر اپنے اخبار کے دفتر لے گئے۔ اس کی چابی دی اور کہا اب تم یہیں رہو۔ میں نے کہا میرے پاس تو کرایہ نہیں ہے۔ ان کے چہرے پر اداسی پھیل گئی اور کہنے لگے ایک طرف مجھے نعیم بھائی کی جگہ سمجھتے ہو اور اوپر سے یہ بات کرتے ہو۔ بندہ بن ۔ میں اس فلیٹ میں بڑا عرصہ رہا اور وہ سب کرایہ یا تو اپنی جیب سے دیتے یا پھر کبھی کبھار بلوچستان کے جس اخبار کے لیے کام کرتے تھے وہ بھجوادیتے تھے۔
ایک دن پتہ چلا نذر بلوچ اسلام آباد چلے گئے ہیں۔ ہم سب اداس ہوگئے کیونکہ ملتان ان کے بغیر ادھورا لگتا تھا۔ ایک دوست نے مجھے کہا پریشان نہ ہوں۔ نذر بلوچ ایک روایتی سرائیکی اور اوپر سے ملتانی ہے۔ وہ اسلام آباد کے جعلی کلچر میں زیادہ دن تک نہیں ٹھہر سکے گا۔ وہی ہوا ۔ ایک دن پتہ چلا نذر بلوچ لوٹ آیا ہے۔ ان کے واپس لوٹنے کے بعد مجھے شوق چرایا میں اسلام آباد جائوں۔ سب نے سمجھایا کہ وہاں کیا رکھا ہے۔ دوست مجھے کھونے سے خوفزدہ تھے۔ میں خود بھی افسردہ تھا ملتان میں آٹھ برس رہا تھا۔ ملتان میں ہی سب کچھ کھویا تھا۔نذر بلوچ کو پتہ چلا تو صرف اتنا کہا، پہلے چھ ماہ مشکل ہوتے ہیں ۔ اسلام آباد پوری کوشش کرے گا تمہیں چھ ماہ کے اندر اندر واپس ملتان بھیج دے اور تم بھی بھاگ آئو گے۔ میں تو یہ چھ ماہ کا امتحان پاس نہ کر سکا اور یہاں بیٹھا تمہیں نصیحتیں کر رہا ہوں۔ مرو یا جیو تم نے چھ ماہ تک اسلام آباد رہنا ہے۔ تم نے صحافت کرنی ہے تو اسلام آباد ہی وہ شہر ہے۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اسلام آباد میں راتیں اکیلی اور دن پہاڑ ۔ کوئی دوست نہیں، کوئی غمگسار نہیں تھا۔ جی چاہتا رات کو سینہ چاک کر کے خالی سڑکوں پر نکل جائوں۔ ملتان کے دوست اور محفلیں یاد آتیں تو ساری ساری رات جاگتا لیکن جونہی واپسی کا ارادہ باندھتا تو نذر بلوچ میرے سامنے آ کر کھڑا ہوجاتا۔ ایک دن نذر بلوچ اسلام آباد آئے تو میری بیوی نے ان کے لیے شاندار کھانے بنائے۔ بلوچ نے کہا تھا کہ وہ شام کو آئے گا۔ شام سے رات ہوگئی بلوچ صاحب غائب۔ آخر رات بارہ بجے فون کیا تو نیند سے بولے یار میں تو بس پر بیٹھ کر جھنگ کے قریب ہوں ۔ ملتان جارہاہوں۔ میں نے صدمے کی حالت میں کہا بتا ہی دیتے۔ بولے یاد نہیں رہا۔ میرا اور میری بیوی کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلا نذر بلوچ بھی اسلام آباد آگئے تھے۔ اپنے ایک بیٹے کو اسلام آباد میں ٹی وی کا کیمرہ مین لگوایا تو کچھ مطمئن ہوئے۔ بیٹی کے لیے بہت خوش تھے کہ یونیورسٹی پڑھ رہی تھی۔ 
آخری دفعہ ان سے ملاقات ہوئی جب وہ میرے دفتر نعیم بھائی کی وفات پر دعا کے لیے آئے۔ مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا انہیں بھی دل کی بیماری ہوچکی تھی اور آپریشن کرا چکے تھے۔ میں نعیم بھائی کی موت کو بھول گیا اور ان کے منت ترلے کرنے لگ گیا کہ سگریٹ چھوڑ دیں۔ ان کے بچوں کو اب ان کی ضرورت ہے۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگے ''یار اب دل صرف بیس فیصد کام کرتا ہے۔ اب کیا رہ گیا ہے‘‘۔ سگریٹ نکال کر پینی چاہی، تو میں کھڑا ہوگیا ۔ ان کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا اور کہا بلوچ صاحب ایسے نہ کریں۔ نعیم بھائی کے بعد ویسے ہی دنیا میں دل نہیں لگتا۔ اب آپ اس زندگی سے ہمارے رشتے مزید کمزور نہ کریں ۔ میرے ہاتھ کو اپنی ٹھوڑی سے ہٹا کر مسکرا کر بولے، بندہ بن !
نعیم بھائی کے بعد نذر بلوچ کی قبر بھی میرے سینے میں بن گئی ہے۔ آج کل دسمبر کی میٹھی دھوپ چھائی ہے۔ خوبصورت لیکن غمگین ٹہنیوں سے گرتے اداس زرد پتوں کا شور مجھے مزید اداس کر رہا ہے۔ دسمبر... وچھوڑے اور جدائی کا موسم ... ! ایک ہفتہ ہونے کو ہے۔ ابھی تک مجھے حوصلہ نہیں ہوا کہ نذر بلوچ کے بچوں کو ملتان فون کر کے تعزیت کروں اور پوچھوں کہ ان کے لیے کیا کروں ۔ کیسے کروں اور کیا کہوں ۔ ان کی چھوٹی بیٹی سے بات کرنے کو جی چاہا اور پھر یہ سوچ کر چپ رہا کہ وہ روتے روتے پھر سرائیکی میں نہ کہہ بیٹھے '' مویا ڈورا تاں نئیں‘‘۔تمہیں سمجھ نہیں آتی ہمارا کتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے؟ 
میرا بابا لنڈے کا نہیں تھا!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved