تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     27-12-2013

آگے تیرے بھاگ لچھئے

پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے حکومت کو 3ماہ کا الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کر لے‘ ورنہ ہم حتمی فیصلہ کریں گے۔ پاکستان میں روایت یہی ہے کہ جب کوئی جماعت‘ ایوان اقتدار کے اندر جاتی ہے‘ تو درودیوار کا جاہ و جلال اور چاق و چوبند حفاظتی دستوں کا دبدبہ دیکھ کر‘ اس کے لیڈر باور کر لیتے ہیں کہ ان کا اقتدار ناقابل شکست ہو چکا ہے۔ کرسی مضبوط ہے اور اب کوئی انہیں ہلا نہیں سکتا۔ بھٹو صاحب کا یہ جملہ مشہور ہے۔ جب ان کی پارٹی کی ساکھ عوام میں خراب ہو چکی تھی اور حکومت عدم استحکام کا شکار تھی لیکن وہ کرسی پر ہاتھ مار کے کہہ رہے تھے کہ ''میری کرسی مضبوط ہے۔‘‘ حال میں ترک وزیراعظم طیب اردوان ‘ جن کی پارٹی بے حد منظم اور مضبوط ہے اور شدید ترین مخالفتوں کے باوجود انتخابات میں کامیاب ہو کر حکومتیں بناتی رہی ہے اور وہ اپنی مضبوط فوج کو عوامی طاقت سے پسپا کر کے‘ اقتدار کے کھیل میں نیچا دکھا چکے ہیں‘ گزشتہ روز پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ان کے اقتدار کی بنیادیں ہلنے والی ہیں۔ ابھی وہ پاکستان میں ہی تھے کہ وہاں اچانک ایک کرپشن سکینڈل منظرعام پر آیا اور 20دسمبر کے ''فارن پالیسی میگزین‘‘ میںاس کی رپورٹ شائع ہوئی‘ جس کا عنوان تھا ''اردوان کا اختتام‘‘ اور اس میں تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ وہاں اردوان حکومت کا ایک بہت بڑا کرپشن سکینڈل سامنے آیا ہے اور تحقیقاتی اداروں نے کابینہ کے وزیرتک گرفتار کر لئے ہیں۔ جب میرے پاس یہ رپورٹ آئی‘ اس وقت اردوان پاکستان کے دورے پر تھے۔ میں نے مہمانوں کے احترام میں یہ خبر کچھ وقت کے لئے روک لی اور ان کے جانے کے بعد شائع کی۔ 
اس ایک سکینڈل نے اردوان کی مضبوط حکومت کو متزلزل کر کے رکھ دیا۔ کابینہ کے تین وزراء کو میڈیا اور عوامی دبائو کے نتیجے میں مستعفی ہونا پڑا۔ انہوں نے وزیراعظم اردوان سے بھی استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ خود وزیرداخلہ جن کے ماتحت ادارے‘ کارروائی کر رہے تھے‘ الزامات کی لپیٹ میں ہیں اور ممکن ہے انہیں گرفتار کر لیا جائے۔ بہت سے بااثر لوگوں اور اعلیٰ کاروباری شخصیات کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔کرپشن کے سکینڈلز میں سب سے زیادہ الزامات تعمیراتی منصوبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کابینہ کے اراکین اور دیگر بااختیار عہدیداروں نے ان منصوبوں کے ٹھیکے دیتے وقت جی بھر کے بدعنوانیاں کیں۔ مستعفی ہونے والے وزراء نے اردوان سے صاف کہہ دیا کہ جن تعمیراتی منصوبوں میں بدعنوانیاں پکڑی گئی ہیں‘ ان کی منظوری وزیراعظم نے خود دی تھی۔ اس لئے انہیں بھی مستعفی ہو جانا چاہیے۔ رائے عامہ کی ترجمانی کرنے والی تنظیموں اور میڈیا پر اردوان اور ان کے ساتھیوں کا بھی اتنا ہی دبائو رہتا ہے جتنا کہ پاکستان کے حکمران خاندان کا۔ لیکن جب حالات بدلتے ہیں‘ تو پھر یہ سارے دبائو دھرے رہ جاتے ہیں اور سول سوسائٹی بھرپور انداز میں اتھارٹی کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ عوامی ابھار ایک دم سامنے نہیں آتا۔ دبائو کے ماحول میں وہ اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے اور پھر ایک دم لاوے کی طرح پھٹنا شروع کر دیتا ہے۔ جیسے کہ ترکی میں ان دنوں ہو رہا ہے۔ اس منظر میں پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے‘ تو آثار اچھے نظر نہیں آ رہے۔ ملک میں دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والی پارٹی ‘تحریک انصاف پہلے ہی سڑکوں پر آ چکی ہے اور اب اس نے اپنے دھرنوں کا ہدف مہنگائی کو بھی بنا لیا ہے۔ یہ پارٹی گزشتہ انتخابی مہم کے دوران ثابت کر چکی ہے کہ اس کی یوتھ فورس منظم اور پرجوش ہے۔ وہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر ہی احتجاجی تحریک شروع کرنے پر مصر تھی کہ عمران خان نے اسے روک لیا۔ لیکن اب وہ خود احتجاجی تحریک کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرناک احتجاجی طاقت کو خود حکمران جماعت سڑکوں کی طرف دھکیل رہی ہے۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار نے غریب اور متوسط طبقے کے عوام کو مہنگائی کے الائو میں دھکیل کر پہلے ہی مضطرب کر رکھا ہے۔ عوام اس انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی کوئی موقع پیدا ہو‘ وہ دمادم مست قلندر کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل کھڑے ہوں۔ انہیں راستہ فراہم کرنے کا انتظام خود حکومت کر رہی ہے۔ ملک میں 36 کے قریب اداروں کو نجی کمپنیوںکے سپرد کیا جانے والا ہے۔ پاکستان میں نجکاری کا عمل کبھی بھی صاف شفاف نہیں رہا۔ اس میں ہمیشہ اندھا دھند بدعنوانیاں کی گئیں اور اب بھی پس پردہ ہونے والے سودوں کی کہانیاں عام ہو چکی ہیں۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ نجکاری کے نتیجے میں متعلقہ اداروں کے ہزاروں ملازمین کو بیروزگار کیا جائے گا۔ خطرے کو دیکھتے ہوئے سٹیل مل کے ملازمین سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ پی آئی اے کی یونین تیاریاں کر رہی ہے اور دیگر اداروں کی یونینز میںبھی تیزی سے رابطے ہو رہے ہیں اور ملک بھر کی مزدور یونینین مشترکہ احتجاجی تحریک چلانے کے لئے باہمی رابطوں میں مصروف ہیں۔ 29دسمبر کو پروفیسر علامہ طاہر القادری بھی اپنی احتجاجی تحریک شروع کرنے والے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن سے پہلے کا دھرنا صرف ایک ٹریلر تھا۔ اصل تحریک وہ اب چلائیں گے۔ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کے سوال پر سیاسی اور قانونی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کی نظر ملک میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر بھی ہے۔ اگر اسے مختلف احتجاجی تحریکیں آگے بڑھتی نظر آئیں‘ تو پھر وہ بھی ان کی حمایت میں نکلنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔خیبرپختونخوا میں اے این پی‘ پیپلزپارٹی کی اتحادی رہی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے مابین آج بھی رابطوں اور مشاورت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے 3ماہ کا الٹی میٹم دے کر اپنا ارادہ ظاہر کر دیا ہے۔ وہ بھی ایم کیو ایم کی طرح ملک کی مخدوش صورتحال پر گہری نظر رکھے گی اور جن قوتوں کی طرف میں نے اشارے کئے ہیں اگر وہ سڑکوں پر نکل آئیں‘ تو پھر پیپلزپارٹی اور اے این پی بھی زیادہ انتظار نہیں کریں گی اور اس طرح ملک میں ایک ہمہ گیر اور بھرپور احتجاجی تحریک شروع ہو سکتی ہے۔ جس کے بارے میں کسی بھی قسم کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا مالی اور سماجی بحران ‘ اذیت ناک مہنگائی اور حد سے بڑھی ہوئی بیروزگاری میں‘ معمولی سا بھی اضافہ حالات کو بگاڑ سکتا ہے۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار صاحب نے جب سے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں‘ وہ آئی ایم ایف کی عینک اتارنا گوارا نہیں کرتے۔ پاکستان کو جب بھی دیکھتے ہیں‘ اسی عینک سے دیکھتے ہیں۔ عین اس وقت جب ملک میں بھرپور احتجاجی تحریک کی لہریں‘ ایک دوسری میں ملنے کے لئے آگے بڑھ رہی ہیں‘ وہ مہنگائی کے نئے اور زوردار جھٹکے لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ 
طیب اردوان کی حکومت کے لئے ‘پرانے معاملات پر جو نئی مشکلات اچانک آن پڑی ہیں‘ ان کا بنیادی سبب اردوان کی پالیسیاں ہیں۔ انہوں نے مصر میں سابق صدر مُرسی کی حمایت کر کے‘ اپنی دیرینہ اتحادی سپرپاور کو مایوس کیا ہے۔ شام کے معاملے میں بھی وہ امریکی پالیسی سے علیحدہ راستوں پر چل رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا جواب آنالازم تھا۔ نوازشریف سے امریکہ کو کافی امیدیں تھیں۔ لیکن وہ عوامی مقبولیت کی خاطر ایسے اقدامات کر رہے ہیں‘ جو امریکہ کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ ڈرون کے معاملے کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر اٹھا رہے ہیں۔ طالبان کے معاملے میں انہوں نے گومگو کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ نہ مذاکرات کرتے ہیں اور نہ ان کی سرگرمیاں محدود کرنے کے لئے عملی اقدامات۔ ڈرون حملوں کے خلاف تحریک پر امریکی وزیردفاع ذاتی طور پر وزیراعظم نوازشریف کو صدر اوباما کی تشویش سے آگاہ کر چکے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقوم بند کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن اب کانگریس نے یہ قانون پاس کر دیا ہے کہ جب تک متعلقہ امریکی ادارے ‘ دہشت گردی اور ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستان کی پالیسیوں پر اطمینان کا اظہار نہیں کر دیتے‘ کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم کی ادائی بند کر دی جائے گی اور جب امریکہ جوابی اقدامات کا فیصلہ کر لیتا ہے‘ تو پھر بات رکتی نہیں‘ آگے بڑھتی ہے۔ یہاں تک کہ کوئی نتیجہ سامنے نہ آ جائے۔ جو کچھ اس کالم میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اسے آپ یقینا سمجھ گئے ہوں گے۔ نصابی کتب کی طرح کہانی میں سکھایا گیا سبق دہرانے کی ضرورت نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved