تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     27-12-2013

بھٹو سے انتقام

آج کل میرے اندر ایک نیا شوق پیدا ہوگیا ہے۔ قومی اسمبلی کی لائبریری سے 1972-1977ء تک جو اہم تقریریں کی گئیں ان کی فوٹو کاپی کر کے پڑھ رہا ہوں ۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان ٹوٹنے کے بعد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس14 اپریل 1972ء کی تقریر نے مجھے بڑا متاثر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر یورپ کی اٹھارویں صدی کی تاریخ پڑھنی ہو تو ٹالسٹائی کا ناول وار اینڈ پیس پڑھ لیں‘ سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ اسی طرح اگر انگریزوں کے برصغیر میں آنے سے لے کر قبضہ تک اور ہندو مسلم اختلافات ، قیام پاکستان، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی لوٹ مار، سول ملٹری بیوروکریسی کے پاکستان پر قبضہ سے لے کر 1971ء میں پاکستان ٹوٹنے تک کی مکمل کہانی پڑھنی ہو تو بھٹو کی یہ تقریر کافی ہے۔جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کیسے قائداعظمؒ کے بعد پاکستان اپنی منزل گم کر بیٹھا اور سول ملٹری بیوروکریسی نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ریاست کے وسائل پر قبضہ کر کے اسے کیسے لوٹا؟ بھٹو نے قائداعظمؒ کی اگست 1943ء کی دلی میں کی گئی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے سے صدارتی خطبے میں کہا تھا ''پاکستان سرمایہ داروں کے لیے نہیں بلکہ غریبوں کے لیے بنایا جارہا ہے‘‘۔ جبکہ قائداعظم نے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بارے میں کہا تھا کہ ''غریبوں کا استحصال کرنا ان کے خون میں شامل ہوچکا۔ وہ اسلام کا سبق بھول گئے ہیں، لالچ اور خودغرضی ان پر حاوی ہوچکی ہے۔ میں نے کچھ گائوں دیکھے وہاں لاکھوں لوگ ہیں جنہیں ابھی بھی مشکل سے ایک وقت کی روٹی ملتی ہے۔ کیا یہی تہذیب ہے۔ کیا یہ پاکستان کا مقصد ہے۔ کیا آپ 
سوچ سکتے ہیں کہ لاکھوں کا اس طرح استحصال کیا گیا ہے کہ وہ اب ایک وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتے۔ اگر پاکستان کا یہ مطلب ہے تو پھر مجھے پاکستان نہیں بنانا چاہیے۔ اگر سرمایہ دار اور جاگیردار سمجھدار ہیں تو پھر انہیں بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق بدلنا ہوگا، اگر وہ نہ بدلے تو پھر خدا ان کی مدد کرے، ہم ان کی مدد نہیں کریں گے‘‘۔ بھٹو نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا ''پاکستان کو بنانے میں عام اور غریب لوگوں نے حصہ ڈالا تھا ۔قائداعظم کو علم تھا کہ پاکستان کا مستقبل ان عام لوگوں کی فلاح سے جڑا ہوا ہے نہ کہ چند سیاستدان، بیوروکریٹ یا پھر جاگیردار اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان کے عوام کے لیے پاکستان کا مطلب نہ صرف ہندوئوں کے استحصال سے آزادی حاصل کرنا تھا بلکہ انہیں ایک ایسا خطہ چاہیے تھا، جہاں غریب کا امیر کے ہاتھوں استحصال ہونا بند ہوجائے گا اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں سماجی انصاف کا نظام ہوگا ۔ پاکستان کا مطلب عام آدمیوں کے لیے ایک نیا سوشل آرڈر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ شروع کے سالوں میں لوگوں کو پاکستان سے بہت امیدیں تھیں‘ جو دھیرے دھیرے ختم ہوتی گئیں اور لوگوں کا غصہ بڑھتا گیا اور ہماری قیادت ناکام ہوئی۔ جس کلاس نے ملک میں اہم کردار ادا کرنا تھا وہ بڑے بڑے جاگیرداروں کے خاندانوں پر مشتمل تھی۔ ان کے پاس مقامی طور پر بہت طاقت تھی اور وہ فیوڈل بن چکے تھے۔ بہت سارے جاگیردار سیاست میں شامل ہوگئے اور وہ پاکستان مسلم لیگ کا 
ستون بن گئے۔ ان سب کے زراعت میں اہم مفادات تھے جس کی وجہ سے انہیں بہت ساری طاقت ملی اور انہوں نے لوگوں پر ظلم کیے۔ ان جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ ایک اور نئی کلاس راتوں رات ابھری جو صنعت کاروںاور کاروباریوں کی کلاس تھی‘‘۔ 
''جب 1950ء کی دہائی میں حکومت نے ملک میں صنعتی ترقی کو سنجیدگی سے لینے کا فیصلہ کیا تو اس نے ایک مشکل راہ چن لی تھی۔ اس صنعتی ترقی میں وہ طبقات شامل ہوگئے تھے جو راتوں رات امیر بننا چاہتے تھے۔وہ چاہتے تھے حکومت ان کا تحفظ بھی کرے اور انہیں مقابلے کی مارکیٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ ان کاروباریوں کے لیے ایک سنہری وقت تھا۔ انہوں نے صنعتیں لگا کر دھڑا دھڑ پیسے کمانے شروع کر دیے۔کسی نے توجہ نہ دی کہ صنعتوں کے اس پروگرام کو بہتر انداز میں چلایا جائے جس کے لیے کیپٹل گڈز انڈسٹری کی ضرورت تھی۔ یوں کوریا کی جنگ میں پاکستان نے جو ڈالرز کمائے تھے وہ راتوں رات ان کاروباریوں کی وجہ سے ختم ہوگئے اور آنے والے برسوں میں پاکستان کو غیرملکی قرضوں پر انحصار کرنا پڑا۔ 1947ء میں جو سیاسی آزادی لی گئی تھی وہ معاشی آزادی میں نہ بدل سکی اور اس کے اثرات آنے والوں برسوں میں جاری رہے۔ یوں یورپ میں 1950ء کے آخری برسوں میں معاشی بوم آیا اس کے پاکستان پر منفی اثرات پڑے۔ کیپٹل گڈز اور آلات کی‘ جن کی پاکستان کو ضرورت تھی‘ لاگت بڑھتی چلی گئی جب کہ پاکستان جو خام مال ان ملکوں کو بھیج رہا تھا اس کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اس کے باوجود حکمرانوں نے پاکستان میں بنیادی صنعتوں پر کوئی توجہ نہ دی۔ پلان کرنے کی بجائے الٹا ان کاروباری گھرانوں کو تحفظ دیا گیا۔ پاکستان میں پہلی دفعہ لائسنس کلچر متعارف کرایا گیا۔ روزانہ لائسنس جاری ہونے لگے۔ بنک کی صنعت کا بیڑا غرق کیا گیا ۔ بنکوں کا ایک ہی مقصد رہ گیا تھا کہ پاکستان کے لوگوں کے اکاونٹس ان صنعت کاروں کے کاروبار کے لیے استعمال ہوں جس کے لیے سرمایہ داروں نے اپنی طرف سے کوئی قابل ذکر سرمایہ نہیں لگایا تھا ۔ان صنعت کاروں اور کاروباریوں کا ایک ہی مقصد رہ گیا تھا وہ حکومتی سرپرستی میں عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی بجائے سرکاری لائسنس لیں اور اس کے بدلے پاکستان غیرملکی قرضے لیتا رہے اور آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوتا رہے۔ ان صنعت کاروں کو بھاری مراعات دی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان کے پاس بیکار صنعت ہے۔ کسی نے غریب لوگوں کا نہیں سوچا جو پاکستانی صنعت کے اس خوفناک جمود کا شکار ہوئے۔ یوں امیر امیر تر ہوتے چلے گئے‘‘۔ ''اب ہمیں بائیس برس بعد کیا ملا ہے ؟ ایک بیکار صنعت جو غیرضروری چیزیں تیار کرتی ہے۔ ایک ٹٰٰٰٰٰٰٰٰیکسٹائل انڈسٹری جو مقامی خام مال ہونے کے باوجود گھٹیا کوالٹی کی مہنگی چیزیں پیدا کرتی ہے۔ ہمارے پاس کوئی بھاری صنعت نہیں جو سویلین یا فوج کے لیے کچھ پیدا کرسکے۔ جب کہ دوسری طرف بھارت اب چار قسم کے طیارے تیار کرتا ہے اور دو قسم کے ٹینک بناتا ہے جب کہ ہم پاکستان میں ایک مکمل سائیکل تک نہیں تیار کر سکتے۔ غیرملکی قرضوں سے کوئی فائدہ اٹھائے بغیر ہم قرضے لیتے رہے۔ 30جون 1971ء تک پاکستان 3.3 ارب ڈالرز کے غیرملکی قرضے لے چکا۔ ہر سال ان قرضوں کی واپسی پر 251 ملین ڈالرز ادا کرنے پڑتے ہیں جب کہ اپنے ملک کے اندر بنکوں سے حکومت نے 747 کروڑ روپے کا قرض لے رکھا ہے۔ 
پاکستان اسی وجہ سے چند لوگوں کی جاگیر بن کر رہ گیا ۔ سیاست سے لے کر زمینداری تک‘ سرمایہ کار اس ملک پر قابض ہوگئے۔ سیاست کاروبار بن کر رہ گئی۔ سیاست ہی وہ شارٹ کٹ بن گئی جس کے ذریعے راتوں رات امیر بنا جا سکتا تھا۔ سیاست کے ذریعے ہی طاقت اور مال بنایا جانے لگا۔ یوںدولت، طاقت اور سیاست ایک بھیانک دائرہ بن کر رہ گئے۔ اس طرح پاکستان سے امیدیں ختم ہونا شروع ہوگئیں جس سے سب کو فائدہ ہوتا ۔ 
آئین نہ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی نے پاکستان پر قبضہ کر لیا اور طاقتور بن کر ابھری۔ آزادی کے پہلے چند برس سول سروس نے اچھا کام کیا۔ تاہم بہت جلد سول سروس قائداعظم کا یہ فرمان بھول گئی: 
You are not rulers. You don,t belong to the ruling class. You belong to the servants.
 
بہت جلد سول سروس بھی جاگیرداروں اور صنعت کاروں کے ساتھ مل کر پاور اور سٹیٹس کو کے کھیل کا حصہ بن گئی۔ سول سرونٹس بھی اب اقتدار اور دولت چاہتے تھے۔ 1951-52ء کی ایک رپورٹ کے مطابق جن 1134 لوگوں کے خلاف پولیس نے فارن ایکسچینج اور ذخیرہ اندوزی ایکٹ کے تحت کارروائی کی تھی ان میں 737سرکاری ملازمین تھے۔ کرپشن ہر طرف پھیلنا شروع ہوگئی اوراس نے پورے ملک کا گلا گھونٹ دیا ۔ بیوروکریسی نے بہت جلد پورے ملک پر قبضہ کر لیا ۔ ان سول سرونٹس نے پالیسی میکرز اور اس پالیسی پر عمل کرنے والوں کے درمیان حائل لائن کو ختم کر دیا ۔ وزیر عوامی حمائت پر انحصار کرنے کے بجائے دھیرے دھیرے سرکاری بابوئوں پر انحصار کرنے لگے۔ سیاستدانوں نے سرکاری ملازمین اور بابوئوں کو وفاقی وزیر، وزیراعظم اور گورنر جنرل تک بنا دیا۔ فوجی اور سول بیوروکریسی جس نے ملک پر قبضہ کر لیا اس کی تعداد بہت کم تھی۔ یہ کوئی عوام کی حکومت نہیں تھی۔ بہت جلد بنگالیوں کو سول اور ملٹری عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور سب پر مغربی پاکستان کے بابوئوں نے قبضہ کر لیا۔ 
بھٹو کی یہ طویل اور اہم تقریر ابھی زیر مطالعہ تھی کہ الیکشن کمشن نے اپنی ویب سائٹ پر پاکستان کے ایک ہزار سے زائد سیاستدانوں کے اثاثوں کی ہوشربا تفصیلات ڈال دیں‘ جنہیں پڑھ کر میں بے ہوش ( یا کہہ لیں حسد کا شکار) ہورہا ہوں کہ ان لوگوں نے اتنا کچھ کیسے کما لیا ہے اور کہاں سے یہ سب کچھ ان کے پاس آیا ہے۔ سینٹر اسرار زہری کہتے ہیں ان کے خاندان کے پاس 52 ہزار ایکڑ زرعی زمین ہے‘ تو سینٹرز جعفر اقبال گجر، اعتزاز احسن اور طلحہ محمود کے اثاثوں کی تفصیلات پڑھتے ہوئے دو دفعہ پانی پینا پڑا۔ امین فہیم کے اثاثے اتنے مہنگے ہوگئے ہیں کہ ان کی وہ قیمت تک نہیں بتا سکتے۔ چوہدری نثار علی خان نے گیارہ جائیدادیں ظاہر کی ہیں اور کسی کی مالیت لکھنا پسند نہیں کی کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا ۔اسحاق ڈار نے بیٹے کو 44 کروڑ روپے کا قرض حسنہ دے رکھا ہے تو سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بیس لاکھ کا قرض بیٹے کو دیا ہے اور وہ خود کوئی کاروبار بھی نہیں کرتے۔ اکثریت کا کہنا ہے وہ کوئی کاروبار نہیں کرتے پھر بھی اربوں کے اثاثے ہیں۔ تقریباً سب نے سٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگا رکھا ہے۔ بعض نے اسلام آباد میں دس کروڑ روپے کے گھر کی قیمت ستر لاکھ دکھائی ہے۔ ان کے سونے، زیورات کی تفصیلات پڑھیں تو دل دہل جاتا ہے۔
دوسری طرف 1971ء میں جو قرضہ 3.3 ارب ڈالرز تھا، وہ آج چالیس برس بعد 70 ارب ڈالرز ہوچکا ہے۔ بھٹو نے جاگیرداروں، صنعت کاروں اور سرکاری بابوئوں کی جس لوٹ مار کا ذکر کیا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ بنک آج بھی لٹ رہے ہیں، پاکستان آج بھی سوئی تک نہیں بنا سکتا۔ عالمی مارکیٹ میں ہم کوئی چیز نہیں بیچ سکتے۔ ان جاگیرداروں ، سیاستدانوں، صنعت کاروں اور سرکاری بابوئوں نے مل کر بھٹو کی روح سے‘ 14 اپریل 1972ء کو پاکستان ٹوٹنے کے تقریباً چارماہ بعد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کی گئی اس تاریخی تقریر کا خوب بدلہ لیا ہے‘ جو آج چالیس برس بعد قومی اسمبلی کی لائبریری میں پڑی خاک چاٹ رہی ہے اور یہ سب ہمیں مل کر لوٹ رہے ہیں اور ہم بے بسی سے لٹ رہے ہیں!! 
 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved