تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     27-12-2013

کم از کم چار اقدامات

یہ دنیا کا سب سے زیادہ طاقت ور اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم بھی ہے۔ راولپنڈی کو سِیل کر دیا گیا ہے۔ دس ہزار فوجیوں کو تیار رہنے کا حکم مل چکا ہے۔ تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ بائیس شہروں میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے 58شہروں میں موبائل سروس بند کر دی گئی ہے۔ کوئٹہ میں سکیورٹی اداروں کے پانچ ہزار مسلح اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ تمام داخلی راستوں پر پولیس کی نفری کھڑی ہے۔ باہر سے آنے والی ہر گاڑی کی چیکنگ ہو رہی ہے۔
یہ مملکتِ خداداد ہے۔ یہ دنیا میں اسلام کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔ تادمِ تحریر یہ اسلام کا واحد قلعہ ہے کیونکہ کسی اور ملک نے اپنے آپ کو ابھی تک یہ خطاب دینے کی جرأت نہیں کی۔ گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ شہر کے مختلف حصوں سے علماء اور دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا۔ آرمی کی بارہ کمپنیاں اور رینجر اور پولیس کے ریزرو دستے پہنچ چکے ہیں۔ تمام ہسپتالوں میں عملے کو الرٹ رہنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ سٹی پولیس افسر پوری رات دفتر میں موجود رہے۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مسلسل فضائی نگرانی کی جا رہی ہے۔یہ عظیم اسلامی مملکت‘اسلام دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے۔ ریلی جیسے ہی آگے بڑھی‘ پولیس کی بھاری نفری نے ریلی کو آگے جانے سے روک دیا جس پر ریلی کے شرکاء اور پولیس میں تصادم ہو گیا۔ پولیس نے آنسو گیس‘لاٹھی چارج اور فائرنگ کی۔ تیرہ سے زائد کارکن زخمی ہو گئے۔ پولیس اور کارکنوں کے درمیان آنکھ مچولی کئی گھنٹے جاری رہی۔ فائرنگ سے زخمی ہونے والے افراد کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ کچھ ہلاک ہونے کے قریب ہیں اور کچھ کی حالت خطرے سے باہر ہے۔یہ صورتِ حال یہود و ہنود کی سازش کا نتیجہ نہیں‘ اس حقیقت کا نتیجہ ہے کہ مذہب دلوں سے نکل کر گلیوں بازاروں باغوں پارکوں اور شاہراہوں پر آ گیا ہے۔ مذہب خدا اور بندے کے درمیان نازک ترین اور خفیہ ترین تعلق کا نام تھا۔ ''اپنے رب کو زاری کے ساتھ چُھپ کر پکارو‘‘۔ پروردگار کو تو دائیں اور بائیں پہلوئوں پر لیٹے ہوئے یاد کرنا تھا۔ رات کے آخری حصے میں اُس سے باتیں کرنا تھیں۔ جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے‘ اُسے بلانے کے لیے تو ہونٹ ہلانے کی بھی ضرورت نہیں۔
قرآن حدیث میں کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ جلسے کرو‘ جلوس کرو۔ ریلی نکالو‘ کانفرنسیں کرو‘ نعرے لگائو۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے استادِ گرامی امام جعفر صادقؒ نے کتنے جلسوں سے خطاب کیا؟ کتنے جلوس نکالے؟ کتنی ریلیاں منعقد کیں اور کرائیں‘ کتنی شاہراہوں اور چوکوں کو کانفرنسوں سے بند رکھا؟کیا حشر کے روز ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے کتنے سُنیوں کو مارا‘ کتنے شیعہ قتل کیے؟ کتنے بریلوی‘ کتنے دیو بندی اور کتنے اہلِ حدیث ختم کیے۔ دوسرے مسلک والے سے کتنی نفرت کی؟کیا ہم سے یہ باز پرس ہو گی کہ تم نے اپنی کار کے پچھلے شیشے پر اور اپنی مسجد کی پیشانی پر اپنے عقیدے کا اعلان کیوں نہ کیا؟ایک پابندِ صوم و صلوٰۃ نوجوان روہانسا ہو کر بتا رہا تھا کہ فلاں بزرگ صورت نے اُسے کہا کہ تمہاری شکل یہودیوں والی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ بزرگ صورت نے پوری زندگی کسی یہودی کو نہیںدیکھا تھاورنہ یہ کہتے ہوئے کئی بار سوچتے۔
اعداد وشمار کچھ اور بتاتے ہیں۔ فحش فلمیں اور ممنوعہ جنسی مناظر دیکھنے میں‘ گوگل کے سروے کے مطابق‘ یہ ملک سرِفہرست ہے۔ جھوٹ اوروعدہ خلافی اس قدر عام ہے کہ انہیں برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ افریقہ کو چھوڑ دیا جائے تو پوری دنیا میں جعلی خوراک ‘ جعلی دوائیں‘ بے ایمانی ٹیکس چوری...اور بے شمار دوسری سماجی برائیاں...دنیا بھر کی نسبت یہاں زیادہ ہیں اور کسی کو ان اعداد و شمار سے انکار نہیں! یہ ملک قتل گاہ بن چکا ہے۔ اگر اسے قتل گاہ سے دوبارہ ایسا ملک بنانا ہے جو رہنے کے قابل ہو‘ تو کم از کم چار اقدامات کرنے ہوں گے۔
اوّل۔ مسجدوں اور امام بارگاہوں سے لائوڈ سپیکر مکمل طور پر نکال دیے جائیں۔ یہ کہنا کہ لائوڈ سپیکر صرف اذان کے لیے استعمال ہوں گے‘ خام خیالی ہے۔ لائوڈ سپیکر کی موجودگی میں اس کے استعمال پر پابندی لگانا ناممکن ہے۔
رہی اذان اور خطبہ‘تو کیا لائوڈ سپیکر سے پہلے اذانیں اور خطبے نہیں ہوتے تھے؟اگر کافروں کے ایجاد کردہ لائوڈ سپیکر پر اذان جائز ہے تو کافروں کے ایجاد کردہ ٹیلی ویژن پر کیوں نہیں جائز؟اذان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ہونی چاہیے۔سنگا پور کی مساجد میں لائوڈ سپیکر استعمال ہو رہے ہیں لیکن آواز مسجد سے باہر نہیں سنائی دیتی۔ ایسا شریفانہ اور قانون پسند استعمال ہماری امام بارگاہوں اور مسجدوں میں ناممکن ہو گا۔
دوم۔ امام بارگاہوں اور مسجدوں سے باہر کسی قسم کے مذہبی مسلکی‘دینی اجتماع‘ جلسے‘ جلوس‘ ریلی‘ کانفرنس پر مکمل پابندی لگانا ہو گی! اس قبیل کی تمام سرگرمیاں مسجدوں‘ امام بارگاہوں کی چار دیواری کے اندر محدود کرنا ہوں گی۔
سوم۔ راستہ گلی‘کوچہ‘سڑک‘شاہراہ کسی صورت میں بند نہیں کرنا ہو گی۔ کسی حاکم یا غیر ملکی وی آئی پی کے لیے رُوٹ نہیں لگے گا۔ کسی سیاسی‘ احتجاجی مذہبی جلوس کی وجہ سے کوئی راستہ بند ہو گا نہ ٹریفک روکی جائے گی!شادی اور موت پر قناتیں اور کرسیاں لگا کر راستہ بند کر دینا‘بدتہذیبی اور جنگلی پن کا بدترین مظاہرہ ہے۔ جنگل میں بھیڑیے بھی راستے پر نہیں‘ بلکہ راستے سے ہٹ کر بیٹھتے ہیں۔
چہارم۔ کسی ایسے گروہ کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جو مذہب‘مسلک‘ فرقے یا عقیدے کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ کسی شیعہ‘ سنی‘ دیو بندی بریلوی یا اہلِ حدیث تنظیم کو پارلیمنٹ میں داخل کرنے کا کیا جواز ہے؟ پارلیمینٹ کا کام ملک میں معاشی ترقی لانا اور امن و امان قائم کرنا ہے۔ اور وہ اسی حوالے سے حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔ معاشی ترقی‘ مسلکی‘ مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر نہیں ہو سکتی! اسلام کے نام پر بنی ہوئی سیاسی جماعتوں سے سب سے پہلے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ لوگ مسلمان نہیں جو تمہاری جماعت سے باہر ہیں ؟
یہ ہیں وہ چار اقدامات۔ وہ کم سے کم چار اقدامات جن کے بغیر یہ قتل گاہ‘ قتل گاہ ہی رہے گی‘ ملک نہیں بن پائے گی!
یہاں اس واقعہ کا ذکر کرنا برمحل ہے جو کچھ عرصہ قبل متحدہ عرب امارات میں پیش آیا ۔ یہ خبر تقریباً تمام پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔...''متحدہ عرب امارات نے معروف سکالر...کے درجنوں پیرو کاروں کو اپنے ملک سے دبئی میں درسِ قرآن کے اجلاس منعقد کرنے کی بناء پر نکال دیا ہے۔ یو اے ای کی حکومت نے کئی پاکستانی خاندانوں کو وارننگ دی ہے کہ فلاں تاریخ تک اپنے کاروبار ختم کر کے ملک سے نکل جائیں۔ یہ مذہبی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ ان لوگوں نے قانون شکنی کی تھی۔ تاہم اسے نکالے جانے والوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں۔ترجمان نے بتایا کہ وہاں پرائیویٹ مذہبی اجلاس منع ہیں۔ نمازِ جمعہ کے علاوہ مذہبی اجتماعات کی اجازت نہیں۔ دبئی پولیس نے ستر کے لگ بھگ پاکستانیوں کو مذہبی اجتماع میں شرکت کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا ۔ ان میں سے تیس جلا وطن کر دیے گئے جبکہ باقی کو کہا گیا ہے کہ اپنا کاروبار سمیٹیں اور جولائی کے آخر تک ملک چھوڑ دیں‘‘
ایک مسلمان ملک کی حکومت درسِ قرآن کے لیے بھی پرائیویٹ اجتماع کی اجازت نہیں دیتی اور دنیا کے کسی عالم نے‘کسی مکتبِ فکر کے سکالر نے یو اے ای کی حکومت پر غیر اسلامی یا کافر ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا۔ ہاں! اگر وہ مسجدوں میں داخل نہ ہونے دیتی تو یہ فتویٰ لگ سکتا تھا۔ یہ ہوتا ہے ملک کو ملک رہنے دینے کے لیے اقدام!ہماری اطلاع کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ملکوں میں اُن تبلیغی گروہوں پر بھی پابندی ہے جو بّرِصغیر کے ملکوں سے جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved