تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-12-2013

بے نظیر بھٹو سے بلاول بھٹو زرداری تک

بے نظیر دختر بھٹو تھیں لیکن ان کا معاملہ وہ نہیں تھا جو فرزندِ اقبال کا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا اپنا ایک تشخص ہے۔ ایک ذی علم شخصیت جو مذہب، عمرانیات اور قانون کے باب میں صاحب الرائے ہیں۔ فکری اعتبار سے انہوں نے اقبال کی فرزندی سے نکلنے کی مقدور بھر کوشش بھی کی۔ اس سب کچھ کے باوجود آج بھی، جب کہ وہ زندگی کے نویں عشرے میں قدم رکھ چکے، ان کا تعارف یہی ہوتا ہے کہ ''آپ علامہ اقبال کے صاحبزادے ہیں‘‘
بے نظیر جب دنیا سے رخصت ہوئیں تو ان کا اپنا سیاسی ورثہ تھا۔ انہوں نے ایک نئی عصبیت کو جنم دیا۔ بلاشبہ یہ بھٹو عصبیت کا تسلسل تھا لیکن اس کے خدوخال پر اب بے نظیر کا رنگ نمایاں اور الگ سے دیکھا جا سکتا تھا۔ زرداری صاحب کا معاملہ البتہ بالکل مختلف تھا۔ وہ نئی عصبیت کو کیا جنم دیتے، انہوں نے موجود عصبیت کو بھی بے شمار خطرات سے دوچار کر دیا، جس کے وہ بزعمِ خویش وارث قرار پائے تھے۔ آج جب قیادت بلاول زرداری کو منتقل ہو رہی ہے تو ان کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس عصبیت کا تسلسل ہیں۔ بھٹو، بے نظیر یا زرداری؟ پہلی دو عصبیتوں کا ایک ساتھ نباہ تو ممکن ہے لیکن تیسری 'عصبیت‘ کا بوجھ ان کے ناتواں کندھے شاید نہ اٹھا سکیں۔ ''تیسری عصبیت‘‘ تو میں نے بروزنِ بیت کہہ دیا، ورنہ یہ تو ایک فردِ جرم ہے، جس کا بلاول کو جواب دینا پڑے گا، اگر وہ اس کو قبول کریں گے۔
ایک استثنائی معاملہ البتہ ایسا ہے، جس میں آصف زرداری صاحب نے بھٹو کے ورثہ کو آگے بڑھایا۔ ہر اعتبار سے ایک ناکام حکومت کے باوصف انہوں نے ہمیشہ وفاق کی سیاست کی۔ ''پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ ان کا کریڈٹ ہے جو انہیں ملنا چاہیے۔ وہ پانچ برس ایوانِ صدارت میں رہے اور اس دوران میں انہوں نے '' وفاقِ پاکستان‘‘ کا عَلم تھامے رکھا۔ کچھ لوگ اسے ریاستی اداروں کے ساتھ مفاہمت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن میرے نزدیک سبب جو بھی ہو، امرِ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے وفاقِ پاکستان کی سیاست کی اور اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے بی بی کی سیاست کا تسلسل برقرار رکھا۔ بے نظیر بھٹو نے بھی ہمیشہ وفاق کی سیاست کی، پاکستان کی بات کی اور ریاستی اداروں کے ناروا سلوک کے باوجود اپنی سیاست کو صوبائیت سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔
آج جب بلاول بھٹو عملی سیاست کے لیے پر تول رہے ہیں تو پاکستان کی بات کر کے اس تضاد کو کسی حد تک نبھا سکتے ہیں‘ جو ان کے والدِگرامی اور والدہ محترمہ کے سیاسی ورثے میں پایا جاتا ہے؛ تاہم اگر وہ ہمت کریں تو جماعت کو ایک نیا انداز نظر بھی دے سکتے ہیں‘ وہ انداز نظر جو پیپلز پارٹی کو ماضی کی اچھی روایات سے وابستہ رکھے لیکن اس کے ساتھ اسے مستقبل کی امید بھی بنا دے۔ میرے نزدیک اس حوالے سے چند کام ناگزیر ہیں۔
1۔ بلاول کو سب سے پہلے پیپلز پارٹی کی تاریخ کا ایک جائزہ لینا ہے۔ بھٹو صاحب کی پاکستانیت سے بے نظیر کی وفاقی سیاست تک، اس تاریخ کے مثبت پہلو کیا ہیں؟ اسی طرح بھٹو صاحب کی منتقم مزاج شخصیت سے زرداری صاحب کی عمومی شہرت تک، منفی پہلو کون سے ہیں، جن سے گریز لازم ہے۔
2۔ پیپلزپارٹی کی تاریخ کا وہ کون سا پہلو ہے جو دور جدید 
میں بھی عام آدمی کے لیے پُرکشش ہے؟ دنیا ایک فکری انقلاب سے گزر چکی۔ بے نظیر صاحبہ کو اس کا اندازہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہد میں نج کاری کی اس پالیسی سے رجوع کر لیا‘ جو بھٹو صاحب نے اپنے دور میں اختیار کی تھی۔ یہ ارتقا تھا۔ آج حالات مزید تبدیل ہو چکے۔ دنیا میں کچھ نئے تجربات ہو رہے ہیں۔ ان کو سامنے رکھتے ہوئے، انہیں اپنے نظری ورثے پر غور کرنا ہو گا۔
3۔ پیپلز پارٹی کے مخلصین کون سے ہیں؟ ان کے کھوئے ہوئے اعتبار کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح باصلاحیت لوگ کون ہیں اور وہ کیسے پارٹی کے لیے اثاثہ بن سکتے ہیں۔
4۔ جدید پیپلزپارٹی کی پہچان کیا ہو سکتی ہے؟ مثال کے طور پر بلاول نو جوان ہیں۔ ملک میں جوان قیادت کی بات کی جاتی ہے۔ کیا ان کے پاس کوئی ایسا نعرہ یا پروگرام ہے جو پاکستان کی نئی نسل کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے؟
میرے لیے ممکن ہوتا تو میں انہیں بھٹو خاندان کی وحدت کا مشورہ دیتا لیکن میں جا نتا ہوں یہ ممکن نہیں۔ یہ مفادات کا کھیل ہے۔ اس میں فاطمہ بھٹو اور بلاول بھٹو حریف ہیں، ساتھی (comrade) نہیں۔ یہ مشورہ دونوں میں سے کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔
ان سب کاموں کے لیے دو باتیں بطور مقدمہ ناگزیر ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں ایک تھنک ٹینک کی ضرورت ہے۔ یہ کام ان کے بس کا نہیں۔ انہیں چوہدری منظور احمد اور قمرالزمان کائرہ جیسے لوگوں کی فکری راہنمائی چاہیے۔ ان کے سب سے اچھے اتالیق تو ڈاکٹر بابر اعوان ہو سکتے تھے لیکن یہ بھی سردست بھٹو خاندان کی وحدت کی طرح ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ انہیں زرداری صاحب کے سیاسی سائے سے نکلنا ہو گا۔ اپنے والدِ گرامی سے بے نیاز ہو کر بھی سوچنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ زرداری صاحب بھی اگر بلاول کے سیاسی ارتقا سے دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ان میں آزادانہ سوچ پیدا کریں۔ وہ مشورہ ضرور دیں لیکن ان کے فکری ارتقا میں حائل نہ ہوں۔
بے نظیر بھٹو کی برسی پہ اگر پیپلزپارٹی اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ سکے تو یہی بی بی کو اس کا خراجِ تحسین ہو گا۔ (چند دن پہلے ڈاکٹرشکیل اوج صاحب کی کتاب ''تعبیرات‘‘کا ذکرکیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے پوچھا ہے کہ یہ کہاں سے مل سکتی ہے۔ یہ کتاب فیکیلٹی آف اسلامک سٹڈیز جامعہ کراچی نے شائع کی ہے) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved