عالم الغیب اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہی ہے جو آنے والے زمانوں کے رازوں سے واقف ہے۔ اسی کے علم اور دستِ قدرت میں ہے کہ آنے والا پل کس کے حق میں کیا فیصلہ دے۔ دنیا میں کس کو مقام عبرت بنا دیا جائے اور کس کو عزت سے سرفراز کیا جائے۔ وہی جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے، جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل و رسوا کر دے۔ قرآنِ پاک میں جس آیت میں اللہ نے اپنی اس ہیبت کا ذکر کیا ہے، اسی آیت کے آخر میں فرمایا کہ '' اُس کے ہاتھ میں خیر ہے‘‘۔ یعنی جب وہ کسی کو بادشاہت عطا کر رہا ہوتا ہے یا چھین رہا ہوتا ہے، کسی کو عزت دے رہا ہوتا ہے یا ذلیل و رسوا کر رہا ہوتا ہے تو ان سب میں مخلوق کی بھلائی چھپی ہوتی ہے۔ جب وہ بستیاں غارت کرنے کا حکم صادر فرماتا ہے تو پوری بنی نوعِ انسان کو ایک ایسی بستی کے لوگوں سے نجات دلاتا ہے جو اجتماعی طور پر قابلِ اصلاح نہیں رہی ہوتی‘ جس کے باسی اپنے اعمال پر نادم نہیں ہوتے بلکہ اپنی برائیوں پر فخر کرتے ہیں۔ اس طرح وہ آنے والے زمانے کے لوگوں کو خبردار کرتا ہے کہ دیکھو میں نے کس طرح کے لوگوں، کیسی قوموں اور کن اعمال پر بستیوں پر عذاب نازل کیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اس علم غیب سے امتوں کو خبردار کرنے کے لیے اپنے رسولوں اور پیغمبروں علیھم السلام کو آنے والے زمانوں کی خبر دیتا رہا ہے۔ یہ ان کے کار نبوت کے لیے اللہ جلّ شانہٗ کی جانب سے خاص رہنمائی ہوتی ہے۔ سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں، آپ پر نبوت کا دروازہ بند ہو چکا اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا، اسی لیے آپ کو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آخری زمانے، یعنی اپنی امت کے بارے میں فرمایا: ''دوسری امتوں کے مقابلے میں تم لوگوں کا وقت ایسے ہے جیسے عصر اور مغرب کا درمیانی وقت‘‘۔ (صحیح بخاری) جس کا مطلب یہ ہے کہ غروبِ آفتاب یعنی قیامت کی گھڑی قریب ہے اور اس امت کی عمر انتہائی مختصر ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیامت کے قریب کے زمانے کے بارے میں کھول کھول کر نشانیاں بتائی ہیں۔ یہ تمام نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ علم سے بیان فرمائیں کہ یہی اس ذات بے ہمتا کا کلیہ اور قانون ہے۔ وہ فرماتا ہے: ''وہی غیب کی بات جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیںکرتا، ہاں جس پیغمبر کو وہ پسند فرمائے‘‘۔ (الجن: 26)
یوں تو احادیث کی ہر کتاب میں محدثین نے''الفتن‘‘ کے نام سے باب ضرور باندھا ہے اور نعیم بن حمّاد نے تو صرف اسی آخری دور کے بارے میں دو ہزار احادیث جمع کیں اور کتاب کا نام بھی''سنن الوردہ الفتن‘‘ رکھا، یعنی فتنوں کا وہ زمانہ جو قرب قیامت میں ہو گا، جس میں بڑی بڑی جنگیں ہوں گی، یاجوج اور ماجوج پوری انسانیت پرغلبہ حاصل کر لیں گے، سیّدنا امام مہدی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم کریں گے، دَجّال کا خروج ہو گا اور پھر اللہ تبارک و تعالیٰ دجّال سے جنگ کے لیے سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی قدرت خاص سے دنیا میں نازل کریں گے۔ ان تمام واقعات میں سے دو واقعات کا اشارہ قرآنِ حکیم میں ملتا ہے۔۔۔ ایک یہودیوں کا یروشلم میں واپس لوٹ آنا اور اس کے ساتھ ہی یاجوج اور ماجوج کا دنیا پر غلبہ حاصل کر
لینا۔ باقی تمام کے بارے میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت تفصیل سے بتایا، یہاں تک کہ سیّدنا امام مہدی اور سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کا حلیہ اور نام و نسب تک بتا دیا۔ ان تمام احادیث میں حضرت عیسیٰؑ کا نام عیسیٰ ابن مریم کہہ کر پکارا گیا تا کہ کوئی اس دھوکے میں نہ رہے کہ کوئی اور بھی مسیح ہو سکتا ہے۔ یاجوج اور ماجوج کے کھلنے اور یہودیوں کے یروشلم میں واپس لوٹنے کو ایک ہی وقت باہم منسلک بتایا گیا ہے اور سورہ انبیاء میں اسے واضح کیا گیا تاکہ علم ہو جائے کہ جیسے ہی یہ واقعات ہوں تو سمجھ لوکہ دور فتن یعنی آخری زمانے کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ آغاز اب سے تقریباً پانچ دہائیاں پہلے ہو چکا ہے جب یہودی یروشلم میں واپس لوٹنا شروع ہوئے۔ اس دور میں جو ہونے والا ہے اس کا اجمالی خاکہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتا دیا لیکن اس امت کی لمحہ بہ لمحہ رہنمائی بھی تو ضروری تھی، خاتم النبیینﷺ کے بعد اب یہ رہنمائی کیسے ملتی، لیکن اللہ اپنے بندوں کے لیے اپنے علمِ خاص سے رہنمائی کا راستہ کھلا رکھتا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''میرے بعد نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں بچا‘‘۔ آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبشرات کیا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''اچھے (سچے) خواب جو انسان دیکھتا ہے یا اسے دکھائے جاتے ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری)۔ ان خوابوں یعنی جو دیکھے یا دکھائے جاتے ہیں، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور بات واضح کر دی ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''جب قیامت کا زمانہ قریب ہو گا تو مسلمانوں کے خوابوں کو بہت کم جھٹلایا جائے گا اور تم میں سب سے زیادہ سچے خواب دیکھنے والا سچی بات کرنے والا ہو گا اور مسلمان کا خواب نبوت کا پینتالیسواں حصہ ہے‘‘۔ (ترمذی) یہ وہ زمانہ ہو گا جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جھوٹ اور مکروفریب کا دور ہو گا۔ فرمایا‘ ''دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکے اور فریب کے ہوں گے، سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا، خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار کو خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا‘‘۔ (مسند احمد)۔ ایسے دور میں سچے لوگوں کا دم کتنا غنیمت ہوتا ہے اور ان کا ساتھ کتنی بڑی نعمت! اسی لیے تو اللہ نے فرمایا کہ ''سچوں کے ساتھ ہو جائو‘‘۔ یہی لوگ ہیں جو آج کے اس دور فتن میں مشعل کی طرح رہنمائی فرماتے ہیں۔ یہ اہلِ نظر بھی ہیں اور صاحبانِ بصیرت بھی۔ ان میں کتنے ایسے ہیں جو دعائے نیم شب میں اس امت کے لیے اللہ کے غیظ و غضب سے پناہ مانگتے ہوئے ہچکیوں سے روتے ہیں اور خوف سے تھرتھراتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایسے لوگ کون ہیں، کہاں ہیں، ان کی پہچان کیا ہے؟ کس قدر آسان ہے ان کی شناخت، وہ دور جس میں دھوکہ اور فریب عام ہو، اس میں رزق حلال کھانے والے، ہمیشہ سچ بولنے والے اور مصلحت سے پاک حق گو ہی تو وہ لوگ ہیں جن پر اللہ اپنے علم کے دروازے کھولتا ہے۔
گزشتہ پچیس برسوں سے میں ایسے لوگوں کی تلاش میں سرگرداں رہا ہوں۔ جس دفتر، گلی، محلے، علاقے اور بستی میں کسی ایسے فرد کا علم ہوا جس کی سچائی کا چرچا تھا، جو حق گوئی پر لوگوں کے عتاب کا شکار تھا، جس کی زندگی رزق حلال اور سیّدالانبیاءﷺ کی اتباع میں گزر رہی تھی، نرم خو، امت کا درد رکھنے والا تو اس کے قرب میں چند لمحے ملنے کو سعادت سمجھتا تھا۔ ان پچیس برسوں میں میرے ملک پاکستان کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی رہی، یہ لوگ پچیس سال اللہ کی ناراضگی سے ڈراتے رہے، اللہ سے استغفار کا کہتے رہے، لوگوں کو اللہ کی جانب رجوع کی دعوت دیتے رہے، اپنے خوابوں کا ذکر کرتے تو خوف سے کانپ اٹھتے، پھر ایک دم چونک کر کہتے: اگر لوگوں نے ٹھیک ہونے کا فیصلہ نہ کیا تو پھر اللہ نے اس سرزمین سے جھاڑ جھنکار کو صاف تو کرنا ہے، یہ بشارتوں کی سرزمین ہے۔ دورِ فتن میں اللہ کے بندوں کی لشکرگاہ ہے۔ حالات خراب ہوتے رہے، میرے جیسے صبر سے عاری لوگ پکارتے: ''کب ہو گا؟‘‘ وہ تسلیاں دیتے اور کہتے دعا کرو کہ ہم لوگ خود ہی ٹھیک ہو جائیں ورنہ اللہ نے اگر ہمیں ٹھیک کرنا شروع کر دیا تو پھر بہت نقصان ہو جائے گا۔ میرے جیسے بے صبر لوگ پھر بھی کہتے کہ ''ہونے دیں‘‘ یہ لوگ فرماتے: ایسا مت سوچو، آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے تو بہتر ہے۔ لیکن کبھی کبھی ہمارے جیسے ضدّی لوگوں کی ضد سے تنگ آ کر یا پھر حالات کی زبوں حالی سے پریشان ہو کر بے خودی میں ان کے منہ سے 2014 ء کے سال کا ذکر نکلتا۔ پھر کہتے، سب اللہ کو معلوم ہے لیکن اس سال میں کچھ ایسا ضرور ہو سکتا ہے کہ سب کچھ بدل جائے، سب صحیح ہو جائے، سارا علم اللہ کے پاس ہے۔ لیکن گزشتہ چھ ماہ سے جس طرح یہ سچے لوگ سچے خواب دیکھ رہے ہیں، وہ تو بتاتے ہیں کہ اب اس ملک سے کھلواڑ کے دن ختم ہونے والے ہیں، بہت ہو چکا، اب بس!!