تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-12-2013

ولولہ تو خوب ہے ، مگر…

کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔سچ یہ ہے کہ وہ تو لاہور دیکھنے کے بعد بھی پیدا نہیں ہوا جس نے واہگہ بارڈر پر مغرب سے قبل قومی پرچم اتارنے کی تقریب نہیں دیکھی!
لاہور کے قلب سے واہگہ بارڈر تک کا سفر طویل ہے اور تھکا دینے والا بھی۔ مگر خیر، تھکن برائے نام بھی یاد نہیں رہتی جب رینجرز کے جوان بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں کے مقابل نظم و ضبط اور پیشہ ورانہ مہارات کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔تھکن کے چند لمحات کے بعد بھرپور جوش و خروش اور حب الوطنی کے انتہائی پرکیف لمحات وارد ہوتے ہیں جو رگ وپے میں سماجاتے ہیں، سرایت کرجاتے ہیں۔
واہگہ بارڈر پہنچنے کے بعد پہلا مرحلہ ہوتا ہے تمام وزیٹرز کے قطار بند ہونے کا یعنی ع
''مطلع‘‘ میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
منظر یہ ہوتا ہے کہ لوگ آتے جاتے ہیں اور اپنے وضع کردہ نظام کے تحت جمع ہوتے جاتے ہیں۔یعنی یہ کہ لاکھ ہدایات جاری کیجیے، انتباہ بھی کیجیے مگر انہیں قطار نام کی کسی چیز سے روشناس نہیں ہونا۔
جب ہم اہل خانہ کے ساتھ داخلی دروازے کے نزدیک پہنچے تو حیرانی ہوئی کہ یہ قوم اچانک اس قدر منظم کیسے ہوگئی کہ ایک نہیں،تین تین قطاریں بنائے کھڑی ہے!رینجر اہلکار کی جھنجھلاہٹ سے معلوم ہوا کہ دس بار کہنے پر بھی لوگ ایک قطار میں کھڑے نہیں ہورہے۔اب منظر یہ تھا کہ ہر قطار کے لوگ اپنے آپ کو جائز قطار میں کھڑا ہوا سمجھ رہے تھے۔یہ ہیں پاکستانی جو اگر اپنی ضد پر آئیں تو ایک کی جگہ تین قطاریں بنائیں اور ہر قطار کو درست قرار دینے پر تل جائیں۔
قصہ مختصر، قطار کا مرحلہ زاروقطار کا مرحلہ ثابت ہوا جب دروازہ کھلا تو ایسی دھکم پیل شروع ہوئی کہ ع
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
یہ کچھ کچھ '' من تو شدم، تو من شدی‘‘ والا معاملہ ہے۔ذرا سی دیر میں کوئی قطار تھی نہ قطار نواز۔
سکیورٹی پر تعینات اہلکار بھی تھک ہار کر چُپ ہوگئے۔ جو تھوڑی بہت اُلجھن قطار کے مرحلے میں محسوس ہوئی تھی اس کا ازالہ اس بھرپور ماحول نے کردیا جو واہگہ بارڈر پر قومی پرچم اُتارنے کی تقریب کے لیے پیدا کیا جارہا تھا۔ اللہ اکبر کے نعرے ، پاکستان کا مطلب کیا لاالہٰ الااللہ کی للکار، یہ سب کچھ وہاں موجود تمام لوگوں کو کسی اور دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔
تقریب کے لیے تیار کیے جانے والے ماحول میں ہر فرق یکسر مٹ کر رہ جاتا ہے۔ تمام حاضرین ایک رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ کوئی صف نظر نہیں آتی مگر سب ایک صف میں نظر آتے ہیں۔ جو ایک قطار میں کھڑے ہونے سے انکاری تھے وہ شیرو شکر ہوچکے ہوتے ہیں۔تقریب کے آغاز کا وقت جوں جوں قریب آتا جاتا ہے، حاضرین پر چڑھنے والا رنگ گہرا ہوتا جاتا ہے۔ حب الوطنی کا رنگ بھی پکا ہوتا جاتا ہے۔
حاضرین کی آتش شوق بھڑکانے کے لیے عمران پاکستانی پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ پھیپھڑوں کی ساری قوت صرف کرکے وہ حاضرین کو مہمیز دیتے رہتے ہیں۔ حاضرین بھی یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتے کہ اگر انہوں نے بھرپور نعرے لگانے میں ذرا سی بھی کنجوسی دکھائی تو زندگی میں کوئی کمی سی رہ جائے گی۔
نعروں کی گونج کے ساتھ ہی ڈھول کی تھاپ سے حاضرین کا جوش و خروش لمحہ لمحہ یوں بڑھتا ہے کہ دل جھومنے لگتا ہے اور ہونٹوں پر قومی نغموں کے بول رقصاں ہوتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ یہ عالم ، یہ سماں برقرار رہے۔ یہ کیف و مستی کا کارواں یونہی چلتا رہے۔واہگہ بارڈر کی یومیہ تقریب پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی سطح کی واحد تقریب ہے جسے عوام بھی دیکھ سکتے ہیں۔دونوں طرف عوام کا بھرپور جوش و خروش دکھائی دیتا ہے۔ 
پوری تقریب کے دوران حب الوطنی کا دریا پورے زور وشور سے بہہ رہا ہوتا ہے۔ قومی نغموں کی بھرپور گونج کے بعد اہلکاروں کی پُرجوش آوازیں اورپریڈ ایک ایسا رنگ پیدا کردیتی ہیں جس میں رنگے بغیر رہا نہیں جاتا۔اس ایک تقریب میں ایموشن بھی ہے اور ہائی وولٹیج پیٹریاٹک ڈرامہ بھی۔ یہ '' ایک بار دیکھا ، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے‘‘ والا معاملہ ہے۔
واہگہ بارڈر کی تقریب میں ایک بات شدت سے محسوس ہوئی کہ جو بھرپور جذبہ ملک کی سرحد پر پایا جاتا ہے وہ اگر ملک کے اندر بھی موجود اور جاری و ساری رہے تو ؟ قوم کو ایسے ہی بھرپور جذبے کی ضرورت ہے۔
بچوں کا جوش و خروش واقعی قابلِ دید ہوتا ہے۔ ایسی بھرپور تقریبات ان میں حب الوطنی کی جڑیں گہری کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کرتی ہیں اور بچوں کا تو کیا ذکر، بڑوں کو بھی اس وقت حب الوطنی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ مٹی ہمیں بہت کچھ دے چکی ہے اور اب ہم سے بہت مانگ رہی ہے۔
واہگہ بارڈر کی تقریب سے جوش و جذبہ بھی مہمیز پائے تو اچھا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں نظم و ضبط اختیار کرنے کی تحریک بھی تو پانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جوش اور جذبہ ہم میں کم نہیں۔ مسئلہ نظم و ضبط کا ہے۔ نظم و ضبط نہ ہونے سے جوش و جذبہ ضائع ہوجاتا ہے۔ یعنی دریا تو بہہ رہے ہیں اب ڈیم بنا کر پانی روکنا ہے تاکہ بجلی بنائی جاسکے۔
ہمارے سینوں میں جذبہ جوان ہے مگر اسے بروئے کار لانے کی سبیل نہیں بن پارہی۔ وقت کا تقاضا صرف یہ ہے کہ ہم اپنے جذبوں کے طوفان کے آگے بند باندھیں اور اسے حقیقی توانائی میں تبدیل کریں۔
معاملہ دریائوں کے پانی کا ہو یا جذبوں کی روانی کا، ہم ایسے ہر طریقے سے یکسر نابلد اور متنفر ہیں جس سے معاملات کی درستی کی راہ نکلتی ہو۔ زمانہ اس بات کا شدت سے متقاضی ہے کہ ہم اپنے جذبوں اور ولولوں کو اعتدال کی حالت میں لانا سیکھیں اور زندگی کے ہر مظہر کو نئی زندگی سے روشناس کریں۔
مگر کیا ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں؟
سوال چاہنے ہی کا ہوتا ہے؟
پانی بہتا رہتا ہے اور سمندر میں جاگرتا ہے۔ بالکل اس طرح ولوے ابھرتے ہیں اور پھر سرد ٹھہرتے جاتے ہیں ۔غالب نے کہا تھا ؎
 
ملتی نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
 
مگر ہم ابھی اس منزل تک نہیں پہنچے کہ اگر راہ نہ ملے تو ہمارے نالے چڑھ جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved