قوم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے چیلنجوں سے نبردآزما ہے... صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''قوم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے چیلنجوں سے نبردآزما ہے‘‘ کیونکہ دراصل یہ کام بھی قوم ہی کا ہے ورنہ حکومت تو اپنے اصل کام میں لگی ہوئی ہے اور یہ اسی کی دعا برکت کا نتیجہ ہے جو اثاثوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور غریب دن بدن غریب ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ اس کی تقدیر میں ہی ایسا لکھا تھا اور ہر شخص اپنی تقدیر ساتھ لے کر آتا ہے جبکہ حکمرانوں کی تقدیر تو ٹرکوں پر لاد کر لائی گئی تھی اور اس سے غریب عوام کو بھی فائدہ پہنچا کیونکہ ان کے ڈرائیور‘ کلینر‘ دھیان کلینر اور پانڈی وغیرہ عوام ہی سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے بھی حکومت کے ساتھ ساتھ خوب دیہاڑیاں لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ ''جمہوریت کے استحکام کے لیے بے شمار قربانیاں دینا پڑیں‘‘ جبکہ میں اپنے حصے کی قربانی دینے کے لیے ہی اپنا سارا کاروبار چھوڑ کر حاضر ہوا ہوں جو مجھے اب ایوانِ صدر میں سرانجام دینا پڑتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک کو قائداعظم کا پاکستان بناکر
رہیں گے... بلاول بھٹو زرداری
پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنا کر رہیں گے‘‘ کیونکہ جب تک والد گرامی‘
سابق وزرائے اعظم‘ مخدوم امین فہیم اور رحمن ملک جیسے پارسا لوگوں کی دعائیں شاملِ حال ہیں ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنانے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا‘ جنہوں نے دیگر بے لوث ساتھیوں کے ہمراہ اپنے اعمالِ صالحہ سے گزشتہ پانچ برسوں میں یہ کام تقریباً کر بھی دیا تھا؛ تاہم جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے‘ اسے پوری کرنے کے لیے جملہ حضرات سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ اس میں کامیاب نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''کسی مسیحی کو پاکستان کا وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہوں‘‘ البتہ ہندو‘ سکھ اور باقی مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتوں کے افراد خاطر جمع رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کو ایسا بنائیں گے چاہے جان بھی چلی جائے‘‘ جبکہ اس سلسلے میں حامیوں کا ہر طرح کا تعاون بھی حسب معمول حاصل ہے۔ اگرچہ عام انتخابات کے بعد پارٹی کافی بے جان ہو چکی ہے اس لیے جان کی قربانی ذرا مشکل ہوگی کیونکہ بچی کھچی جان کی خود ہمیں بھی ضرورت ہوگی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں یومِ قائداعظم کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
بھٹو کو پھانسی چڑھوایا، مشرف
کو بچائوں گا...احمد رضا قصوری
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری نے کہا ہے کہ '' بھٹو کو پھانسی چڑھوایا، اب مشرف کو بچائوں گا‘‘ کیونکہ میں کوئی چھوٹا موٹا وکیل یا معمولی شخصیت نہیں ہوں جس کا ثبوت اس واقعے سے مل سکتا ہے کہ جب میں رکن قومی اسمبلی تھا تو ایک شخص جس کو میرا نام بھولا ہوا تھا مجھے ملنے کے لیے آیا‘ دربان سے عرض مطلب کی تو اس نے پوچھا کہ کون سے قصوری سے ملنا ہے وہ تو پانچ سات بھائی ہیں‘ جس قصوری سے ملنا ہے اس کا نام بتائو جس پر شخص مذکور نے میرا نام بتایا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں کیس کو گھما کر رکھ دوں گا اور اگر مشرف کے ساتھ کوئی نیکی بدی ہو بھی گئی تو یہ ان کی قسمت کی بات ہے جبکہ میں اتنی خوبیوں کا مالک ہونے کے باوجود قسمت کے معاملات میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا‘ اسے گھمانا تو بہت دور کی بات ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کررہے تھے۔
میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ حرکت
آپ نے اگلے روز اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر پڑھ ہی لی ہوگی کہ وظیفہ کی رقم نہ ملنے پر چین میں زیر تعلیم ایک سو پچاس پاکستانی سکالرز دربدر ہیں اور ان کی ڈگریاں خطرے میں پرگئی ہیں جبکہ ان پی ایچ ڈی سکالرز کو انٹرپروونشیل کوارڈینیشن منسٹری نے ماہانہ 400ڈالر ادا کرنا تھے اور تین برسوں میں انہیں ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیاگیا۔ اب یہ ایک معمول کی خبر تھی جسے اس قدر سنسنی خیز اور اشتعال انگیز بنا کر پیش کیاگیا کیونکہ یہ بات نہیں ہے کہ وزیراعظم کو ان کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں بلکہ دراصل وہ چاہتے ہیں کہ قوم کے یہ نونہال کسی کے دست نگر ہونے کی بجائے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھیں جبکہ وہ بڑی آسانی سے وہاں دوران تعلیم پارٹ ٹائم جاب کرکے نہ صرف اپنا خرچہ پورا کرسکتے ہیں بلکہ دامے ، درمے ،سخنے حکومت کی مدد بھی کرسکتے ہیں جبکہ اسی نظریہ کے تحت حکومت نے کشکول توڑ دیا ہے لیکن اس ٹوٹے ہوئے کشکول سے آگے لاتعداد کشکول بن گئے ہیں جنہیں محض اخلاقی طورپر استعمال کرنا پڑرہا ہے اور خود وزیراعظم ملکی مسائل حل کرنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں۔
اطلاعِ عام
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا حکمرانوں کے جملہ رشتے داروں سے التماس ہے کہ وہ جہاں جہاں بھی موجود ہوں‘ دفتر ہٰذا کو آگاہ فرمادیں اور اپنے اپنے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی بھی ارسال کریں تاکہ انہیں بھی دیگر اعزہ اور اقرباء کے ساتھ حکومتی عہدوں پر سرفراز کیا جا سکے اور اس طرح صاحبِ موصوف حقوق العباد کے سنہری اصول اور اللہ میاں کی ہدایت پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ ساتھ درخواست بھیجنے کی ضرورت نہیں‘ نہ ہی کوئی تعلیمی اہلیت لازم ہے۔ البتہ جو عزیز سرکاری منصب کی بجائے کسی ایجنسی‘ پرمٹ یا ٹھیکے وغیرہ میں دلچسپی رکھتے ہوں‘ کھل کر اور پوری تفصیل اور تعداد میں بیان کریں۔ دور بلکہ بہت دور کے رشتہ دار بھی بصد شوق رجوع کر سکتے ہیں۔ نیز اگر کوئی ایسا گھرانہ مالی مشکلات وغیرہ میں مبتلا ہو تو اس کی بھی اطلاع فوری طور پر دی جائے تاکہ اس سلسلے میں فوری کارروائی کی جا سکے۔ بینکوں کے نادہندہ افراد خصوصی توجہ فرمائیں تاکہ یہ قرضہ پہلی فرصت میں معاف کروایا جا سکے۔
المشتہر: شعبہ فلاح و بہبود حکومت پاکستان
آج کا مطلع
دل سے تری تحریر مٹا دیتا ہوں اکثر
قصہ یہ زبانی ہی سنا دیتا ہوں اکثر