تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-12-2013

اے میرے وطن کے لوگو !

 
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
 
جب ایک ایک کر کے مہران بیس‘ کامرہ اور دوسرے مقامات میں کھڑے ہمارے جنگی جہاز تباہ ہوتے رہیں گے‘ جب مختلف یونٹوں میں موجود ہماری توپیں اور ٹینک تباہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی‘ جب ہمارے ہیلی کاپٹروں کو نقصان پہنچایا جاتا رہے گا تو فائدہ کس کو ہو گا؟۔یہ وہ سوال ہے جو میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ سوات آپریشن کی قیادت کرنے والے جنرل ہارون دنیا کے خطرناک اور مولوی فضل اﷲ کے زیرِ قبضہ علاقہ پر حکومتِ پاکستان کی رٹ بحال کرنے کیلئے اپنے جوانوں سے پہلے خود ہیلی کاپٹر سے اترے تو دنیا دنگ رہ گئی کہ ایک جرنیل دشمن سے مقابلے کے لیے اگلے مورچوں میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آپریشن کی خود قیادت کر رہا ہے۔ ایس ایس جی کے حوالدار زرک خان‘ محمد رفیق نیا زی، رب نواز اور قدرت اﷲ شہید جب دہشت گردوں کے حصار میں کودے ہوں گے تو کیا اس لمحے ان کے دلوں میں اپنے جوان ہوتے ہوئے بچوں کا خیال نہ آیا ہو گا ؟جی ایچ کیو سے ملحقہ ایک کمرے میں یرغمال بنائے گئے 39 افراد کی زندگیاں بچانے کے لیے جب ایس ایس جی کے یہ کمانڈو وطن دشمنوں کے بچھائے ہوئے آگ کے سمندر میں داخل ہوئے ہوں گے تو کیا انہیں سفید داڑھیوں اور جھریوں والے اپنے ضعیف باپ نظر نہ آئے ہوں گے ؟ کیا انہیں سفید چادروں میں لپٹی ہوئی اپنی مائوں کی ٹھنڈی آنکھوں کا سرور اور ممتا کی گرم گرم باہوں کا لمس محسوس نہیں ہوا ہو گا؟ کیا انہیں دور گھروں میں انتظار کرتی ہوئی کھنکھناتی چوڑیوں والی اپنی شریک حیات 
یاد نہ آئی ہوں گی؟ خو دکش بمبار کے تباہ کن بارود اور گولیوں کی پہلی بو چھا ڑ میں انہیں سب کچھ یاد آیا ہوگا اور ننھے منے ہاتھ پھیلائے اپنے معصوم بچوں کے چہرے بار بار ان کی نظروں میں گھومے ہوں گے اور چھٹی پر گھر جاتے ہوئے ان کی فرمائشیں بھی یاد آئی ہوں گی۔ شہید لیفٹیننٹ کرنل ہارون اسلام، کیپٹن سلمان، حوالدار خان محمد، نائیک افراسیاب، نائیک صدیق، لانس نائیک نصیر اور دیگر شہداء جب لال مسجد کی آگ میں کودے تھے تو انہیں بھی اپنی بوڑھی مائیں اور معصوم بچے یاد آئے تھے۔ جب کیپٹن بلال ظفر چودھری، کیپٹن عمران، میجر عابد مجید، لیفٹیننٹ عاطف قیوم اور لیفٹیننٹ علی شہید سوات کے آپریشن 'راہ راست‘ کی موت کی وادی میں اترے تھے تو ان کے سامنے دنیا کی ہنستی مسکراتی اور تمام سہولتوں سے آراستہ پرکشش زندگی موجود تھی‘ لیکن وہ عہد جو وہ کاکول میں‘ مردان میں یا چراٹ میں خاکی وردی پہنے سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے اپنے اﷲ سے کرتے ہیں وہ عہد انہیں دنیا کی ہر رنگینی سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اﷲ کو گواہ بنا کر پاکستان کی عزت پر مر مٹنے کی قسم انہیں دنیا کے ہر رشتے سے آزاد کر دیتی ہے۔ اس وقت ان کے دلوں میں فقط اﷲ کی عظمت و کبریائی کی مقدس روشنی ہوتی ہے جو ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ وہ عظمت جس کے سائے میں وہ سانس لیتے ہیں‘ وہ عظمت جس کا وہ ورد کرتے ہیں۔ چراٹ چھائونی کی حدود میں داخل ہوں تو چار ہزار فٹ سے زائد بلندی پر قائم پر شکوہ مسجد کے مینار آسمان کی بلندیوں کی طرف اٹھتے نظر آتے ہیں اور یہی چراٹ کا وہ ہیڈ کوارٹر ہے جس کے سائے میں یہاں تربیت پانے والے جانباز ہر وقت اﷲ کی وحدانیت کے آگے سر جھکا ئے رہتے
ہیں۔ اس چھائونی کی حدود میں ہر طرف اﷲ ہُو‘ اﷲ ہُو کی آوازیں جسموں میں نور بن کر سرایت کرتی ہیں یہی وہ نور ہے جو حوالدار زرک خان اور محمد رفیق جیسے ہزاروں جانبازوں کو نمرود کی بچھائی ہوئی آگ میں کود جانے کا ولولہ عطا کرتا ہے۔ اے اہل وطن‘ کبھی تصور میں جیتے جاگتے انسان کو ذبح ہوتے دیکھاہے؟ کبھی گردن پر چلنے والی چھری کی تیز دھار کو محسوس کیا ہے؟ نہیں کیا ہوگا تو ایک معمولی سی سوئی کو اپنی انگلی میں چبھو کر دیکھو‘ اپنی انگلی پر بلیڈ کی دھار کو ہلکا سا دبا کر دیکھو‘ پتہ چلے گا کہ بھارت کے وفاداروں نے کس طرح مسلمانوں کے بچے ذبح کیے ہیں‘ مائوں کے لال ذبح کیے ہیں‘ان بچوں پر کیا بیتی ہو گی؟ اس وقت ان کی مائوں کی حالت کیا ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! 
 
وہ جاں کنی کا سماں لا الہٰ الا اﷲ
شہیدوں کی وہ اذاں لا الہٰ الا اﷲ
وہ ان کا سجدۂ آخر وہ حق سے راہ و نیاز 
لہو سے اپنے وضو صبحِ قتل کی وہ نماز 
 
جس طرح اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے مجاہدوں کے گھوڑوں کے سموں کی اڑتی ہوئی دھول کی قسم کھائی ہے‘ میں فوجی بوٹ پہنے ہوئے پاکستان کی حفاظت کرنے والے ان شہیدوں اور غازیوں کے پائوں کی دھول کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ فوج کو بد نام کرنے والے یہ ''دانشور‘‘ وطن کی حفاظت کیلئے جان دینے والے افسروں اور سپاہیوں کے بوٹوں کی دھول کے برا بر بھی نہیں ہیں‘ آپریشنِ راہ راست میں جو سجدۂ شبیری کی پیروی کرتے ہوئے وطن دشمنوں کے ہاتھوں ذبح ہوئے‘ مجھے قسم ہے ان کے لہو کی ایک ایک بوند کی کہ شہادت ان کی میراث ہے۔ ان سے کوئی شکوہ نہیں جو ہماری فوج سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ وہ اس فوج کے دوست کیسے ہو سکتے ہیں جن کی دوستی ان کی مقابل فوج سے ہے۔ ان کی کمانوں سے چلائے ہوئے تیروں سے شہیدوں اور غازیوں کے جسم نہ جانے کب سے چھلنی ہو رہے ہیں۔ پشاور یا پاکستان کی کسی مارکیٹ اور با زار میں کسی کام کے لیے یا گھریلو ضروریات کی خریداری کے لیے یا اپنے یا گھر کے کسی فرد کے علاج کے لیے با ہر نکلنے والے جب بم دھماکوں کا نشانہ بنتے ہیں‘ کسی سکیورٹی چیک پوسٹ یا کسی ناکے پر کھڑی یا بچے بچیوں کو سکول سے لانے کے لیے کسی بس یا ویگن کو جب بارودی سرنگ اور بم دھماکے سے اڑا دیا جاتا ہے تو کیا ان سفاک اور خونخوار درندوں اور ان کے مخبروں کو دیکھ کر ہماری تمام سکیورٹی فورسز ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے یہ کہا کریں کہ ''بہارو پھول برسائو میرا محبوب آیا ہے‘‘؟ 
منور حسن صاحب نے آپ کے بارے میں جو کہا اسے بھول جائو۔۔ تم شہید ہو کیونکہ تم نے لا الہ کے نام پر بننے والے ملک کی حفاظت کی قسم کھائی ہے۔ تم شہید ہو کیونکہ تم کشمیر کی ایک لاکھ سے زائد بیٹیوں کی عصمتوں کو لوٹنے والوں سے نبرد آزما ہو۔ تم شہید ہو کیونکہ تم پاکستان کی ایک ایک مسجد کے نگہبان ہو۔ تم شہید ہو کیونکہ تم نعرہ تکبیر‘ اﷲ اکبر کی پکار ہو۔ میری جان سے پیاری سپاہِ وطن‘ کسی بھی قسم کے زہریلے پراپیگنڈے سے محتاط رہنا‘ ہوشیار رہنا اور وطن کی حفاظت کے لیے اپنے اٹھنے والے قدم ''راہ راست‘‘ پر بڑھاتے جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔!
 
ہوشیار کہ گرِ جائیں نہ قلعوں کی فصیلیں۔۔۔
عقابوں کے نشیمن پر قابض نہ ہوں چیلیں
لٹ جائیں نہ یہ کوثر و زم زم کی سبیلیں۔۔۔۔۔ 
چھن جائیں‘ نہ دریا‘ تیرے چشمے‘ تیری جھیلیں
اے مردجواں، مردجواں، مردجواں دیکھ 
 
سوات، دیر،مالا کنڈ اور مقبوضہ کشمیر سمیت پاکستان بھر کی سڑکوں ، مارکیٹوں، بازاروںاور راستوں میں بم دھماکوں میں شہید ہونے والے پولیس‘ ایف سی‘ خاصہ دار فورس اور لیویز کے وہ شہیدانِ وطن جن کا کہیں ذکر ہی نہیں‘ ان سب کو سلام اور پاکستان کے معصوم بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں، مائوں اور بہنوں سمیت ان پچاس ہزار سے زائد گمنام شہیدانِ وطن کو سلام جو کسی بھی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلے اور واپس نہ لوٹے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved