تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-12-2013

بربادی کا نسخہ

سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ کہا تھا: کسی ملک کو اگر برباد کرنا ہو تو قوم کو اس کی فوج سے مایوس کر دینا چاہیے۔ 
شوگر مل کے ساتھ تین کلو میٹر تک ٹرالیوں کی قطاریں۔ گنے سے لدی ٹرالیاں۔ ٹریکٹر کے ٹائر پر براجمان ایک ڈرائیور یا شاید کسان‘ گنا چوستا ہوا۔ عام حالات میں یہ منظر کتنا دلآویز ہوتا۔ عبداللہ حسین نے لکھا: سحر دم زمین میں ہل چلانے کا منظر بہت دل گداز ہوتا ہے۔ ہم کسان زادوں کو بادِ بیابانی کا ہر اسلوب خوش آتا ہے۔ پرسوں شام کاشتکاروں سے گفتگو نہ ہوئی ہوتی؟ دل دکھ سے بھر گیا۔ 
پژمردہ چہرے‘ ٹوٹے ہوئے دل اور شکستہ لہجے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ آٹھ آٹھ دن تک شوگر مل کے دروازے پر کھڑے سوکھتے ہیں۔ اس سے بھی پہلے حصولِ پرمٹ کا توہین آمیز مرحلہ۔ کلرک بادشاہ کی بارگاہ میں حاضری۔ گاہے پورا دن برباد۔ اب گنے تُلنے کا مرحلہ ہے۔ کنڈا باہر سے لگا ہے اور میٹر کمرے کے اندر۔ کھڑکی میں سے ہاتھ بڑھا کر پرچی وصول کر لو۔ 100 کلو تو لازماً ڈکار جاتے ہیں۔ کبھی کبھی اس سے زیادہ بھی۔ اگر کسی نے راستے میں تلوا لیا تھا۔ دبی زبان میں بھی‘ نہایت ادب کے ساتھ بھی اگر اس نے گزارش کی کہ وزن ٹھیک نہیں لکھا گیا تو اس کی شامت آئی۔ صاف انکار۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہیں اس نے بوجھ اتار پھینکا اور واپس چلا گیا۔ سال بھر کی محنت رائیگاں‘ تذلیل اس کے سوا۔ کبھی ٹھیکیداروں کے توسط سے بھی خریداری کی جاتی تھی۔ اب اس پر پابندی ہے۔ وہ کھیت سے پیداوار اٹھا لے جاتے۔ 130 روپے 
من کے حساب سے۔ بار برداری کا خرچ ان کے ذمے۔ نقد ادائیگی۔ شوگر مل کو براہ راست بیچا جائے تو 170 روپے لیکن ایک ایک قدم پر کوفت۔ پچھلے برس بھی یہی نرخ تھے۔ کھاد اور پٹرول سمیت ہر چیز گراں ہوئی مگر کسان کے پسینے‘ شب بیداری اور گنے کی قیمت نہ بڑھی۔ کوئی داد نہ فریاد۔ 
 
نہ سوالِ وصل نہ عرضِ غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں  
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے 
 
شوگر مافیا۔ سب سیاسی پارٹیوں پر ان کی حکمرانی ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے حکمران خاندانوں کی شوگر ملیں‘ سب زیادہ ہیں۔ چودھریوں نے کیا سب کی سب بیچ ڈالیں یا کچھ باقی۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کی ملیں ایک سے زیادہ ہیں۔ کئی برس ہوتے ہیں۔ ان کے ایک کمتر حصے دار نے پیپلز پارٹی کی مرکزی اور نون لیگ کی صوبائی حکومت سے سازباز کر کے چار عدد کارخانوں پہ قبضہ کر لیا۔ مظلوم آدمی اس قدر حواس باختہ کہ اس نے لب سی لیے۔ کراچی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار میں چھوٹی سی خبر چھپی تو تجسس جاگا۔ ان کے ہم نفس اور ہم درد ایک با خبر سے بات کی تو اس نے تفصیلات بتائیں۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والی تفصیلات۔ کالم لکھا تو چرچا ہوا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادتیں اندیشے میں مبتلا ہوئیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی یلغار کا 
خوف۔ کچھ دن میں وہ نجات پا گئے۔ خاموشی کے ساتھ لین دین کے بعد۔ بعدازاں سرگوشی میں کسی نے بتایا کہ دو ملین ڈالر کا نقصان انہیں پہنچا ہے۔ نوسرباز بعد میں پنجاب کا گورنر بنا۔ دونوں پارٹیوں سے اس کے مراسم خوشگوار ہیں۔ سندھ میں واقع انہی صاحب کی ایک شوگر مل پہ‘ مبینہ طور پر زرداری صاحب نے قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ کہا گیا کہ اپنی مرضی کے داموں پر خریدنے کی‘ جو ان کا شعار ہے۔ کراچی میں اس طرح کے ہزار قصے مسافر نے سنے ہیں۔ کوئی تحقیق کر سکے تو ایک اور طلسم ہوشربا لکھی جا سکتی ہے۔ کسی نہ کسی طرح وہ بچ نکلے۔ مختلف ذرائع سے جو کچھ سنا‘ اس کے مطابق تحریکِ انصاف کے یہ رہنما‘ اب خود بھی نمک کی کان میں نمک بن چکے۔ وہی شعار‘ وہی اطوار۔ اپنے دوستوں کو عمران خان نے قلق کے ساتھ بتایا کہ ایک موزوں اور معتبر آدمی کو وہ پختون خوا کا محتسب بنانے کے آرزو مند تھے مگر ان کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ ''مجھے صدمہ پہنچا‘‘ اس نے کہا۔ 
صدمہ؟ خود ترحمی لیڈر کا طریق نہ ہونا چاہیے۔ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا۔ سیاست بجا اور لازم مگر اس سے زیادہ ملک کو شاید ایک اخلاقی تحریک کی ضرورت ہے۔ مزدور بے حال ، تنخواہ دار پامال اور کسان کا حال اس سے بھی بدتر۔ وہی ایک صدی پہلے کی صورت حال۔
 
دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ 
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
 
وہ مزدور انجمنیں کیا ہوئیں ؟ کسانوں کا دکھ رونے والے کہاں چلے گئے؟ مہنگائی اور بے روزگاری کا عفریت آبادیوں کو روندتا چلا جاتا ہے۔ نوجوانوں کو آسودہ کرنے یا کہیے کہ لُبھانے، فریب دینے کے لیے سو ارب خرچ ہوں گے۔ چار سو ارب سرکاری کارپوریشنیں ہڑپ کرجائیں گی۔ شاید اتنا ہی روپیہ ٹھیکیداری نظام کی نذر ہوجائے گا۔تین ہزار ارب ہر سال بتیس لاکھ ٹیکس نادہندگان نگل جاتے ہیں۔ پھر کشکول کے سوا اور کیا؟ امریکی غلامی کے سوا اور کیا؟
اعظم سواتی نے کہا تھا کہ پختونخوا میں ٹھیکیداری نظام کو شفاف بنانے کے لیے ایک نئے نظام پہ عرق ریزی کا سلسلہ جاری ہے۔ پٹواری سے نجات دلادی گئی مگر وہ محتسب ؟ اس سے گریز کیوں تھا؟ اس کے لیے فریب دہی کیوں ہوئی؟ پھر یہ کہ پختونخوا میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینا ممکن ہی نہیں۔ صوبے کا صوبہ دہشت گردی کی آگ میں جلتا ہوا۔ سرمایہ کاری کو امن اور استحکام درکار ہوتا ہے۔ سرمایہ ایسے دیار کا رخ نہیں کرتا،وہاں سے فرار ہوا کرتا ہے۔ لاکھوں خاندان پشتون پٹی سے ہزارہ یا پنجاب کو ہجرت کرچکے۔ یورپی تسلط کے بعد، ایک ریڈ انڈین سردار ہیسٹل نے یہ کہا تھا: ''زندگی ختم ہوئی‘ اب تو محض جینا ہے‘‘۔
اب مسلح افواج پہ یلغار ہے۔ بجا کہ بہرحال ملک کو مارشل لاء سے محفوظ رہنا چاہیے۔ جنرل کیانی کے چھ برس اور اب جنرل راحیل شریف کا تقرر ہو جانے کے بعد اس قدر اندیشہ کہاں سے پھوٹ پڑا ہے؟ پچھلے ہفتے کامرہ میں تھنڈر 17جہاز کی تقریب کے ہنگام وزیراعظم نے یہ کہا: اب اتنی بڑی فوج کی ضرورت نہیں۔ ڈیڑھ لاکھ شورش زدہ علاقوں میں متعین‘ کم از کم پچاس ہزار بلوچستان کو درکار۔ بھارتی سرحد کے لیے کتنی فوج باقی بچی؟ پھر یہ کہ وہی دستے مستقل طور پہ متعین نہیں رہ سکتے۔ پرسوں زرداری صاحب فوج پہ پل پڑے۔ آخر کیوں ؟ پاکستانی فوج کا حریف کون ہے؟ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور بھارت جو ثانی الذکر کینہ پرور حلیف ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں‘ ایران اور چین کے خلاف بھی۔ جو ہندوستان کو دوسرا اسرائیل دیکھنا چاہتی ہے۔ ہمارے سیاستدان امریکی ایجنڈے کو سمجھتے نہیں یا اس کے ہمنوا ہوگئے‘ کم نظر یا مفادپرست؟ رہا میڈیا‘ تو خاموشی ہی بہتر ہے۔ اب ان میں سے بیشتر افواہوں کی چراگاہوں میں چرتے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ کہا تھا: کسی ملک کو اگر برباد کرنا ہوتو قوم کو اس کی فوج سے مایوس کردینا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved