اس کی عادت تھی کہ خاندان کے افراد کے لیے صبح اور رات کا کھانا بنانے کے دوران روٹیاں پکاتی تو ایک روٹی زائد بنا لیتی۔ کھانا کھانے کے لیے بیٹھنے سے پہلے وہ اس اضافی روٹی پر کچھ سالن رکھ کر اسے گھر سے باہر کھلنے والی کھڑکی کے قریب ایک سل پر رکھ دیتی تاکہ وہاں سے گزرنے والا کوئی فقیر یا ضرورت مند اسے کھا لے اور اپنی بھوک مٹا لے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے جاری تھا جب سے اس کا نوجوان بیٹا تلاش روزگار اور بہتر مستقبل کی خاطر دور دراز کے کسی بڑے شہر گیا تھا۔ چند روز تک تو اسے اپنے بیٹے کی خیر خیریت کی اطلاع ملتی رہی لیکن اب کوئی بیس بائیس دنوں سے اس سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ اسے یہ احساس نہ تو چین سے بیٹھنے دیتا اور نہ ہی سونے دیتا تھا کہ اس کا بچہ نہ جانے کس حالت میں ہو گا۔ اس نے کچھ کھایا بھی ہو گا یا نہیں۔ بس اسی سوچ کے تحت وہ ایک اضافی روٹی پکا کر کھڑکی کے باہر رکھنے لگی تاکہ کوئی بھوکا شخص اسے اٹھا کر کھا لے۔ لیکن اب کئی دنوں سے وہ اس بات پر حیران اور پریشان تھی کہ روٹی کھڑکی کے باہر رکھنے کے چند ہی منٹ بعد ایک بوڑھا شخص لپک کر وہ روٹی اٹھاتا اور تیزی سے اچھلتا کودتا ہوا غائب ہو جاتا تھا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ روزانہ وہی بوڑھا آتا تھا‘ لیکن اضافی روٹی بنانے والی خاتون کو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا کہ شکریہ ادا کرنے کی بجائے وہ بوڑھا یہ الفاظ منمناتا ہوا بھاگ جاتا ''بُرا کرو گے تو بُرا ہو گا ۔۔۔۔ ‘‘
روٹی پکا کر کھڑکی میں رکھنے والی خاتون خانہ کو اس کبڑے شخص سے چڑ سی ہونا شروع ہو گئی۔ وہ سوچتی کہ وہ تو کسی بھوکے اور ضرورت مند کیلئے بڑی محنت اور پیار سے روٹی پکا کر رکھتی ہے لیکن ہر روز یہی کبڑا اسے چٹ کرنے کیلئے آ جاتا ہے اور پھر روٹی کھا کر شکریہ تک ادا نہیں کرتا۔ وہ خود سے الجھتے ہوئے کہتی: ''بجائے شکریہ کا کوئی ایک لفظ کہنے کے وہ روزانہ ایک ہی رٹا رٹایا مخصوص فقرہ دہراتے ہوئے نہ جانے کہاں چلا جاتا ہے۔ اسے میں نے قصبے میں گھومتے پھرتے بھی کبھی نہیں دیکھا‘ نہ جانے یہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے‘‘۔
ایک روز یہی سوچتے ہوئے اس کا سر غصے سے گھوم گیا اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس کبڑے شخص کی منحوس آواز سننے اور ہر روز اس کی شکل دیکھنے سے بہتر ہے کہ اس سے نجات پا لی جائے تاکہ اس کی جگہ قصبے کا کوئی بھوکا اور ضرورت مند اس کی پکائی ہوئی روٹی کھائے۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کر لیا کہ اگلے روز وہ اضافی روٹی میں چوہوں کو مارنے والا زہر ملا دے گی تاکہ یہ کبڑا مر جائے۔ اگلے روز اس نے ایسا ہی کیا۔ اضافی روٹی میں زہر ملا دیا۔ روٹی پکانے کے بعد جب وہ اسے کھڑکی سے باہر پتھر کی سلِ پر رکھنے لگی تو اس کے ہاتھ کانپنا شروع ہو گئے۔ اسے یک دم خیال آیا کہ وہ یہ کیا کرنے جا رہی ہے۔ اس طرح تو یہ بوڑھا اور کبڑا معذور شخص مر جائے گا اور کسی کو اپنی مدد کے لیے بھی نہیں بلا سکے گا کیونکہ اس کی تو آواز بھی صحیح طرح سے نہیں نکلتی۔ اس نے تصور میں
کبڑے کو زہر کی تکلیف سے تڑپتے ہوئے دیکھا تو فوراًَ وہ روٹی اٹھا کر آگ میں پھینک کر ضائع کر دی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے نوجوان بیٹے کا چہرہ گھومنے لگا اور اس نے آنسوئوں کی جھڑیوں میں ایک نئی روٹی پکائی‘ اس پر سالن رکھا اور اسے کھڑکی سے باہر رکھنے کے بعد اطمینان کا سانس لیتے ہوئے باورچی خانے کی دیوار سے لگ کر کھڑی گئی اور اس کبڑے بوڑھے شخص کا انتظار کرنے لگی جو ہر روز روٹی اٹھا لے جاتا تھا۔ چند لمحوں بعد وہ کبڑا شخص نمودار ہوا۔ اس نے ''بُرا کروگے تو بُرا ہو گا‘ بھلا کرو گے تو بھلا ہو گا‘‘ کا فقرہ منمنایا اور یہ جا وہ جا۔ وہ خاتون دیوار سے لگی یہ فقرہ سنتے ہی ایک بار پھر شدید غصے میں آ گئی۔ ساتھ ہی اسے اپنے کیے گئے گناہ کا شدت سے احساس ہونا شروع ہو گیا۔
اپنے کمرے میں آتے ہی وہ ننگے فرش پر سجدے کی حالت میں گر کر زور زور سے روتے ہوئے اﷲ سے اپنی اس حرکت کی معافی مانگنے لگی۔ نہ جانے کب تک وہ سجدے میں پڑی رو رو کر توبہ استغفار کرتی رہی۔ اچانک اس کے گھر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا جانے لگا۔ وہ بھاگ کر دروازے تک گئی۔ جونہی اس نے دروازہ کھولا تو اس کی خوشی اور حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے لاپتہ ہو جانے والا اس کا نوجوان بیٹا دروازے کے باہر والی دیوار کا سہارا لیے کھڑا تھا۔ وہ فرط جذبات سے چیختی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔ اپنے بیٹے کے منہ سر کو نہ جانے کتنی بار چومنے‘ اسے سینے سے بھینچ بھینچ کر لگانے کے دوران اسے اچانک ایسا لگا کہ اس کا بیٹا تو بہت ہی کمزور اور لاغر ہو چکا ہے۔ اس کے جسم کو ٹٹولتے ہوئے اسے وہاں سوائے ہڈیوں کے اور کچھ محسوس نہ ہوا۔ وہ اپنے بیٹے کو جلدی سے گھر کے اندر لے آئی اور یہ دیکھ کر اور بھی پریشان اور غمزدہ ہو گئی کہ اس کے بیٹے نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ انتہائی گندہ اور میلا ہونے کے علاوہ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کئی روز سے بھوکا ہے۔ اپنے لاڈلے کو اس حالت میں دیکھ کر ماں کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا اور وہ دیوانہ وار اس سے لپٹ کر زور زور سے چیخنے لگی۔
کچھ دیر بعد اپنی ماں کے آنسو پونچھتے ہوئے بیٹا انتہائی کمزور سی آواز میں کہنے لگا: '' ماں! میری یہ حالت کیسے ہوئی۔ کیسے میں اغوا ہوا اور کہاں غائب رہا‘ یہ ایک لمبی کہانی ہے‘ لیکن یہ ایک معجزہ ہے کہ آج اس وقت میں تمہارے سامنے زندہ سلامت حالت میں موجود ہوں۔ نہ جانے کتنی دور سے بھوکا پیاسا پیدل چلتا ہوا جب میں اپنے قصبے سے کوئی ایک کلومیٹر کے فاصلے پہنچا تو بھوک اور
نقاہت سے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے کوئی ہوش نہ رہا اور میں سڑک کے بیچ گر کر بے ہوش ہو گیا۔ رات کے اندھیرے میں وہاں سے گزرنے والی کسی بھی گاڑی نے مجھے کچل کر رکھ دینا تھا کہ اچانک ایک بوڑھا اور کبڑا شخص میری مدد کو پہنچا۔ اس نے مجھے اپنے بازوئوں میں لے کر نہ جانے کس طرح سڑک سے اٹھایا اور اپنے تھیلے میں رکھی ہوئی بوتل سے پانی کے چند قطرے میرے منہ میں ڈالے تو مجھے زندگی کا کچھ احساس ہونے لگا۔ دل چاہتا تھا کہ سارا پانی پی جائوں۔ میں نے اس سے بوتل لینے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے زیادہ پانی پلانے سے گریز کیا۔ میں تین دنوں سے بھوکا تھا۔ بڑی مشکل سے میرے منہ سے روٹی کا لفظ نکلا تو اس کبڑے نے اپنے تھیلے سے روٹی نکال کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سالن کے ساتھ میرے منہ میں ڈالنا شروع کر دیے۔ جب ساری روٹی ختم ہو گئی تو پانی پینے کے بعد مجھ میں زندگی کے آثار آنا شروع ہو گئے۔ اپنے تھیلے میں رکھی ہوئی ساری روٹی کھلانے کے بعد کبڑا شخص بولا؛ ''بھیک میں ملی ہوئی یہ روٹی میں روزانہ قصبے کے ایک گھر سے لا کر کھاتا ہوں‘ لیکن آج چونکہ تم مجھ سے زیادہ اس روٹی کے مستحق تھے اس لیے خود آج بھوکا رہ لوں گا‘ تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔‘‘۔ بیٹے کے منہ سے یہ سنتے ہی ماں کے سامنے وہ زہر ملائی ہوئی روٹی تیزی سے گھومنے لگی ۔۔۔ اس کی زبان سے ایک ہی فقرہ نکل رہا تھا: '' برا کرو گے تو برا ہو گا۔۔۔۔ بھلا کرو گے تو بھلا ہو گا‘‘