تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     27-12-2013

جرمِ ضعیفی

کعبتہ اللہ کے گرد طواف کرتے ہوئے میں دیوانہ وار روتا رہا۔ 4سالہ عابر کچھ نہ جانتے ہوئے بھی سہما ہوا تھا۔ میرے 7بچوںمیں سے اب وہی تو بچا تھا۔ ظالم امریکی افواج نے بغداد میں میرے پورے خاندان کو قتل کر ڈالا تھا۔میں ، جو کبھی صدام حسین کا وزیرِسائنس و ٹیکنالوجی تھا اور جسے چشمِ فلک نے کبھی سرجھکائے نہ دیکھاتھا، آج مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا۔ گزرے برسوں کے حادثات میری صحت پر بری طرح اثر انداز ہوئے تھے ۔ ذرا سا چلنے کے بعد سانس پھولنے لگی تو عابر کا ہاتھ پکڑ کر میں نمازیوں کے لیے مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا۔اپنے دورِ اقتدار میں ، میں ہر سال اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آتا تھا ۔وہ لمحات بار بار مجھے یاد آتے تھے ۔ میری سانس سینے میں اٹکنے لگتی تھی ۔ایسا لگتاتھا کہ آنکھیں کبھی خشک نہ ہوں گی ۔ایک ستون سے ٹیک لگا کر میں نے آنکھیں موند لیں ۔ ''سب قتل کر دیئے گئے ؟‘‘ایک لرزتی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ایک ضعیف بزرگ جانے کب میرے ساتھ آبیٹھا تھا اور بغور میرا جائزہ لے رہا تھا۔ شاید خدا نے اسے میری تالیفِ قلب کے لیے بھیجا تھا۔ ''جناب آپ تو سب جانتے ہیں ۔ میرا دل کسی پل قرار نہیں پاتا۔‘‘میں نے گلوگیر لہجے میں کہا اور اس نیک بزرگ کے پائوں پر اپنے ہاتھ رکھ دئیے ۔اس کے چہرے پر ایک ناگوار ی سی دوڑ گئی ۔ آہستگی سے اس نے اپنے پائوں پیچھے کر لیے اور اپنی شائستہ آواز میں کلام شروع کیا:
''مسلم دنیا کا اصل بحران عسکری نہیں ، علمی ہے ۔ ہم تحقیق کے میدان میں موجود ہی نہیں ۔ وہ جس ٹیکنالوجی کو فرسودہ قرار دے کر پھینک دیتے ہیں ، ہم اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیتے ہیں ۔ اسی تحقیق کے بل پر ان کی فوجی ایجادات بھی ایسی اعلیٰ ہیں کہ زمین پر اترنے سے قبل ہی وہ شہر کو کھنڈر بنا ڈالتے ہیں ۔ مغرب کا سائنسدان جانتاہے کہ مشتری کی تہوں میں ہیرے دبے ہیں ۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے چاند ٹائٹن پر تیل کے دریا بہہ رہے ہیں ۔ وہ جانتاہے کہ سونا نیوٹران ستاروں کے تصادم سے وجود میں آیا۔ظاہر ہے کہ فوری طور پر وہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا لیکن ایک دن وہ یہ سب حاصل کر لے گا۔ وہ جانتاہے کہ ہر بڑی کہکشاں کے مرکز میں ایسے بلیک ہول موجود ہیں ، جو ستاروں کو نگل لیتے ہیں ۔ وہ کائنا ت کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے ۔وہ جانتا ہے ...وہ جانتا ہے ...‘‘بزرگ کی آواز بلند ہوتی چلی گئی ۔ میں حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔ میری دانست میں تو وہ میرے زخموں پہ مرہم رکھنے آیاتھا۔ اس نے آغاز میں کہا بھی یہی تھا کہ سب قتل کر دئیے گئے ۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ سب جانتاہے۔مجھے ایک ڈھارس بندھی تھی کہ اب میرے دل کو قرار نصیب ہوگا لیکن وہ تو کوئی اور ہی داستان سنانے لگا۔ گو میں خود سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر تھا لیکن اس کے انکشافات میری سمجھ سے بالاتر تھے ۔ ''جناب میرا خاندان...‘‘جب وہ خاموش نہ ہوا تو میں نے پھر فریاد کی ۔ 
''مغرب نے اینٹی میٹر (Anti Matter)کو ایک ذرا سا قابو کر لیا ہے ''وہ رکے بغیر بولتا رہا۔‘‘اور یہ مستقبل کی توانائی ہوگی ۔ اس نے روشنی سے تیز سفر کرنے والے ذرات دریافت کر لیے ہیں ۔ہم فلکیات پر اس کی بنائی دستاویزی فلموں کو بغور دیکھ بھی نہیں سکتے کہ ہمارے دماغ دکھنے لگتے ہیں ۔ کیا ہم مخبوط الحواس ہیں ؟ ہمارے دماغ کیوں سوئے پڑے ہیں ۔کیا ہم کسی بہت بڑے شاک کے انتظار میں ہیں؟ کیا ہمارے اندر تجسس کا مادہ سرے سے رکھا ہی نہیں گیا؟ کیا ہم صرف مغرب کی ایجادات سے فائدہ اٹھانے کے لیے بنے ہیں ؟ کیا ہم کرّہ ارض پہ صرف ایک بوجھ بن کر رہنا چاہتے ہیں ؟ نہیں ، ذہانت موجود ہے لیکن راستہ نہیں پاتی۔ اس ذہانت کو تلاش کرنا ہوگا۔ اسے سنوارنا ہوگا۔ اس کی پرورش کرنی ہوگی ۔ اسے موزوں ماحول دینا ہوگا۔ تحقیق پہ سرمایہ کاری کرنا ہوگی ۔اس سے قبل عرب دنیا کو ایک مشترکہ فوج اور ایسا میزائل پروگرا م بنانا ہوگا، جو مغرب کو حملہ آور ہونے سے روک سکے ۔ ہمیں عیش و عشرت سے منہ موڑنا ہوگالیکن یہ صدیوں کی عادات ہیں ، آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑیں گی ۔‘‘اس کی آواز اب چیخ سے مشابہہ ہو چکی تھی ۔ اس کی سب باتیں مجھے لایعنی محسوس ہو رہی تھیں ۔ مجھے تو اپنے بچّے یاد آرہے تھے ۔ جب وہ باز نہ آیا تو میں بھی چیخ چیخ کر اپنے مقتول فرزندوں کے نام لینے لگاکہ شاید اسے مجھ پہ ترس آئے ۔ میرا گلا بیٹھ گیا لیکن وہ بولتا رہا۔ 
''مغرب نے ادارے تعمیر کر لیے ہیں ، ہمارے پاس صرف بادشاہ ہیں ۔ ہم امریکہ اور مغرب کو ایک ہی دن میں نیست و نابود کردینا چاہتے ہیں ۔ عقل کے نام سے ہمیں چڑ ہے ۔ ہم پہ وحشت طاری ہے ۔ ہم ''امریکہ مردہ باد‘‘کے سوکھے نعرے لگانے میں مصروف ہیں لیکن عرب دنیا میں اس کی بڑھتی مداخلت روکنے کے لیے ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں ‘‘بالآخر وہ خاموش ہو گیااور اس نے آنکھیں موند لیں ۔ اب مجھے حوصلہ ہوا۔ شاید وہ کسی وقتی رو میں بہہ گیا تھا۔ مجذوب ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ۔ اب وقت تھا کہ میں اپنی دکھوں کی گٹھڑی اس کے حضور پیش کر کے پرسکون ہو جاتا۔''جناب امریکیوں نے میرا پورا خاندان قتل کر ڈالا‘‘''کمزوروں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ‘‘اس نے آنکھیں کھولے بغیر کہا ''اچھا ہوا وہ مارے گئے ‘‘اچھا تو میری ساری عقیدت کا جواب یہ تھا۔ میں خواہ مخواہ ایک گھنٹے سے اس کی لایعنی بکواس سن رہا تھا۔ میرا دل چاہا کہ اس شیطانی بڈھے کی گردن دبا دوں لیکن مسجد الحرام میں شرطے ہر جگہ موجود تھے ۔ میں نے عابر کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹتا ہوا باہر نکل آیا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved