ریڈیو پاکستان نے ایک این جی او کے تعاون سے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا۔ گفتگو میں بعض دوسری این جی اوز کے نمائندے بھی موجود تھے۔ ایک خاتون وکیل اور ایک ماہرِنفسیات ڈاکٹر صدف رشید بھی موجود تھیں۔ گفتگو حسب معمول‘ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہو رہی تھی۔ موضوع تھا‘ '' خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدد کی روک تھام کیسے ہو؟ گھریلو تشدد کی تاریخ کیا ہے؟ اور ایک مرد ‘عورت پر ‘خواہ وہ اُس سے کیسے ہی رشتے میں بندھی ہو‘ تشدد کیوں کرتا ہے؟‘‘ پروگرام ریکارڈ ہو رہا تھا اور شرکاء تقریب موضوع پر اچھی پُر مغز گفتگو کر رہے تھے۔محفل میں موجود سینئر خاتون صحافی نے کہا کہ گزشتہ 20برس سے خواتین کے ایشوز پر کام کرتے ہوئے میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی ہر عورت کسی نہ کسی صورت گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ کبھی جسمانی طور پر اور کبھی محض لفظوں کی صورت میں اُ س پر تشدد کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ تخصیص نہیں کہ عورت پڑھی لکھی اور خوشحال طبقے سے ہے یا پھر ان پڑھ اور غریب طبقے کی۔
ایک مشہور این جی او کے نمائندے بار بار مغرب کی مثال پیش کر رہے تھے کہ اُس معاشرے میں عورت کو تحفظ ہے اگر اُس پر ظلم اور تشدد ہوتا ہے تو بھی ایسے ادارے موجود ہیں جہاں اُسے انصاف مِل سکتا ہے۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں یہ کمی بہت شدت سے محسوس
ہوتی ہے۔ اگر ادارے اور قانون موجود ہیں تو بھی اُن کی کارکردگی مؤثر نہیں۔ میں نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ عورت پر گھریلو تشدد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میںدین کی تعلیمات ،رویوں اور عادتوں کا حصہ نہیں بنتیں۔ جو عزت اسلام نے عورت کو بحیثیت انسان دی، مغرب یا کوئی بھی قدیم تہذیب اور معاشرہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔اس گفتگو کے دوران جہاں این جی اوز کے نمائندے مغرب کی مثالیں بار بار تقلید کے لیے پیش کر رہے تھے‘وہاں اسلام کا ذکر اُن کو اتنا ناگوار گزرا کہ وہ فوراً بولے ہمیں اسلام کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے۔!لیکن کیوں۔؟بحیثیت مسلمان تمام تر کاروبارِ حیات کا مرکز و محور ہمارا دین ہے۔ اس کی تعلیمات ہیں۔ زندگی کا سلیقہ اور قرینہ اس سے ہمیں سیکھنا ہے۔ اگر ہم بہتر معاشرہ اور بہتر انسان پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر روشنی اور ہدایت اسی سورج سے مِل سکتی ہے۔ میں نے جواباً کہا۔!
اگر عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے ہم اُن کو empowerکرنے کی بات کرتے ہیں تو اسلام سے بہتر ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔نبی رحمت ؐ نے اُس دور میں ایک بزنس وومن حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ سے نکاح کیا۔ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابیات ؓ نے تجارت کی‘ زراعت کی‘ باغات کی دیکھ بھال کی۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو تجارت اور کاروباری مقاصد کے لیے بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ اسلام کا تذکرہ اوردین کی تعلیمات کا ذکر این جی اوز کو ناگوار کیوں گزرتا ہے؟ آخر وہ بھی تو مسلمان ہیں لیکن وہ اسلام کا نام لینے سے ڈرتے کیوں ہیں؟ گفتگو کے آخر میں ماہرِ نفسیات ڈاکٹر صدف نے کہا کہ میرے خیال میں عورتوں پر گھریلو تشدد ہندوانہ معاشرے سے ہمارے رویوں میں شامل ہوا کیونکہ وہاں بیوہ ہونے والی عورتوں کو زندہ جلانے کی ظالمانہ رسم 19ویں صدی تک موجود رہی ہے۔ اسلام تو عورت کو بحیثیت انسان قابلِ احترام سمجھتا ہے بظاہر فیشن ایبل حلیے والی ماہر نفسیات کے اسلام پسندانہ خیالات سن کر این جی او کا پڑھا لکھا نمائندہ،بے حد چیں بہ جبیں ہوا۔ پروگرام ختم ہوتے ہی پھٹ پڑا، اورخاتون سے بولا۔''آپ نے آخر میں بہت ہی غلط بات کی ہے۔ مجھے آپ کے خیالات سُن کر بہت افسوس ہوا کہ آپ جیسی پڑھی لکھی خاتون ہندوانہ معاشرے پر ذمہ داری ڈال رہی ہیں۔ دیکھیں وہاں تو عورت کی اتنی عزت ہے کہ انہوں نے عورت کو دیوی بنا لیا ہے۔ اُن کی دیویاں جن کو وہ پوجتے ہیں وہ بھی عورتیں ہیں۔ ویسے بھی ہر بات میں اسلام اور مذہب کو لانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘ میں حیرت اور افسوس سے این جی او کے اُس کٹھ پتلی نمائندے کو دیکھ رہی تھی جو اپنے مسلمان ہونے پر بے حد شرمندہ تھا۔ فارن ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی او سے چند ہزار یا چند لاکھ کی تنخواہ لے کر وہ مغربی معاشرے اور مغربی ثقافت کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔بھارتی کلچر کی تعریف کرنے والا، 2012ء میں ہونے والا ریپ کیس بھول چکا تھا۔بھارت میں ہر پانچ منٹ میں کئی عورتیں بدترین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک غیر ملکی اخبار نے انڈین معاشرے کے اس ناسور پر لکھتے ہوئے ‘ اسے ''انڈین ریپ کلچر‘‘ کہا‘ کسی نے اسے Rape Epidemic in Indiaلکھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی اس بدترین رویے اور عورت پر ہونے والے ظالمانہ تشدد سے پاک نہیں ہے۔ اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔لیکن اس بھیانک سچ کے ساتھ ایک سچ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو عزت بھی دی جاتی ہے۔ جن ذہنوں اور رویوں میں دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی ہو‘ وہ ہر عورت کے وقار اور تقدس کی حفاظت کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اُس نبی پاک ؐ کے ماننے والے ہیں جو اپنی دایہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے لیے اپنی کالی کملی بچھادیتے اور جب وہ تشریف لاتیں تو نبی پاک ؐ کھڑے ہو کر اُن کا استقبال کرتے تھے۔ ماں کے قدموں تلے جنت‘ بیٹی کو خدا کی رحمت اور نیک بیوی کو دنیا کی متاع، دین اسلام نے قرار دیا۔ اس کے مقابل‘دوسرے معاشروں میں بیٹی کی پیدائش کو جُرم‘ اور بیوی کو پائوں کی جوتی کہا جاتا ہے۔ ہندو ثقافت کی تعریف کرنے والے‘ بھی یہ جان لیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیدائش سے پہلے بیٹیوں کو بھارت میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں ایک بچی سے زندگی کا حق اُس کی پیدائش سے پہلے چھین لیا جائے اس معاشرے میں عورت کس جبر اور ظلم کا شکار ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔سیاستدانوں جرنیلوں اور بیورو کریٹس کے احتساب کے ساتھ ایسی این جی اوز کا احتساب ضروری ہے‘ جو اسلام کا نام لینا، جُرم سمجھتی ہیں۔