تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-12-2013

بختو بجھاک اور مخدوم کی کرامت

آپ یقین کریں مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ میں سید یوسف رضا گیلانی کو داد دوں یا بختو بجھاک کو۔ بندہ کبھی کبھی بہت زیادہ کنفیوز بلکہ پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا کیا نتیجہ نکالے؟ ایک بائولر پٹ رہا تھا، شاہد آفریدی کی طرح فارم میں آیا ہوا بلے باز اس کی پٹائی کر رہا تھا، لیکن تین چار اوورز میں بری طرح ذلیل ہونے کے باوجود مایوس نہیں تھا۔ شاید ایسے موقع کے لیے ہی کہاوت بنی ہے کہ مایوسی کفر ہے۔ ایک اوور کا ریسٹ لینے کے بعد اگلا اوور شروع ہونے لگا تو وہ لپک کر کپتان کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ اسے ایک اوور اور دیا جائے۔ کپتان نے اسے استہزائیہ نظروں سے دیکھ کرکہا: تمہارے چار اووروں کے باعث مخالف ٹیم کا رن ریٹ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے اور تم ابھی ایک اور اوور مانگ رہے ہو۔ نئے جوش و جذبے سے لبریز بائولرکہنے لگا سر جی! آپ مجھے ایک اوور تو دیں، میں اس بلے باز کو اپنی خاص بال کرائوں گا، آپ دیکھنا بلے بازکس طرح پریشان ہوتا ہے۔ اس کا اعتماد دیکھتے ہوئے کپتان نے اسے اگلا اوور کرانے کا اشارہ کیا۔ بائولر نے لمبا سا سٹارٹ لیا اور ایک نہایت فضول بال پھینکی۔ بلے باز نے چوکا جڑ دیا۔ شرمندہ ہو کر بائولر واپس پلٹا تو کپتان نے قریب آ کر اسے تھپکی دی اور کہنے لگا: واقعی یہ تمہاری سپیشل بال تھی اور تم نے بلے باز کو تو پریشان ہی کر دیا، اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس بال پر چوکا مارے یا چھکا۔ 
بالکل اسی طرح میں بھی پریشان ہوں کہ میں سید یوسف رضا گیلانی کو ان کے علم قیافہ کی داد دوں یا بختو بجھاک کے علم غیب کی تحسین کروں۔ آپ سید یوسف رضا گیلانی کو تو جانتے ہی ہوں گے، جناب رفیق احمد تارڑ کی طرح وہ ابھی تک اپنے آپ کو 
وزیر اعظم پاکستان سمجھتے ہیں اور عدلیہ کی طرف سے فارغ کیے جانے کے بعد عجیب و غریب بیانات دیتے رہتے ہیں۔ صدمے سے ایسی کیفیت کا طاری ہو جانا عام سی بات ہے۔ ماہرین نفسیات اس کیفیت کے بارے میں جو لفظ استعمال کرتے ہیں وہ خاصا مشکل ہے جو مجھے نہیں آتا؛ تاہم میرا خیال ہے کہ آپ میری بات ضرور سمجھ گئے ہوں گے۔ بہرحال، آپ سید یوسف رضا گیلانی سے تو اچھی طرح واقف ہیں مگر آپ یقیناً بختو بجھاک سے واقف نہیں ہیں بلکہ آپ ہی کیا، بختو بجھاک سے واقف تو میں بھی نہیں ہوں مگر میں نے اس کا واقعہ ضرور سنا ہوا ہے اور میری اس سے اتنی ہی واقفیت کافی ہے۔ 
خدا جانے یہ واقعہ کہاں کا ہے اور کب کا ہے اور اب تو مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ یہ واقعہ سنایا کس نے تھا۔ ویسے یہ تفصیلات غیرضروری ہیں۔ اس واقعے کی جگہ‘ وقت‘ مقام اور اس طرح کی دوسری تفصیلات سے اس واقعے کی کوئی مناسبت نہیں، بس اتنا پتا ہے کہ بختو نام کی ایک لڑکی کسی گائوں یا قصبے میں رہتی تھی۔ ممکن ہے کسی شہر کے محلے میں رہتی ہو۔ یہ اندازہ اس بنیاد پر لگایا جا رہا ہے کہ وہ کسی پوش علاقے کی رہائشی نہیں تھی بلکہ لوئر مڈل کلاس یا شاید اس سے بھی نچلی کلاس سے تعلق رکھتی تھی کیونکہ اس کی حرکتیں لوئر کلاس کی لڑکیوں جیسی تھیں۔ پوش علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں کرتی تو وہی کچھ ہیں جو بختو نے کیا تھا مگر ان کے ماڈرن والدین کا ردعمل ویسا نہیں ہوتا جیسا ردعمل بختو کی ماں کا تھا۔ اس واقعے کو جس 
طرح اس کے والدین نے بیان کیا، اپر کلاس کے ماڈرن والدین اس طرح بیان کرتے ہیں نہ اس پر اس طرح کا افسوس یا ملال ظاہر کرتے ہیں جس طرح بختو بجھاک کی ماں نے کیا تھا۔ معاف کیجیے گا، میں غیرضروری تفصیلات میں پڑ گیا ہوں، مجھے اس سے کیا غرض کہ اپرکلاس کی لڑکیاں گھر سے کس طرح بھاگتی ہیں اور لوئرکلاس کی لڑکیاں کیسے فرار ہوتی ہیں۔ 
بختو کے گھر سے صبح صبح اس کی ماں کے رونے کی آواز سن کر اڑوس پڑوس کی عورتیں بختو کے گھر اکٹھی ہو گئیں۔ بختو کی ماں کے رونے پیٹنے اور اڑوس پڑوس کی عورتوں کے فوراً اکٹھے ہو جانے پر میں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ کسی گائوں‘ قصبے یا شہر کے کسی لوئرکلاس کے رہائشی محلے کا ذکر ہے وگرنہ کالونیوں‘ ہائوسنگ سکیموں اور ڈی ایچ اے وغیرہ میں رہنے والی برگر کلاس کی لڑکیوں کی مائیں اس طرح اونچے اونچے روتی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے گھر میں اڑوس پڑوس سے عورتیں فوراً اکٹھی ہوتی ہیں۔ اس قسم کی انسانی ہمدردی پوش علاقوں سے رخصت ہو چکی ہے۔ بہرحال اڑوس پڑوس کی عورتوں نے بختو کی ماں سے رونے کی وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگی کم بدبخت بختو ان کی عزت کا جنازہ نکال گئی ہے اور رات کسی وقت کسی لڑکے کے ساتھ کپڑے اور زیور لے کر بھاگ گئی ہے۔ اپرکلاس کی الٹرا ماڈرن لڑکیاں اس طرح گھر سے نہیں بھاگتیں، وہ کورٹ میرج کرتی ہیں۔ اس قسم کی دقیانوسی حرکتیں صرف لوئر کلاس کی لڑکیاں کرتی ہیں۔ پھر بختو کی ماں نے روتے روتے بختو کی شان میں کافی تفصیلی لیکن ناقابل تحریر گوہر افشانی فرمائی۔ جب اس نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو اسے اچانک بختو کی اچھائیاں یاد آنے لگیں۔ اس نے اس کے سگھڑ پن‘ گھر گرہستی اور انتھک ہونے کا بیان کیا اور آخر میں کہنے لگی کمبخت نکل تو گئی ہے مگر تھی بڑی ''بجھاک‘‘ (پہیلیاں اور معمے حل کر لینے والی عقلمند) عورتوں نے پوچھا کیسے؟ اس کی ماں کہنے لگی، اللہ اسے غارت کرے بجھاک اتنی تھی کہ رات ہی کھانے کے دوران کہہ رہی تھی کہ صبح ہمارے گھر میں ایک فرد کم ہو گا۔ 
سید یوسف رضا گیلانی بھی بختو جیسے بجھاک ہیں بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ علم غیب کے ماہر۔ گزشتہ دنوں فرمانے لگے کہ مجھے نااہل کرنے کے بارے میں چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری نے پنجاب حکومت کو بتا دیا تھا کہ وہ مجھے نااہل قرار دینے والے ہیں۔ ان کے اس انکشاف کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کی نااہلی میں افتخار چودھری اور پنجاب حکومت کا گٹھ جوڑ تھا۔ واہ واہ! کیا علم غیب ہے اور کیا انکشافات ہیں۔ بختو بجھاک بھی اس بوجھ بجھارت پر انگشت بدنداں ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کو یہ تو پتا ہے کہ افتخار چودھری نے پنجاب حکومت کو کیا کہا مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ مخلوق خدا میں ان کے خاندان کی کرپشن کے بارے میں کیا افواہیں پھیل رہی ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے مال بنانے پر کیا خبریں گردش کر رہی ہیں، ان کے بیٹے کیا کر رہے ہیں، ان کے دوسرے اہل خانہ ان کا نام نامی کس طرح فروخت کر رہے ہیں، کس طرح سرکاری خرچے پر ناروے میں گلوکار اور موسیقار کے کھاتے میں سیر کر رہے ہیں۔ ایفیڈرین میں علی موسیٰ کا کیا کردار ہے، عبدالقادر کی ڈگری جعلی ہے، حجوسائیں ملازمتیں بیچ رہے ہیں، فوزیہ گیلانی ڈائریکٹ معاملات ہینڈل کر رہی ہیں۔ نرگس مخدوم سفارشی رقعے جاری کر رہی ہے، توقیر صادق اوگرا میں مال پانی بنا رہا ہے، او جی ڈی سی میں ان کا لگایا ہوا چیئرمین عدنان خواجہ میٹرک تک تعلیم یافتہ ہے۔ ایک ایکڑ اراضی سے بھی فارغ سید یوسف رضا گیلانی کے گھر میں جب ہن برس رہا تھا، وائی بلاک میں کوٹھیاں خریدی جا رہی تھیں، ملتان میں دوستوں کے نام پر زمینیں اور جائیدادیں بنائی جا رہی تھیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کو کسی بات کا علم نہیں تھا مگر یہ پتا تھا کہ چیف جسٹس پنجاب حکومت کو کیا پیغام دے رہا ہے۔ مخدوم کو یہ پتا نہیں تھا کہ مرحوم حامد رضا گیلانی کی شیر شاہ روڈ ملتان والی کوٹھی وہ جس کے نام پر خرید رہا ہے یا وہ اپنے نام پر خرید کر اسے تحفہ میں دے رہا ہے، وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد وہ اس پر قبضہ کر لے گا۔ مخدوموں کا علم غیب بھی کیا چیز ہے، دیکھنے پہ آئے تو خفیہ دفینے اور سازشیں دیکھ لے، نہ دیکھے تو گھر میں مچی ہوئی لوٹ مار نظر نہ آئے۔ بہرحال، یہ بڑے لوگوں اور مخدوموں کی باتیں ہیں میرے جیسا فقیر ان معاملات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved