تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     26-12-2013

خوف کا حصار

تین دن سے میرا شہر، راولپنڈی، خوف کے حصار میں ہے۔ کس کا خوف؟اہلِ مذہب کا۔کون سا مذہب؟اسلام، جو سراسر سلامتی ہے،غروبِ آفتاب سے فجر تک اور طلوعِ آفتاب سے مغرب تک۔
ایران کا گورنرہرمزان،پابجولاںامیرالمؤمنین سیدنا عمر ابن خطاب ؓ کے حضور کھڑا تھا۔پوچھا:جب بھی عربوں سے تمہارا سامنا ہوا،فتح کا عَلم تمہارے ہاتھ میں رہا۔ اب تمہیں کیا ہوا۔ایران پسپا ہو چکا۔تم شکست خوردہ میرے سامنے ہو اور تمہارا شہنشاہ زندگی کی طلب میں در بدربھٹکتا پھرتا ہے۔ کہنے لگا:پہلے صورتِ حال کچھ اور تھی۔ایک طرف ہم ہوتے تھے اور دوسری طرف عرب۔تنہا عربوں کو شکست دینا ہمارے لیے کبھی مشکل نہیں رہا۔اب ایک طرف ہم ہیں اور دوسری طرف عرب اور ان کا خدا۔ہم دوقوتوں کا مقابلہ کیسے کریں؟یہ باتیں اب قصۂ پارینہ ہیں۔بہت پہلے خبر دے دی گئی تھی کہ باہمی تنازعات میں الجھو گے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔دسرے لفظوں میں تمہیں تنہا لڑنا ہو گا۔ان دنوںیہی ہو رہا ہے ۔اب ہم تنہا لڑتے ہیں اور اکثر اپنے ہی بھائیوں سے۔اغیار سے ہم عراق میں لڑے ہیں یا افغانستان میں۔کہا جا تا ہے کہ امریکہ شکست خوردہ بھاگ رہا ہے۔ گویا ہم فاتح ہیں۔ فتح؟ عراق کا بانکپن ختم ہو چکا۔امریکہ کا عطا کردہ سیاسی نظام رائج ہے۔ افغانستان تیس سال سے مسلسل جنگ اور خانہ جنگی کی گرفت میں ہے۔ کئی نسلیں برباد ہو چکیں۔ افغان بچے پاکستان کی سڑکوں پہ بھیک مانگتے ہیں یا مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔افغانستان سے زندگی روٹھ چکی۔کیا فتح یہی ہو تی ہے؟ امریکہ میں ایک واقعہ ہوا اور پھر دوسرا نہ ہو سکا۔آج بھی وہ عالمی قوت ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت۔ہم خود اذیتی کے مریض بن گئے اور اب ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔اگر یہ فتح ہے تو شکست کس کا نام ہے۔'شہادت‘ سے 'فتح‘ تک،ہم ایک نئی لغت رقم کر رہے ہیں۔ امریکہ کو شکست ہونی ہے لیکن اس کا ہماری فتح سے کوئی تعلق نہیں۔ 
مذہب اور سیاست،خیر کی دو قوتیں ہیں۔ایک تہذیبِ نفس سکھاتی ہے اور دوسری تہذیبِ ریاست۔نفس پاک ہو جائے تو آخرت میںسرخروئی نصیب ہوتی ہے اور زندگی میں آسودگی کہ حیات اپنے مفہوم سے آشنا ہو جا تی ہے۔ریاست کا تزکیہ ہو جائے توامن نصیب ہو تا ہے اورخوف سے نجات۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے۔ مذہب کا نام آتا ہے تو سب سے پہلے کون سا خیال دل و دماغ پہ دستک دیتا ہے؟کیا یہ خوف اور فسادنہیں ہے؟ریاست کا ذکر ہو تا ہے تو ذہن کیا سوچتا ہے؟کرپشن، نااہلی اور عدم استحکام؟ سبب بڑا واضح ہے۔مذہب اب تزکیے کا نہیں، عصبیت کانام ہے۔ سیاست اب استحکامِ ریاست کا نہیں، اقتدار کی حریفانہ اور حریصانہ کشمکش کاعنوان ہے۔یہ مذہبی جلوسوں پر اصرار کیوں ہے؟ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے جو دین ہم کو دیا اور جو آپ کی حیاتِ مبارکہ میں مکمل ہوا، اس میں جلوسوں کا کوئی ذکر نہیں۔یہ بعد کے ادوار میں مذہبی گروہوں نے اپنے اپنے تشخص کے لیے اختیار کر لیے۔آج وہ ان جلوسوں کے لیے جان دینے پر آمادہ ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ انسانی جانوں کوخطرہ ہے،اس لیے ان جلوسوں کو محدود کرد ینا چاہیے تو لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔وجہ مذہبی نہیں گروہی تشخص کا دفاع ہے۔ یہ فرقہ وارانہ عصبیت ہے جسے ہم دینی عصبیت کہتے ہیں۔
یہ حادثہ ہمارے ہاں ان جماعتوں کے ساتھ بھی ہو چکا جو دین کے نام پر بنیں۔ان کا قیام تو دینی عصبیت کے تحت ہوا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ،ان جماعتوں کا دفاع دین کا دفاع بن گیا۔اب ان جماعتوں پرتنقید ہو تو ان کا دفاعی نظام یوں متحرک ہو تا ہے‘ جیسے خدا نخواستہ دین کے مسلمات پر تنقید ہو گئی۔گروہی موقف اور اس کے راہنماؤں کی آرا کا دفاع دین کی خدمت سمجھا جاتا ہے۔میں اس بات کو اس لیے بہتر طور پر سمجھتا ہوں کہ برسوں خود اس کیفیت میں رہا۔شاید یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر گروہ بندی سے منع کیا گیا ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں 'الجماعت‘ سے وابستہ رہنے کی ہدایت فرمائی۔ایک اورارشاد کے مطابق 'الجماعہ‘ سے مراد'السلطان‘ ہے۔'السلطان‘ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی ہے۔ ہمارے لیے پاکستان کاریاستی نظام۔یہاںاس 'الجماعت‘ کو غیر مستحکم کیاگیااور ہر کسی نے اپنے اپنے گروہ اور جماعت کو 'الجماعت‘ قرار دیا اوراور اس کا دفاع یوں کیا جیسے اسلام کا دفاع کررہے ہیں۔تزکیہ نفس اور دین کا پیغام کہیں پس منظر میں چلے گئے۔اب اہلِ مذہب کی سرگرمی ایک ہی ہے:اپنی گروہی عصبیت کا دفاع۔اس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں۔میرا شہر تین دن سے خوف کے حصار میں ہے۔ سچ پوچھیے تو پورا ملک ہی کئی سالوں سے فساد اورخوف کے حصار میں ہے۔
سیاست کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا حادثہ ہوا۔یہ بھی گروہی اور جماعتی مفادات کا عنوان بن گئی۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو چین نہیں پڑ رہا کہ اقتدار کے ایوانوں سے کیسے دور رہیں۔ ان کی سیاسی حکمتِ عملی دو الفاظ کی اسیر بن گئی ہے:دھرنا اور احتجاج۔کوئی ملک مسلسل احتجاج کی کیفیت میں آخرکیسے رہ سکتا ہے؟ جنگ، انقلاب، احتجاج، دھرنا، یہ سب الفاظ اضطراری حالات سے متعلق ہیں۔ان کا عمومی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ہمارے ہاں یہ اہلِ سیاست کا روزمرہ ہیں۔ بیانات ہیںتو انہی الفاظ سے عبارت۔ حکمت ِعملی ہے تو ان ہی سے لتھڑی۔اس لیے اب ہماری ریاست کا حال بھی وہی ہے جو مذہب کا ہے۔یہ خیر کی ددقوتیں تھیں۔میں ان کے خیر سے محروم کر دیا گیا ہوں۔آج تزکیہ نفس میری مذہبی لغت کا حصہ ہے نہ استحکامِ ریاست، سیاسی لغت کا۔ اس کے بعد خوف کے حصار میں رہتا ہوں۔ کبھی موت کا خوف ،کبھی بھو ک کا خوف۔المیہ یہ ہے کہ اس دکھ کو سمجھنے والا بھی کوئی نہیں۔
خوف کا یہ حصار صرف میرے گرد نہیں،پوری قوم کو حصار میں لیے ہوئے ہے۔ لوگوں کواس کا احساس تو ہے لیکن شاید وہ تجزیہ نہیں کر سکتے کہ اس کا سبب کیا ہے۔فکری پراگندگی ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ کبھی امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں اور کبھی حکومت کو۔اس کا جوازیقیناً مو جود ہے لیکن یہ محض فروعات میں الجھنا ہے۔ گھر مستحکم ہو گا تو خارجی قوتوں کا نفوذ کم ہو جا ئے گا۔گھر کا استحکام یہ ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پہ دھری ہو۔مذہب خوف نہیں، آخرت میں جواب دہی اور انسانوں کے لیے خیر خواہی کا نام ہو۔ سراسر سلامتی۔ریاست جان و مال کے تحفظ کی علامت ہو۔اہلِ مذہب انسانوں کو اللہ کے قریب لانے والے ہوں۔اہلِ سیاست، حکومت میں ہوں یا حزب ِ اختلاف میں، ان کی تگ و دو کا حاصل ریاست اور سماج کا ارتقا اور استحکام ہو۔اس کے بعد ہی ہم خوف کے حصار سے باہر آ سکتے ہیں۔آج میں ایک خوف سے نکلاہوں کہ چہلم خیریت سے گزر گیا کہ دوسرا خوف سامنے کھڑا ہے۔ اب 24جنوری کو میرے شہر میں تحریکِ انصاف کا دھرنا ہے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved