آج کالم لکھتے ہوئے بمشکل ہنسی روک رہا ہوں۔ لطیفے ہیں کہ یکے بعد دیگرے چلے آ رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کی عمارت میں وزیر اعظم نے ایک نئے بلاک کا افتتاح کیا۔ قریباً 40 سال پہلے یہاں جزوی طور پر خارجہ پالیسی بنا کرتی تھی۔ پالیسیاں بنانے کا کام آج بھی وزارت خارجہ سے باہر ہوتا ہے۔ عمارت میں البتہ ایک مزید بلاک کا اضافہ ہو گیا۔ اصل میں یہ عمارت ہوٹل شہزاد کی تھی۔ اچانک حکومت کو احساس ہوا کہ ہوٹلوں میں تو دو چار راتوں کے مہمان قیام کرتے ہیں۔ ایسے ہوٹل بنتے رہیں گے۔ ساری وزارت خارجہ کے لئے تھوڑے تھوڑے دن پورا ہوٹل بک کرانا مشکل ہو گا۔ شہزاد ہوٹل کے سارے کمرے حکومت نے وزارت خارجہ کے لئے بک کرا لئے۔ وہ دن اور آج کا دن‘ وزارت خارجہ‘ ہوٹل میں قیام پذیر ہے‘ جس کے سارے افسر اور اہلکار ہوٹل میں پڑے مہمانوں کی طرح وقت گزاری کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس جو فائلیں آتی ہیں‘ وہ ایک دن وزارت خارجہ میں پڑی رہیں یا 6 مہینے‘ پالیسی میں فرق نہیں پڑتا؛ البتہ اس وزارت کے حوالے سے انتہائی دلچسپ بیانات دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں سفیر کی کرسی 7 ماہ سے خالی پڑی ہے۔ امارات میں سفیر کی جگہ ہم‘ 10 دن خالی نہیں رہنے دیتے۔ ہماری ترجیحات ہی کچھ ایسی ہیں۔ امریکہ میں سال بھر سفیر نہ رہے تو ہم کام چلا لیتے ہیں۔ دبئی میں 10 دن مشکل سے نکلتے ہیں۔ کسی بھی سفیر کے تبادلے یا رخصت میں‘ دو چار مہینے باقی ہوتے ہیں کہ نئے امیدوار زور آزمائی کرنے لگ جاتے ہیں اور پرانے سفیر کی رخصت سے ہفتہ پہلے‘ اس کا جانشین دبئی پہنچ کر ڈیرے ڈال دیتا ہے۔ ڈیوٹی فری میں چارم ہی ایسا ہے۔
لطیفوں کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ لگتا ہے کہ حکومت نے رواں سال کے دسمبر میں‘ آخری جمعے کو یوم لطیفہ قرار دے دیا تھا۔ افتتاح وزیر اعظم سے کرایا گیا۔ وزیر اعظم نے پہل کرتے ہوئے اپنا حصہ یہ کہہ کر ڈالا کہ ''دور حاضر میں سفارتکاری کو انتہائی اہمیت حاصل ہے‘‘۔ طنز کی وضاحت اس خبر میں آ گئی کہ وزیر اعظم نے ایک دن پہلے امریکہ کے لئے نامزد سفیر جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کی تھی‘ جو 7 مہینے سے خالی پڑی سفیر کی جگہ‘ ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے روانہ ہو رہے ہیں۔ اگر تو انہوں نے امریکہ پہنچتے ہی اسناد سفارت پیش کرنے کا وقت مانگ لیا‘ تو ہو سکتا ہے دو تین ہفتوں میں مل جائے اور وہ باضابطہ سفارتی ذمہ داریاں شروع کر دیں۔ اگر انہوں نے وقت مانگنے میں ہی مزید پانچ چھ مہینے لگا دیے‘ تو سفیر کا عہدہ مزید اتنے عرصے کے لئے خالی پڑا رہے گا‘ کیونکہ ''جدید دور میں سفارتکاری کو بے حد اہمیت حاصل ہے‘‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک رائے دیں اور اسی حکومت کے وزیر اور سفیر مختلف قسم کے خیالات کا اظہار کرنے کی جرات کر سکیں؟ حسب روایت یہی ہوا۔ نامزد سفیر موصوف نے بھی نئی حیثیت میں جو پہلا بیان جاری کیا‘ وہ یہی تھا کہ ''دور حاضر میں سفارتکاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے‘‘۔ رپورٹر حضرات نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ وہ یہ لطیفہ سنانے سے پہلے ہنس پڑے تھے‘ لطیفہ سنانے کے بعد ہنسے یا درمیان میں ہی ہنستے رہے؟ پاکستان میں یوں تو ہر وزارت ہی لطیفے تخلیق کرنے کے مرکز کی حیثیت رکھتی ہے‘ لیکن سرفہرست دو وزارتیں ہیں۔ ایک وزارت خارجہ اور دوسری وزارت دفاع۔ دونوں وزارتیں اتنی خوش قسمت ہیں کہ ان میں کام کرنے والوں کو بلاوجہ کی محنت مشقت میں سر نہیں کھپانا پڑتا۔ اصل کام وہ لوگ کر دیتے ہیں‘ جن کے سامنے نہ کسی میں انکار کی ہمت ہوتی ہے‘ نہ اختلاف کی جرات۔ دونوں وزارتوں کے افسروں و اہلکاروں کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا وقت صرف کرنے کے لئے کون سا کام ڈھونڈیں؟ چنانچہ وہ دیگر وزارتوں میں اپنے ہم منصبوں یا دوستوں کو فون کرتے ہیں۔ ان سے مشورے کرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ آج وہ کیا کر رہے ہیں؟ جواب میں دوسری طرف سے دریافت کیا جاتا ہے کہ ''آج تو آپ نے کمال کر دیا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ آپ کو فون کر کے پوچھا جائے کہ آج کیا کرنا چاہیے؟ پلیز! جلدی سے سوچ کر بتائو کہ آج میں کیا کام کروں؟‘‘جواب ملتا ہے''میں تو اپنے لئے بڑی دیر سے یہی سوچ رہا تھا اور فون تمہیں اس لئے کیا ہے کہ تم سے کوئی کام پوچھ لوں۔ مگر آگے سے تم بھی اسی جستجو میں ہو۔ اچانک میرے ذہن میں ایک ایسا کام آ گیا ہے جو ہم دونوں ہی ایک ساتھ کر سکتے ہیں۔ کیوں نہ آج اسلام آباد کلب میں اکٹھے لنچ کیا جائے؟‘‘ اسلام آباد کی تمام وزارتوں میں افسروں اور اہلکاروں کے لئے پسندیدہ ترین کام یہی ہوتا ہے۔ کسی بھی دوپہر کو لنچ ٹائم میںاسلام آباد کلب جا کر دیکھئے۔ آپ وہاں پاکستان کی ٹاپ بیوروکریسی کو دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے کہ اسے کام کا کتنا شوق ہے؟
میں دوپہر کے وقت جب کبھی اسلام آباد کلب گیا ہوں‘ تو مجھے یہ الزام ہمیشہ بے بنیاد لگتا ہے کہ بیوروکریسی کچھ نہیں کرتی۔ دوپہر کے وقت اسلام آباد کلب کے ڈائننگ ہال بلکہ مختلف ''ڈائننگ ہالات‘‘ میں جا کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے بیوروکریٹس کتنے محنتی اور جفاکش ہیں؟ میں اس الزام سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا کہ میڈیا پر کروڑوں روپے کے اشتہارات صرف بیوروکریسی کو یہ سمجھانے کے لئے نشر اور شائع کئے جاتے ہیں کہ ''ذرا سوچئے!‘‘ ایسی ترغیبات ان لوگوں کو دی جاتی ہیں‘ جو سوچنے سمجھنے پر توجہ نہ دیتے ہوں۔ ہمارے بیوروکریٹس تو ہر وقت سوچتے رہتے ہیں۔ صبح اٹھتے ہی سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ ناشتے میں کیا کھایا جائے؟ دنیا کے مشکل ترین کام دو ہوتے ہیں۔ کیا کھایا جائے؟ کیا پکایا جائے؟ عام طور پر ان دونوں سوالوں کا جواب ڈھونڈنا خواتین کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ یہ صرف خواتین کے لئے ہی مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے بیوروکریٹس‘ اخبار پڑھنے کے دوران طے کر لیتے ہیں کہ ناشتے میں کیا کھایا جائے؟ البتہ لنچ کے لئے ''بین الوزارتی مذاکرات‘‘ میں فیصلہ ہوتا ہے کہ کیا کھایا جائے؟ اور رہ گیا ڈنر‘ تو اس میں ہر کوئی اپنے اپنے لئے سوچتا ہے کہ کیا کھایا جائے؟ اس سوال پر ہر امیر غریب کو سوچنا پڑتا ہے کہ کیا کھایا جائے؟ البتہ اس ایک سوال کے مطلب جدا جدا ہیں۔ افسر کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ انواع و اقسام کے کھانوں میں سے کیا چنا جائے؟ جبکہ غریب کے لئے اس سوال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ محرومیوں کے خالی دسترخوان سے کیا کھایا جائے؟ کچھ ہوتا ہی نہیں۔ البتہ 18 کروڑ کی یہ قوم ایک سوال پر اتفاق رائے رکھتی ہے کہ ''کیا کیا جائے؟‘‘ اور پھر لاجواب ہو کر کف افسوس ملتی ہوئی کہتی ہے ''کیا کیا جائے؟‘‘ وقت بے بسی کے پیکروں کے اس سوال پر جواب دیتا ہے ''تم کچھ نہیں کر سکتے؟‘‘ جو قوم 66 سال میں یہی فیصلہ نہیں کر سکی کہ ''کیا کیا جائے؟‘‘ اسے اسی کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ زمانہ یہی کر رہا ہے۔